گزشتہ اتوار کو بھارت کے جنگی طیارے ایک سو کے قریب اعلیٰ افسروں اور عملے کو لے کر یکے بعد دیگرے سعودی عرب کے شہر طائف کے ہوائی اڈے پراترنا شروع ہوئے۔ سب سے پہلے سخوئی ایم کے ون، پھرC-17 گلوب ماسٹر پھر C-130سپر ہرکولیس اور سب سے آخر میں IL-78نے لینڈکیا۔ شاید سعودی عرب کی تاریخ میں اس کی سرزمین پر بھارتی ایئر فورس کی یہ پہلی لینڈنگ تھی۔ لگتا ہے، عرب ممالک کی تاریخ ایک نیا رنگ لینے والی ہے کیونکہ عین اسی دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی متحدہ عرب امارات میں ایسے شانداراستقبال کے ساتھ ابو ظہبی کی سر زمین پر اترے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔
34 برس میں متحدہ عرب امارات کا پہلا سرکاری دورہ کرنے والے بھارتی وزیراعظم اور امارات حکومت کے مشترکہ اعلامیہ میں جس قسم کے الفاظ استعمال کئے گئے اور امارات کی تاریخ میں پہلی بارکسی بھی غیر مسلم سربراہ کو دبئی سٹیڈیم کی وسیع گرائونڈ مہیاکرتے ہوئے وہاں پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اس پر سفارتی اور سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
دبئی سٹیڈیم میں بھارتی افراد کے بہت بڑے اجتماع سے خطاب میں نریندر مودی کے یہ الفاظ کہ ''مجھے یقین ہے، جن کے متعلق میں یہ بات کہہ رہا ہوں وہ بھی لازمی سن رہے ہوں گے کہ سائوتھ ایشین ممالک، افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش تک سب بھارت کی ترقی اور خوشحالی میں ہم قدم اور حصہ دارہیں اور وہ جنہیں بھارت اور خطے کے عوام کی ترقی منظور نہیں وہ اپنا راستہ الگ سے منتخب کر لیں، ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ یہ اشارہ شاید ''منی سارک‘‘ یا خلیجی ممالک پر مشتمل کسی نئی تنظیم کی جانب تھا جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ دبئی سٹیڈیم میں نریندر مودی کے چبا چبا کر پاکستان کے خلاف ادا کئے گئے الفاظ ، کیا اس پر اچانک وارد ہوئے تھے؟ دبئی جہاں سیاست پر گفتگوکرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، وہاں ایک جلسہ عام میں پاکستان کے خلاف الزام تراشیاں اور اسے دہشت گردی کا مرتکب قرار دینا کیا اخلاقی لحاظ سے ان دونوں ممالک کے لئے منا سب سمجھا جائے گا؟ کیا امارات کی حکومت کے اس اقدام سے وہاں موجود ہندوئوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف مزید نفرت کو تقویت نہیں ملے گی؟
متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین 75 ارب ڈالرکے دفاعی، نیوکلیئر اور خلائی ٹیکنالوجی کے معاہدوں اور سمجھوتوں کے علاوہ مذہبی سکالروں کے ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کوضروری قرار دیا گیا ہے اور اس ضمن میں ابتدائی طور پر ابو ظہبی میں ایک عظیم الشان مندرکی تعمیر کے لئے زمین بھی عطیہ کر دی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے ابوظہبی میں تعمیر ہونے والے مندرکے لئے بابری مسجدکی بے کار پڑی ہوئی اینٹیں ہی استعمال میں آجائیں۔ دبئی سٹیڈیم میں پاکستان کو اپنا ماتحت اورفرمانبردار رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے مودی نے اسے سارک سے باہرکرنے کا جواشارہ دیا ہے وہ بے محل نہیں۔
یہ سب کچھ فوری طور پر نہیں ہوا بلکہ بھارت کی جانب سے اس کی تیاریاں بہت پہلے سے شروع ہوگئی تھیں۔ اس بارے میں ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے کہ بھارتی سرکار بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان پر مشتمل ایک ''منی سارک‘‘ قائم کرنے میں دن رات مصروف ہے تاکہ پاکستان کو اس سے علیحدہ کرتے ہوئے خطے میں اس کا اثر کم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان موٹر وہیکلز معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں تاکہ مسافر گاڑیوں، بسوں اور مال بردار ٹریفک کوان ممالک کی سرحدوں پر بلا روک ٹوک آتے جاتے وقت اپنے ہی ملک جیسی سہولتیں میسر آ سکیں۔اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں تھیمپو (بھوٹان کا دارالحکومت) تک یہ سہولت مہیا بھی کر دی گئی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد یہ بھی ہے کہ بھارت کی سربراہی میں قائم کی جانے والی اس منی سارک کے ذریعے حاصل ہونے والے ثمرات لوگوں کو دکھائے جائیں تاکہ وہ بھارت کو سراہنے لگیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطا بق ان چاروں ممالک کے شہریوں کی آمدورفت اور ان کے کارگو سامان کی نقل و حمل میں جب آسانی ہوگی اور انہیں کسی بھی قسم کی سرکاری یا انتظامی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی تواندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کے لوگوں کی جغرافیائی سوچ کیا ہوگی۔
پانچ جون2015ء کو نریندر مودی اپنے 36 گھنٹوں پر محیط مصروف ترین دورے پر جب بنگلہ دیش پہنچے تو وہاں انہوں نے بنگلہ دیش بنانے میں اپنے اور بھارتی کردار پر جو کچھ کہا وہ دنیا کے سامنے ہے، لیکن وہ بات جس کا ذکر بہت کم ہوا وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دیرینہ متنازع سرحدی علاقے کی17160 ایکڑ زمین پر بنگلہ دیش کی ملکیت کوتسلیم کرنا ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان دریائے Teesta اورFeniکے پانی کا مسئلہ ہی تصفیہ طلب ہے۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی کو مودی اپنے ساتھ خصوصی طور پر بنگلہ دیش لے کر گئے اور ان کی موجودگی میں ڈھاکہ‘ گوہاٹی اور کولکتہ‘ ڈھاکہ اور اگرتلہ کے درمیان بس سروس کی سہولیات مہیا کرنے کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ بھارت میں اس بس سروس معاہدے کے بعد یقین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب انگریز دورکی طرح متحدہ ہندوستان میں کولکتہ اور دارجلنگ کے علاوہ امین گائوں (بنگلہ دیش) اور مغربی بنگال کے درمیان ریلوے سرس بحال ہو جائے گی۔ نریندر مودی نے بنگلہ دیش کو خوش کرنے کے لئے ممتا بینر جی کا خوب استعمال کیا لیکن جب حسینہ واجد نے ممتا بینر جی سے دونوں ملکوں کے درمیان حل طلب پانی کے مسئلے پر بات کی تو وہ ایک اداکارانہ مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ کہہ سکی۔ بھارتی وفد کے ساتھ آئے حکومتی لوگوں نے بنگلہ دیشی میڈیا اور دانشوروں سے گفتگو میں یقین دلایا کہ اس سلسلے میں نئی دہلی کی جانب سے بنگالی عوام کو راضی کیا جا رہا ہے، لیکن شنید یہ ہے کہ نئی دہلی کی جانب سے جان بوجھ کر بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان فرخا بیراج سمیت پانی کے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کو التوا میں رکھتے ہوئے ابھی اسے لالی پاپ تک ہی محدود رکھا جا رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ کو دیکھنے کے بعد بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ ایران، پاکستان اور بھارت کی مجوزہ گیس پائپ لائن صرف پاکستان تک ہی محدود رہے گی ۔ دوبئی سٹیڈیم میں بڑودہ (گجرات) میں تین ہزار سے زائد مسلمان بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قاتل جب پاکستان کے خلاف گرج برس رہا تھا تو سفارتی حلقے اس بات کے اشارے دے رہے تھے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امارات کے حکمران امریکہ کی اجازت اور مرضی کے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا سکیں۔ ایک جانب چین کا پاکستان کے لئے 46 ارب ڈالر کا پراجیکٹ تو دوسری جانب بھارت کے لئے ایک مسلمان ملک کا75 ارب ڈالر کا پراجیکٹ! آخر کوئی تو ہو گااس پردے کے پیچھے۔۔۔۔!