لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ نے اپنی کتاب ''In the line of duty'' کے ایک باب میں بھارتی فوج کی یونٹوں ، بٹالینز اور بریگیڈز میں شامل مختلف قومیتوں کی آپس میں چپقلش اور لسانی فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں ہوش ربا حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے:'' پاکستان کے خلاف 71ء کی جنگ کے دوران بھارت کی آسام رجمنٹ فاضلکا سیکٹر میں تعینات تھی۔ اس سیکٹر کی کمان ایک ایسا افسر کر رہا تھا جو سکول میں ہر بخش کا سینئر تھا۔ جیسے ہی جنگ شروع ہوئی بے شمار آسامی فوجی اپنی یونٹوں کو چھوڑ کر محاذ جنگ سے ادھر ادھر بھاگ گئے ‘جس سے بہت سی پوسٹیں خالی ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فوجی جو محاذ جنگ پر مو جود تھے ان کا ایک تو مورال پہلے سے بھی گر گیا اور ساتھ ہی وہ آسامیوں کے خلاف ہو گئے ۔ فاضلکا سیکٹر سے بھاگے ہوئے ان آسامیوں کو اس علاقے کے حدود ابعہ کا کچھ پتہ نہیں تھا‘ اس لئے ان کے پاس جدھرمنہ سمائے‘ بھاگنے کے علا وہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ بھارتی فوج کے افسران نے مقامی دیہاتیوں اور پولیس سے مل کر ان آسامی فوجیوں کی تلاش شروع کر دی جو شکل و صورت میں یہاں کی مقامی آبا دی سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے دور سے ہی پہچانے جاتے تھے۔ جنگ کے دنوں میں ملحقہ دیہا ت کے لوگ چونکہ ہر دوسرے شخص کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں‘ اس لئے جلد ہی محاذ جنگ سے بھاگ جانے والے آسام رجمنٹ کے چندسپاہیوں کو تو پکڑ لیا گیا لیکن باقی چھپے رہنے میں کامیاب ہو گئے ۔جب ملٹری پولیس اور بھارتی افسران نے ان آسامی سپاہیوں سے بھاگنے کی وجہ پوچھی‘ تو ان سب کا کہنا یہ تھا کہ وہاں موجود ہمارے ساتھ والی دوسری یونٹ کا فوجی لوگ ہم کو مذاق کرتا ہے کہ ہم لوگ اگر زخمی ہوا یا مارا گیا تو وہ اٹھاکر پیچھے نہیں لائے گا ۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ فاضلکا کیا ہے اور کدھر ہے جبکہ ہمارا گھر بار اور وطن یہاں سے ایک ہزار میل سے بھی زیا دہ د وری پر ہے اور لڑنے کیلئے ہمیں ادھر بھیج دیا گیا ہے جس کا ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے‘ ادھر بیٹھ کر ہم کو کیا پتہ کہ ہماری طرف کیا ہو رہا ہے کیونکہ ادھر کا سب فوج پنجاب کی طرف بلا لیا گیا ہے ۔‘‘
1965 ء میں بھارت کی گیارہویں کور کے لیفٹیننٹ جنرل جے ایس ڈھلوں نے چھ ستمبر کو پاکستان پر حملہ سے ایک دن پہلے بھارتی فوج کی فارمیشنز کا معائنہ کرنے کے بعد بھارتی فوج کی ڈیپلائمنٹ ،افسروں اور جوانوں کے مورال کے بارے میں بھارت کے آرمی چیف جنرل چوہدری کو اپنے ہاتھ سے تحریر کیے گئے خط میں لکھا۔ اس خط کا جنرل ہر بخش سنگھ نے بھی اپنی کتابWar despatches India-Pak conflict 1965 میں حوالہ دیا ہے۔ جے ایس ڈھلوں نے اس خط میں لکھا ''میں نے آج دوپہر سوادوبجے سے شام سوا چار بجے تک 4 مائونٹین ڈویژن کی ڈیپلائمنٹ کا جائزہ لیا اور ان کے ہیڈ کوارٹر میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور دوسرے افسران سے حملہ کی تیاریوں اور دشمن کی استعداد سمیت کچھ خفیہ معاملات پر بات چیت کی‘ لیکن مجھے جس چیز نے سب سے زیا دہ پریشان اور مایوس کیا ہے وہ بہت سے افسران کے خوف اور نفسیاتی طور پر گھبراہٹ میں مبتلا لٹکے اور اترے ہوئے چہرے تھے۔ لاہور، قصور اور فاضلکا سیکٹر کی انسپکشن کے دوران ان علا قوں سے آ ّتے اور جاتے ہوئے مختلف جگہوں پر ادھر اد ھر ڈیپلائے فوجی یونٹوں کی حالت اور بھی خراب تھی۔ یہ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ چند گھنٹوں بعد انہوں نے ایک وسیع اور خوفناک جنگ کا حصہ بننا ہے۔ ایک نظر دیکھنے سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ یا تو ان کی تربیت میں کمی ہے یا ان کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ معمول کی جنگی مشقوں کیلئے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ اپنے قریب سے گزرنے والے شہریوں سے وہ اس طرح گھل ملے رہے تھے جیسے انہیں کسی فوجی قاعدے اور قانون کی خبر ہی نہیں۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں ڈسپلن اور سکیورٹی نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ ایک نظر دیکھنے سے وہ لاپروا اور تھکے تھکے سے لگتے تھے‘‘۔
جنرل ڈھلوں لکھتے ہیں کہ پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی رات چار بجے مقرر کئے گئے وقت پر جب پاکستان کی سرحدوں کے اندر پیش قدمی کرنے کیلئے حملہ شروع کیا گیا تو 13 ڈوگرہ رجمنٹ بغیر کسی حکم کے اپنی ہی فوج کی توپوں اور ٹینکوں کی فائرنگ سے پوزیشنوں کو چھوڑ کر پیچھے کی طرف بھاگ رہی تھی کہ راستے میں جی او سی چار مائونٹین ڈویژن نے انہیں واپس بھاگتے دیکھ کر روک کر دوبارہ اپنی پوزیشنوں کی طرف بھیجا ‘لیکن چھ اور سات ستمبر کی درمیانی رات پاکستانی توپوں کی گولہ باری سے تیرہ ڈوگرہ رجمنٹ کے یہ سب لوگ سوائے ان کے صوبیدار میجر اور ان کے کمانڈنگ آفیسر کے اپنے ساتھ موجود جوانوں کے‘ دوبارہ بھاگ اٹھے۔ یہ خبرجلد ہی 4 مائونٹین ڈویژن کی دوسری انفنٹری یونٹوں 18 راجپوتانہ رائفلز،4 اور7 Grenadiers ، 1/9 گورکھا رائفلز،9 جموں کشمیر رائفلز، میں بھی پھیل گئی۔ جنرل آفیسر کمانڈنگ نے مجھے بتایا ہے کہ نائن جموں کشمیر رائفلز کے کمانڈنگ افسر چھ اور سات ستمبر کی درمیانی رات پوری کمپنی سمیت اپنی پوزیشن چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے۔
جی او سی کے مطابق یہ desertion صرف ان انفنٹریز تک ہی محدود ہے اور اس طرح کی صورت حال کی وجہ سے چار مائونٹین ڈویژن کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں‘ وہ ابھی تک اسے پورا کرنے میں ناکام رہا ہے اور ابھی تک اچھو گل سیکٹرمیں نہر پر کوئی ایک پل بھی نہیں اڑایا جا سکا ۔ جی او سی چار مائونٹ ڈویژن کو سات ستمبر کی طے شدہ پوزیشن بحال رکھنی ہو گی‘ آج جب میں وہاں گیا تو وہ آصل اتر ایریا میں اپنی دفاعی پوزیشن کی تیاریاں کر رہا تھا۔بھارتی آرمی چیف کو یہ رپورٹ دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل جے ایس ڈھلوں لکھتا ہے کہ ڈویژن کا مجموعی مورال جو بھی ہو‘ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر دشمن کی جانب سے دبائو بڑھا تو مائونٹ
ڈویژن میں موجود انفنٹری یونٹس اسے برداشت نہیں کر سکیں گے اور موجودہ جنگی صورت حال کے وقت یہ انتہائی مایوس کن اور خطرناک ہے۔ ان حالات اور دوسری انٹیلیجنس رپورٹس کو سامنے رکھتے ہوئے میری تجویز ہے کہ فوری طور پر4 مائونٹ ڈویژن‘ جس میں9 دکن ہارس، 7 مائونٹین بریگیڈ،33 مائونٹین بریگیڈ،62 مائونٹین بریگیڈ اور4 مائونٹین آرٹلری بریگیڈکی ہر قسم کی نفری کو یہاں سے کسی اور سیکٹر میں بھیج دیا جائے کیونکہ یہ سب نفسیاتی طور پر پاکستانی فوج کی دو دن کی جوابی کارروائی سے خوف اور دبائو میں آ چکے ہیں۔ اس ڈویژن کے ذمہ لگائے گئے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے کوئی دوسرا ڈویژن یہاں تعینات کرنا ضروری اور لازمی ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں ایک لمحے کی دیر بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ چار مائونٹ ڈویژن کے ساتھ منسلک انفنٹری یونٹس میں سے سوائے1/9 گورکھااور4Grenadiers کے باقی انفنٹری یونٹس کو کسی بھی جنگی محاذ پر بھیجنے جانے کا نا اہل قرار دے دیا جائے۔
اپنے خط کے آخر میں گیارہویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جے ایس ڈھلوں اپنے آرمی چیف جنرل چوہدری سے درخواست کرتے ہیں'' میرے لئے یہ اطمینان کا با عث ہے کہ آپ خود اس وقت ہمارے ہیڈ کوارٹر میں موجود ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ خود اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں۔‘‘ جنرل چوہدری نے بعد میں2 مہار رجمنٹ اور5 سکھ لائٹ انفنٹری کو چار مائونٹین ڈویژن کے ساتویں مائونٹین بریگیڈ کے ساتھ منسلک کر دیا جس نے بارہ ستمبر کو کھیم کرن واپس لینے کیلئے پاکستانی پوزیشنوںپر حملہ کیا!!