رن آف کچھ میں پاکستان کے ہاتھوں زبر دست ہزیمت اٹھانے اور پھر چھمب جوڑیاں کے بعد اکھنور کی طرف پاکستان کی تیزرفتار پیش قدمی کے جواب میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کی قصور سرحد سے چار میل کے فاصلے پر واقع بھارت کے تجارتی قصبے کھیم کرن کے ریلوے اسٹیشن کے ریسٹ ہائوس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اب ہم اپنی پسند کا محاذکھولیں گے۔ ایک جانب بھارت اپنے پسند کے محاذ کی تیاریاں کر رہا تھا تو دوسری جانب آزاد کشمیر اور پاکستان کی فوجیں مقبوضہ کشمیر کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے تھیں۔ چار ستمبر کو پاکستان جوڑیاں کے دروازے پر دستک دے رہا تھا‘ لیکن اس بند دروازے کے اندر داخل ہونے کیلئے '' ٹروٹی‘‘ کے انتہائی بلند علاقے پر قبضہ ضروری تھا کیونکہ بھارتی توپخانے اور ٹینکوں سے شدید گولہ باری‘ جوڑیاں پر باقاعدہ قبضہ کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ جوڑیاں کی طرف پیش قدمی کے دوران چھوٹی چھوٹی نہروں کی رکاوٹیں بھی پریشان کر رہی تھیں۔
قوم کو یہ بتانا ضروری ہے کہ جنگ ستمبر میں اگر معرکہ ٹروٹی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ان جوانوں اور افسروں سے بہت بڑی زیادتی ہو گی جنہوں نے بہادری اور شجاعت کے وہ کارنامے سر انجام دیے کہ جنگی تاریخ آج بھی حیرت زدہ ہے۔ جنگوں کی تاریخ میں معرکہ ٹروٹی ایک نا قابل یقین معرکہ ہے۔ دفاعی اور سفارتی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ معرکہ ٹروٹی ہی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ستمبر کا با عث بنا‘ کیونکہ اس کے بعد بھارت سمجھ گیا تھا کہ کشمیر اب ان کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کے انٹرنیشنل بارڈر کو کراس کر تے ہوئے لاہور پر حملہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔بھارتی جی ایچ کیو اکھنور اور جموں کی راہ میں بھارت کے اس مضبوط ترین مورچے کو پاکستان کے راستے میں ایک ناقابل تسخیر دیوار سمجھ رہا تھا لیکن پانچ ستمبر کو یہ پاکستان کے غازیوں کے قدموں تلے تھا۔
پانچ ستمبر کو جب لوگ معمول کے مطا بق ریڈیو سن رہے تھے کہ انائونسر نے پروگرام روک کر اعلان کیا کہ'' آزاد کشمیر کی فوج نے فائر بندی لائن سے اٹھارہ میل اند ر جوڑیاں کے اہم مقام '' ٹروٹی‘‘ پر قبضہ کرنے کے بعد اکھنور کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے‘‘۔ خواجہ محمد آصف صاحب نے 1965ء کی جنگ ستمبر میںجب افواج پاکستان کو بزدلی کے طعنے دیے تو میں نے ''زاغوں کے تصر ف میں ہے شاہین کا نشیمن‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس پر ای میل کے ذریعے مجھے اور پاک فوج کو دنیا بھر کی غلیظ گالیاں اور دھمکیاںدی گئیں۔ ایک لمحے کیلئے میرا خون کھول اٹھا اور فیصلہ کیا کہ اسے منہ توڑ جواب دوں‘ لیکن پھر سوچا کہ ہر ایک کا اپنا ظرف ہوتا ہے‘ گھریلو تربیت ہوتی ہے‘ میں ان جیسا کیوں بنوں۔ ایسے لوگوں کو کیسے بتائوں کہ پاکستان میری پہلی محبت ہے‘ جس کا آغاز اس وقت ہوا جب1955ء کے سیلاب میں‘ ہم پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو خاکی وردی والوں نے
خوراک مہیا کی اور پھر ہمیں محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ جنگ ستمبر میں محاذ جنگ سے ہم نے فوجیوں کی کٹی پھٹی لاشیں اپنے ہاتھوں سے قصور کے پرانے لاری اڈے کے ساتھ واقع قبرستانوں میں امانتاً دفنائی ہیں۔ میں نے شدید زخمی اور کٹے ہوئے جسموں والے فوجیوں کو نعرہ تکبیر کے فلک شگاف نعرے لگاتے اور بلبلاتے ہوئے یہ کہتے سنا کہ ''ہمیں محاذِ جنگ پر واپس بھیج دو‘‘۔
مجھے پاکستان اور اس کی فوج سے محبت پر گالیاں اور دھمکیاں دینے والے اور مجھے تعصب کی نگاہ سے نظر انداز کرنے والے جان لیں کہ یہ عشق اور بڑھے گا‘ جس کا آغاز 1955ء اور پھر چھ ستمبر سے شروع ہوا۔ پانچ ستمبر کی دوپہر قصور کے سرحدی گائوں سے لاہور جانے کیلئے گھر سے نکلا تو مجھے خلاف معمول کچھ فوجی نقل و حرکت نظر آئی‘ لیکن لوگ اپنے معمول کے مطا بق آ جا رہے تھے۔ شام تک میں لاہور پہنچ گیاکیونکہ اگلی صبح مجھے ایبٹ روڈ پر ایئرفورس کے سلیکشن سینٹر پہنچنا تھا۔ چھ ستمبر کی صبح صدر بازار سے لاہور ریلوے اسٹیشن آتے ہوئے مجھے فوجیوں سے لدے ٹرک آتے جا تے نظر آئے۔ اس وقت تک میری لاہور کی سڑکوں اور راستوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برا بر تھیں۔ ریلوے سٹیشن پہنچ کر سرخ رنگ کی دو منزلہ بس (ڈبل ڈیکر) کے او پر والے حصہ میں بیٹھ گیا تاکہ ایبٹ روڈ سے ملحقہ شملہ پہاڑی اتر سکوں۔ مسافروں میں عجیب قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ پتہ چلا کہ بھارت سے جنگ چھڑ گئی ہے۔ ابھی ہم جی ٹی ایس سٹینڈ پر بس میں ہی بیٹھے تھے کہ ایک خوفناک اور لرزا دینے والی چنگھاڑ نے ہلا کر رکھ دیا۔ ہماری اور ادھر ادھر کھڑی دوسری بسوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ لوگ گھبرا کر جلدی جلدی بس سے اترنے لگے۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا کہ بھارتی جہازوں نے بمباری کی ہے۔ لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو گیا۔ پھر افواہوں کا با زار گرم ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے کسی جیٹ فائٹر نے اپنی مقررہ سپیڈ توڑی تھی جس کی وجہ سے فضا میں زبردست ارتعاش پیدا ہوا۔ عوام کے ہجوم میں میری نظر اپنے ایک کلاس فیلو ارشد پر پڑی‘ جس کا گائوں فتح پور میرے قصبہ کے راستے میں پڑتا ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور پھر یہ ہجوم واہگہ کی طرف چل پڑا۔ میں اور میرا کلاس فیلوارشد چوہدری بھی واہگہ کی طرف چل پڑے۔ اس وقت ہم بھول گئے کہ ہمارے اپنے گھر تو با لکل سرحد کے ساتھ ہیں ( میرے اس دوست نے بعد میں پاکستان نیوی میں کمیشن حاصل کرلیا تھا اور وہ چند سال پہلے بحیثیت کما نڈر ریٹائرہوئے ہیں۔) ہم دونوں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ نعرے لگاتے واہگہ کی طرف چل پڑے۔ کچھ لوگوںنے ہاتھوں میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور چاقو پکڑے ہوئے تھے۔ ہم سب لوگ چلتے‘ دوڑتے‘ بھاگتے داروغہ والا سے کچھ آگے پہنچے تو پاک فوج کے کچھ جوان کھڑے لوگوں کو آگے جانے سے روک رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سڑک کے بائیں ہاتھ کچھ ہٹ کر اینٹوں کے ایک بھٹہ میں ہما ری رانی توپ اپنے جوہر دکھا رہی تھی۔ سرحدی علا قوں سے عورتیں‘ مرد اور بچے سروں پر سامان اٹھائے لاہور کی طرف بھاگے چلے آ رہے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے فوجی کانوائے کو گزرنے میں رکاوٹ پیش آ رہی تھی‘ اس لیے فوجی جوانوں کی بار بار درخواست پر ہم سب واپس شہر کی طرف چل پڑے۔
آج جب اس بات کو پچاس سال ہو چکے ہیں اور اسٹیشن سے داروغہ والا سے بھی آگے کے فاصلہ پر غور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ کونسی طا قت اور جوش و جذبہ تھا جس نے پیدل آنے جانے پرتھکاوٹ کا ذرا سا بھی احساس نہ ہونے دیا۔ سات ستمبر کو میں کسی نہ کسی طرح لاہور سے قصور اور پھر اپنے قصبہ پہنچ گیا‘ جہاں گھبرائے ہوئے لوگ ہر طرف جنگ کی باتیں کر رہے تھے‘ کیونکہ دشمن کے جہاز بار بار قصور اور اس کے نواحی دیہات فقیریئے والا کی آبا دیوں پر بمبا ری کر رہے تھے۔ اس بمباری سے کئی شہری شہید ہو چکے تھے۔ بی بی سی کے لاہور پر قبضہ کی خبر سے سب پریشان تھے۔ میں نے انہیں بتا یا کہ میں خود داروغہ والا سے بھی آگے تک ہو کر آیا ہوں‘ سب کچھ پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ (جاری)