بھارت کے ایک گائوں کھاپ کی پنچایت نے‘ جس میں تمام بڑی ذاتوں کے لوگ شریک تھے‘ فیصلہ دیا کہ چوبیس سالہ مناکشی اور پندرہ سالہ کماری دونوں بہنوں سے سب کے سامنے زیادتی کی جائے اور اس کے بعد ان کا منہ کالا کر کے برہنہ حالت میں ہی پورے گائوں میں پھرایا جائے۔ ان بے چاریوں کا قصور یہ تھا کہ ان کے بھائی سمت کمار کے‘ گائوں کے جاٹ خاندان کی لڑکی سے تعلقات تھے۔ یہی کچھ تو پاکستان کے ضلع مظفر گڑھ کی مختاراں مائی کے ساتھ ہوا تھا‘ لیکن پاکستان کی مختاراں مائی کا قصہ جیسے ہی پاکستانی میڈیا کے ذریعے سامنے آیا‘ یورپ اور امریکہ تو ایک طرف جاپان اور کوریا سے بھی سینکڑوںکی تعداد میں میڈیا کے لوگوں کا ملتان اور مظفر گڑھ کی جانب تانتا بندھ گیا۔ دو تین دفعہ مجھے خود بھی کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ مختاراں مائی کے گائوں جانے کا موقع ملا‘ جہاں میلے کی سی کیفیت تھی۔ غیر ملکیوں کی آمد کے باعث ملتان کے ہوٹلوں میں جگہ نہ رہی۔ پاکستان میں کھمبیوں کی طرح اگی این جی اوز نے بھی دنیا بھر کے اخبارات کے صفحات اور الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں سے عوام کو یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ پاکستان میں جاہلانہ اور قبائلی رسم و رواج کے باعث عورت کی کوئی عزت نہیں‘ جہاں بھائی کے گناہ کی سزا شرمناک طریقے سے بہن کو دی جاتی ہے۔ امریکہ کی ہلیری کلنٹن اور کونڈولیزا رائس کا بھارت کی مناکشی
اور کماری کی طرف دھیان اس لیے نہیں گیا کہ بھارت مسلمان ملک نہیں۔ مظفر گڑھ کی ایک مختاراں مائی کی آڑ میں پوری دنیا کا میڈیا پاکستان کے خلاف بری طرح اُمڈ پڑا تھا‘ اس لئے نہیں کہ ایک مسلم ملک کی بیٹی پر ہونے والے ظلم پر ان سب کو رحم آ گیا تھا بلکہ یہ سب اس لیے تھا کہ انہیں جوہری توانائی کے حامل ایک مسلم ملک اور اس کی آڑ میں اسلام پر طعن کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ اگر وہ واقعی صنف نازک کا دل میں درد رکھتے تھے تو اُنہیں مقبوضہ کشمیر کی وہ مظلوم 60 ہزار سے زائد بیٹیاں کیوں بھول گئیں‘ جن کے ساتھ مقبوضہ وادی میں تعینات بھارتی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کی۔ اس انسانیت سوز ظلم پر ان کا دل کیوں نہ رویا؟ نام نہاد عالمی ضمیر کیوں نہ بیدار ہوا؟ اس انسانیت سوز ظلم پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں چپ ہیں؟ مختاراں مائی پر ٹسوے بہانے والے دنیا بھر کے میڈیا کو کھاپ گائوں کی دو معصوم لڑکیاں مناکشی اور کماری کیوں نظر نہیں آ رہیں؟ مناکشی اور اس کی بہن کماری‘ بھارت کی سول سوسائٹی سمیت تمام این جی اوز اور منصفوں سے انصاف کے لیے دھکے کھاتی پھر رہی ہیں۔ کوئی ان کی سننے والا نہیں‘ مقامی این جی اوز
چھوڑ عالمی میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے مختاراں مائی کا کیس اُچھالنے سے‘ اُن سب کو اسلام اور ایک مسلمان ملک کے خلاف دریدہ دہنی کا موقع مل رہا تھا‘ جبکہ بھارت نام نہاد ترقی پسندوں اور سیکولرسٹوں کا چہیتا ملک ہے۔ یہ بچیاں اب واپس اپنے گھر بھی نہیں جا سکتیں کیونکہ ان کے بھاگنے کے بعد‘ گائوں کے چوہدریوں نے ان کے گھر کو مسمار کر کے ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ گھر کی ہر قیمتی چیز اونچی ذات کے نام نہاد ''عزت داروں‘ نے لوٹ لی ہے۔ ملزمان بے خوف‘ دندناتے پھر رہے ہیں۔ علا قے کی پولیس اور انتظامیہ اچھی
طرح جانتی ہے کہ چھوٹی ذات کے لوگوں کے خلاف فیصلہ دینے والے اونچی جاتی کے جاٹوں کا فیصلہ ہمیشہ اٹل ہوتا ہے۔ کہانی وہی ہے جو مختاراں مائی کی تھی۔ قصہ وہی ہے جو مختاراں مائی کا تھا۔ فیصلہ وہی ہے جو پنچایت نے مختاراں مائی کے بھائی کی طرف سے کی جانے والی زیادتی کے بعد دیا تھا‘ لیکن اس پر عالمی ردِعمل‘ منافقت کا شاہکار ہے۔
بھارت کے ہی نائوگانگ تھانے کی حدود میں واقع گائوں مڈوارہ میں ڈیڑھ ماہ پیشتر 24 اگست کو اسی طرح کا ایک واقعہ بھی دنیا بھر کی نظروں سے اوجھل رہ گیا۔ وجہ شاید وہی ہے کہ بھارت مسلمان ملک نہیں۔ اس لیے ایسے واقعات میں امریکی اور یورپی میڈیا کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے‘ اور پھر جب معاملہ بھی نیچی ذات والوں کا ہو؟ منڈوارہ گائوں میں اونچی جاتی کے میاں بیوی وجے یادیو اور وملا یادیو نے نیچی ذات کی ایک عورت کو گائوں کے سب لوگوں کے سامنے اپنا پیشاب پینے پر مجبور کر دیا تھا۔ بے چاری کا قصور یہ تھا کہ اس کے ایک چھوٹے سے کھیت کو وجے یادیو کے مویشیوں نے گھس کر اجاڑ دیا تھا۔ اُس کی جو شامت آئی تو وہ شکایت لے کر ان کے گھر جا پہنچی۔ اس پر یادیو اور اس کی بیوی مشتعل ہو گئے۔ اُنہوں نے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور پھر اس کو لاٹھیوں سے بری طرح پیٹنے لگے۔ اس کی چیخ پکار پر جب گائوں کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اُسے چھڑانا چاہا‘ تو یادیو اور اُس کی بیوی اس شرط پر اُسے معاف کرنے پر آمادہ ہوئے کہ وہ سب کے سامنے وہ غلظ کام کرے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔
بھارت میں ایسے واقعات روز کا معمول ہیں۔ معمولی معمولی قصور پر نچلی ذات کی عورتوں کو ہوس کا شکار بنانا عام ہے۔ بھارتی میڈیا‘ عدالتیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی روش‘ مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم کی پردہ پوشی کرنا ہوتا ہے۔ ایسی باتوں میں بھارتی سفارت خانے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ کٹھمنڈو میں بھارتی سفارت کار ایجوکیشن کونسلر مہندر کمار کھرانہ نے تو سفارتی مراعات کا اس طرح ناجائز فائدہ اُٹھایا کہ اُس نے اپنے ہی سفارت خانہ میں کام کرنے والی نیپالی لڑکی جونیئر کلرک مسز راج بنسی پر مجرمانہ حملہ کر دیا۔ مظلوم عورت نے کھرانہ کی اس زیادتی کے خلاف سفیر سے شکایت کی تو موصوف مسٹر رنجیت رائے نے معاملہ دبانے کیلئے کہا لیکن جب وہ خاتون کسی بھی قسم کے لالچ اور سفارت خانے میں اچھی پوسٹنگ پر بھی رضامند نہ ہوئی تو پہلے تو اس پر خاموش کارروائی کی ہدایت کی گئی‘ لیکن جب یہ معاملہ باہر آ گیا تو شرمندگی سے بچنے کیلئے کھرانہ کو بھارت واپس بھجوا دیا گیا۔