جنگ ستمبر کے معرکہ حق و باطل کوگزرے آج پچاس برس ہو چکے ہیں ہماری آج اور کل کی نئی نسل کیلئے جنگ ستمبر کا پس منظر جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ یہ کیوں اور کیسے شروع ہوئی؟ بدقسمتی سے ہمارے دانشور وں اور ان کے سرپرست سیا ستدانوں کا ایک بڑا طبقہ میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل اس تاثر کو عام کرتا چلا آ رہا ہے کہ جنگ ستمبر پاکستان کے چند جرنیلوں کی مہم جوئی کے سوا اور کچھ نہیں تھی۔ امن کی آشا اور نت نئی میڈیا تنظیموں کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹ کا جواب سچائی کے کوڑوں سے دینا ضروری تھا لیکن حکمرانوں کی مصلحتوں، کمزوریوں اور ذاتی مجبوریوں نے انہیں پابند کئے رکھا جس کی وجہ سے گزشتہ نسل تو اپنی جگہ آج کی جوان نسل بھی یہ نہ جان سکی کہ سچ کیا تھا؟ بلکہ ان کے ذہنوں میں بھارت کی فوجی طاقت اور جواں ہمتی کی کہانیوں اور فلموںکے ذریعے یہی تاثر ٹھونسا جاتا رہا کہ پاکستان کو جنگ ستمبر میں شکست ہوئی تھی پاکستان کو مہم جوئیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے والا دانشوروں کا یہ مخصوص گروہ بھارت کی عیاری اور چالاکی کی بات کرنے سے ہمیشہ کتراتا رہا ؟
کشمیر پر ڈوگرہ راجہ کی حمایت کے نام پر بھارتی جارحیت یعنی پہلی پاک بھارت لڑائی کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہونے والی جنگ بندی کو دوسال بھی نہیں گزرے تھے کہ 1951ء میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر لیا اور سات سال بعد 1958ء میں اس معاہدے کی امریکہ نے اس کے با وجود پھر توثیق کر دی کہ بھارت غیر جانبدار ممالک کی صف میں شامل روس کا اتحادی تو دوسری طرف پاکستان امریکہ اور یورپ کا اتحادی بن چکا تھا۔
پنڈت نہرو نے چین مخالف دونوں بلاکوں کی ہمدردیاںسمیٹنے کیلئے‘‘ نومبر 1962ء میںنیفا میں چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کا آغاز کر دیا جس کا سلسلہ جنگ کی صورت میں پھیلتا چلا گیا۔ بھارت کے کمیونسٹ چین کے ساتھ اس ٹکرائو پر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے بھارت کو بغیر سوچے سمجھے فوجی سازو سامان کی بھر مار کردی۔ حالانکہ چین اور بھارت کی لڑائی اچانک شروع نہیں ہوئی تھی بھارت کی ہمیشہ سے بالا دستی کے خواب کی وجہ سے یہ لاوا گزشتہ دس سالوں سے پک رہا تھا۔ اس وقت کی بھارتی فوجی اور سیا سی قیادت نے اپنی فوج اور عوام کا مورال بلند کرنے کیلئے سب سے پہلے مالا بار کے ساحل پر پرتگالی کالونی''گوا‘‘ کو منتخب کیا۔ اس معرکہ آرائی سے پہلے اکتوبر1961ء میں نئی دہلی میں بھارت نے پرتگالی استعمار کے موضوع پر اپنے خرچ پر افریشیائی سیمینار منعقد کرایا۔ اس میں '' مدعو‘‘ کئے جانے والے مقررین نے ایک ہی نکتے پر زور دیا کہ جب تک گوا پرتگالی استعمار کے زیر اثر ہے ہم سمجھیں گے کہ بھارت کا مغربی استعمار کے خلاف ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ پنڈت نہرو نے سیمینار سے اپنے اختتامی خطاب میں کہا ''مندوبین کے خیالات نے ہمارے مزاج کو استعمار کے خلاف پہلے سے بھی زیا دہ حساس بنا دیا ہے‘‘۔ سیمینار کے ٹھیک ایک ماہ بعد بھارتی فوج نے گوا پر چڑھائی کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا اور اس قبضے کے ساتھ ہی پورے بھارت میں جنونی قسم کے جشن کا سلسہ شروع ہو گیا۔ پنڈت نہرو نے اس قبضے کے نشے میں سرشار پریس کانفرنس کے دوران چین کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال پرکہا'' بے شک ہمارے پاس طاقت کے استعمال کا طریقہ موجو دہے جسے منا سب موقع پر استعمال کیا جانا چاہئے‘‘ پنڈت نہرو کی اس پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز بھارت کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری نے ایک جلسہ عام میں چین کو دھمکی دی کہ اگر چینیوں نے ہمارا علاقہ خالی نہ کیا تو ہمیں گوا کا واقعہ دہرانا پڑے گا اور پھر ہم چینی فوجیوں کو پرتگالیوں کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ اسی جلسہ میں کانگریس کے صدر سنجیوا ریڈی نے بڑھک مارتے ہوئے کہا'' اپنی سر زمین سے چین اور پاکستان دونوں سے یکساں سلوک کرتے ہوئے جلد ہی ان کی جارحیت کو ختم کر کے رکھ دیں گے ۔ ابھی گوا کے جشن کا نشہ کم نہیں ہوا تھا کہ پنڈت نہرو نے بارہ اکتوبر1962ء کو بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ متنازع علاقہ فوری طور پر چین سے خالی کرائیں‘‘۔اور پھر بیس اکتوبر کو بھارتی فوج نے لداخ اور
شمال مشرقی سرحدی ایجنسی نیفا میں چینی فوجوں پر حملہ کر دیا چند دن کی شدید لڑائی کے بعدنومبر میں چینی فوجوں نے بھارت کے مزید دو ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر نے کے بعد نیفا کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جس سے صاف لگ رہا تھا کہ اگلے چند دنوں میں چین آسام پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ امریکہ خم ٹھونک کر میدان میں آگیا اور اس نے چین کو خوفناک قسم کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں‘ جس پر چین نے21 نومبر کو یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
چین پر یلغار نے بھارت کوسخت خطرے میں ڈال دیا جس پر 29 دسمبر کو '' ناسائو‘‘ میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھارت کو ہنگامی طور پر بارہ کروڑ ڈالر کی فوجی امداد دینے کا فیصلہ کیا گیا دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے بھارت کی فضائیہ کی ضروریات کا جائزہ لینے کیلئے بھارت کا دورہ کیا۔ 20جون 1963ء کو مزید جدید قسم کے ہتھیار‘ ریڈار کے ذریعے وسیع مواصلاتی نظام، فضائی نقل و حمل اور تربیتی سہولتوں کی فراہمی پر مشتمل اسلحہ کی سپلائی شروع کر دی۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کی طرف سے بحری اور فضائی فوج کو ملنے والے اسلحہ کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی گیارہ ڈویژن پر مشتمل بری فوج کو 22 ڈویژن تک بڑھا دیا گیا ۔یہ اس وقت کے مشہور جنگی وقائع نگار اور صحافی نیول میکسویل نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ''بھارت
کیلئے اب واحد راستہ یہی رہ گیا ہے کہ وہ اپنی توجہ پاکستان پر مرکوز کر دے اور اس کے خلاف وہ ہتھیار استعمال کرے جو اسے حال ہی میں امریکہ ،برطانیہ اور کینیڈا سے حاصل ہوئے ہیں تاکہ چین کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد اپنے عوام اور دنیا بھر کی رائے عامہ میں اپنی بچی کھچی شہرت کو برقرار رکھ سکے‘‘۔ پنڈت نہرو نے بائیس ڈویژن پر مشتمل اپنی بری فوج کو امریکی اور روسی اسلحہ سے لیس کرتے ہوئے اگلی مہم جوئی کی با قاعدہ تیاریاں بھی شروع کر دیں لیکن 27 جون1964ء کو وہ اچانک انتقال کر گئے اور ان کی جگہ لال بہادر شاستری بھارت کے نئے وزیر اعظم بن گئے اور پھر نہرو کے بنائے گئے پلان اور پاکستان کو زبردست جھٹکا دینے اور اس کی طاقت آزمانے کیلئے21 دسمبر1964ء کو بھارت نے اپنے1950ء کے آئین کے آرٹیکل میں 356-57 کی نئی شقوں کا اضافہ کرتے ہوئے بھارتی صدر کو اختیار دے دیا کہ وہ کسی بھی وقت اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی ریاستی حکومت ختم کرتے ہوئے وہاں صدر راج نافذ کر سکتا ہے اور کشمیر میں چیف آف سٹیٹ اور وزیر اعظم کا عہدہ ختم کرتے ہوئے اسے بالترتیب گورنر اور وزیر اعلیٰ کا درجہ دے دیا۔ یہ پاکستان سمیت دنیا بھر کو پیغام تھا کہ کشمیر اب ریا ست نہیں بلکہ با قاعدہ بھارتی صوبہ بن چکا ہے۔ پھر اپنی طاقت دکھانے کیلئے بھارتی جی ایچ کیو میں تیار کیے گئے ''آپریشن کبڈی‘‘ کیلئے میجر جنرل پی اوڈن کو کمانڈرKILO مقرر کرتے ہوئے پانچ اور چھ اپریل 1965ء کی درمیانی شب رن آف کچھ میں پاکستان پر حملہ کر دیا گیا۔۔۔۔یہ تھا جنگ ستمبر کا پس منظر اور اس کی ابتدا ...!!