بھارت کے26 انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر جنرل تھاپن کو31 اگست 1965ء کی شام لائن آف کنٹرول پر تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصر نے اطلاع دی کہ'' سیالکوٹ کی جانب سے پاکستانی آرمڈ کی ایک بھاری تعداد چھمب سیکٹر کے مقابل جمع ہو رہی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یو این او کے غیر جانبدار فوجی مبصرین اپنے فرائض منصبی میں کتنے مخلص ہوتے ہیں۔ پاکستان کی فوجی نقل و حرکت کی ایک ایک اطلاع بھارت کو کس قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر دی جا رہی تھی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے عسکری ذمہ داروںکو یہ پہلو آج بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جنرل تھاپن نے بارڈر پر تعینات فوجی مبصرکی جانب سے ملنے والی یہ اطلاع اسی وقت اپنے کور کمانڈر جنرل کوٹچ کو پہنچادی جو اس وقت آرمی چیف جنرل چوہدری کی سربراہی میں ہونے والی ایک بہت ہی اہم آپریشنل میٹنگ کے لئے سری نگر میں موجود تھا۔ بھارتی فوج جو انٹرنیشنل بارڈرکراس کرنے کی حتمی تاریخ طے کرنے کے لئے ابھی سوچ رہی تھی، فوجی مبصرکی جانب سے یہ اطلاع ملتے ہی سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ آپریشن جبرالٹر میں پاکستان اکھنور تک پہنچنے کے لئے اگلے چوبیس گھنٹوں میں کامیاب ہونے والا تھاکہ ایک انتہائی غلط انتظامی تبدیلی کر دی گئی جس نے اس آپریشن کا رخ ہی موڑ کر رکھ دیا۔ آپریشن جبرالٹر ایک علیحدہ اور طویل موضوع ہے۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا سچ ہے جسے پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ ایک دن قوم کے سامنے مکمل تفصیل سے لانا ہی ہو گا۔
30 اگست1965ء کو آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ نے تین بجے سہ پہر سگنل میسج نمبر1527میں خبردارکر دیا تھاکہ لال بہادر شاستری نے انڈین آرمی چیف جنرل چوہدری کو حکم دے دیا ہے کہ وہ فوری طور پر انٹرنیشنل بارڈرکراس کرتے ہوئے پاکستان کے اندر تک گھس جائے۔ آئی ایس آئی کی جانب سے یہ خفیہ اور فوری توجہ کا میسج صدر ایوب خان سمیت آرمی، نیوی اور فضائی افواج کے سربراہان کو اسی وقت پہنچا دیا تھا۔31 اگست کی شام جنرل چوہدری جیسے ہی نئی دہلی پہنچا، وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے ملاقات کا بلاوا آ گیا۔ جیسے ہی جنرل چوہدری پرائم منسٹر ہائوس پہنچا، شاستری نے سوال کیا:''کیا سب تیاریاں مکمل ہو گئی ہیں؟‘‘اس وقت تک جنرل چوہدری کا ذہن اپنی تیاریوں کے سلسلے میں مطمئن نہیں تھا،اس لئے اس نے شاستری کو بتایا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق پاکستان اس وقت مکمل الرٹ ہے اور اس نے اپنی فوجیں سرحدوں پر لگا دی ہیں، بلکہ اس کا آرمرڈ ڈویژن سیالکوٹ میں مختلف جگہوں پر پوزیشنیں لے چکا ہے۔ اس پرلال بہادرشاستری نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:''آپ تو کہتے تھے کہ ہماری سب تیاریاں مکمل ہیں، میں تو پارلیمنٹ کی کمیٹی کو بتا چکا ہوں کہ ہم حملہ کرنے والے ہیں، اب اگر ایسا نہ ہوا تو میں توکسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوںگا‘‘۔ اس پر جنرل چوہدری نے کہاکہ اس کی نظر میں ابھی حملہ کرنا درست نہیں ہو گا، اسے کچھ دیرکے لئے ملتوی کردیں تو بہتر رہے گا۔ اس پر شاستری بولے:''اب تو سب فوج کے ہاتھ میں دے دیا ہے‘‘ اور پھرکہا: ''March into Pakistan'' یہ سنتے ہی وہاں موجود دوسرے سب حیران رہ گئے کہ شاستری نے خود ہی انٹرنیشنل بارڈرکراس کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
یہاں سے اٹھتے ہی جنرل چوہدری نے اپنے تمام سینئر کمانڈرزکو آپریشنل کانفرنس کیلئے2 ستمبرکو نئی دہلی طلب کر لیا اور پھر انڈین فارمیشنزکو 2اور3 ستمبرکو اپنی معمول کی اور فارورڈ پوزیشنز سے پاکستانی سرحدوںکی جانب پھیلانا شروع کردیا۔ بھارت کے سینئر کمانڈرز کی اس نفرنس کا پہلا فیصلہ تو یہی تھا کہ دس دن تک فوجوں کی یہ تمام ڈیپلائمنٹ مکمل ہو جائے گی، لیکن چھمب سیکٹرکی صورت حال نے اس میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے چار دنوں میں مکمل کرنے کا ٹاسک دے دیا، لیکن جیسا کہ اوپرحوالہ دیا گیا ہے آئی ایس آئی نے اپنی خفیہ معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے 30 اگست کو ایک سگنل کے ذریعے بھارتی حملے کی اطلاع دے دی تھی۔
بھارت کی ویسٹرن کمانڈ نے 5 ستمبر کی رات دریائے بیاس کے پل سے کسی بھی قسم کی شہری ٹریفک کو گزرنے سے روک دیا اور اس طرح 9 گھنٹوں کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی فوج کی متعلقہ فارمیشنز 6 ستمبر کو صبح چار بجے حملہ کرنے کے لئے سرحدوں پراپنی مقررہ جگہوں پرڈ یپلائے ہوگئیں۔ دشمن کو دھوکہ دینے کے لئے کمانڈر ویسٹرن کمانڈ جنرل ہر بخش سنگھ نے 5 ستمبر کو اپنے کچھ دوسرے سینئر افسران کے ہمراہ شملہ میں شہریوںکی جانب سے دی جانے والی ضیافت میں شرکت کی۔ جب ہر بخش سنگھ اپنے ساتھ کچھ سینئر افسران کے ہمراہ شملہ کے اس لنچ میں مصروف تھا،ایک ہیلی کاپٹر انہیں ٹھیک تین بجے یہاں سے جالندھر لے جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔
5 ستمبر کی شام ایک جانب ریڈیو پاکستان سے بریکنگ نیوز دی جا رہی تھی کہ آزاد کشمیر فورسز نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے اور اب وہ اکھنورکی طرف بڑھ رہی ہیں اوراس کے کچھ دیر بعد آل انڈیا ریڈیو سے وقفے وقفے سے پراسرار قسم کے اعلانات نشرکئے جا رہے تھے۔۔۔۔مثلاً شام پانچ بجے کے قریب ایک اعلان نشر ہوا کہ علاقہ نمبر ایک میں اگلے دو دنوں میں دو مقامات پر سخت بارش ہوگی۔ اس اعلان کو آل انڈیا ریڈیو سے بار بار دہرایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد پھر آل انڈیا ریڈیو کا پروگرام روک کراعلان کیا گیا کہ ''علاقہ نمبر ایک کے لئے آج کوئی وارننگ نہیں ہے‘‘۔
اپنے طے شدہ پلان کے مطابق بھارت نے 6 ستمبرکی صبح چار بجے پاکستان پر حملہ کر دیا جس کی ابتدا لاہورکے تین اطراف باٹا پور، برکی اور بھینی پر پورے تین ڈویژنوں سے کی گئی۔ برکی پر بھارت کے ساتویں انفنٹری ڈویژن اور باٹا پور اور بھینی پر پندرہویں ڈویژن سے حملہ کیا گیا جس کے ساتھ ایک ایک ٹینک رجمنٹ اور بھاری توپ خانہ شامل تھا۔
بھارت کے اس طوفانی لشکر، جسے تین سو توپوں کی مدد حاصل تھی کے مقابلے میں پاکستان کا صرف ایک ڈویژن تھا۔ آج اس بات کو پچاس برس گزر گئے ہیں لیکن نئی نسل ذرا ذہن میں لائے کہ لاہور پر حملہ کرنے والی بھارتی فوج کی پیدل نفری 35 ہزار تھی جس میں ٹینکوں کی نفری شامل نہیں اور ساتھ ہی بھارت کا مشہور چھاتہ بردار 50 بریگیڈ تھا۔ طاقت اور بے پناہ نفری کے نشے میں چور بھارتی کمانڈروں نے کہا: ''ہم لاہور لینے کے لئے اپنی80 فیصد نفری کی بلی دے دیںگے‘‘۔ لاہورکی جانب بڑھنے کے لئے بھارت کے ساتویں انفنٹری ڈویژن کے بریگیڈیئر سیبل نے ہڈیارہ کی جانب سے بھر پور حملہ کر دیا۔ آج جب نئی نسل یہ پڑھتی یا سنتی ہے کہ صرف ہڈیارہ کے محاذ پر بھارت کی9 ہزار فوج کے مقابلے میں پاکستان کے صرف پندرہ سو فوجی تھے توکوئی بھی یقین نہیںکرتا کہ اس قدرکم نفری سے یہ حملہ کیسے روک دیا گیا۔ یہی تو جنگوں کی تاریخ کا ناقابل تردیدسچ ہے۔ اس کے لئے آج کی نسل کو1965ء کی جوان نسل کے کسی فرد سے پوچھنا ہوگا۔ وہ بتائے گا کہ ''مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘۔ اسی لاہورکے محاذ پر میجر شفقت بلوچ نے بریگیڈیئر پیارا سنگھ کو بے بس کیا اور عزیز ملت میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر اور صوبیدار شیر دل نے بی آر بی کے اس پار بھارتی فوج اور اس کی ٹینک رجمنٹ کو اپاہج کر کے رکھ دیا!