افغانستان کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کی سرحدی چوکی پر گولہ باری کرتے ہوئے سات ایف سی جوانوں کو شہید اورپانچ کو زخمی کر دیا گیا اور ہم جواب میں اپنے جوانوں کی لاشیں اور زخمی اٹھاتے ہوئے حسب معمول صرف احتجاج کر سکے۔ اولاد اور ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیا دہ عزیز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ملکی سلامتی کے تحت اپنے عوام کی حفاظت کو تمام رشتوں سے مقدم سمجھتے ہوئے بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحدوں کو کئی مقامات پر آہنی باڑ یںلگا کر بند کر رکھا ہے‘مگر پاکستان افغانستان سے ملنے والی اپنی سرحدوں پر آہنی باڑ لگانے سے مسلسل ہچکچا رہا ہے، جہاں سے ہماری اولاد اور سلامتی آئے روز نشانہ بن رہی ہے۔ یہ اہم اور فوری نوعیت کا کام آخر کب تک التوا میں رکھا جا ئے گا ؟اب تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی ملکی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے کھل کر کہہ دیا ہے کہ افغانستان سے متصل سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کو اہم قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان کے چپے چپے پربکھرے ہوئے مختلف صورتوں اور گروپوں میں بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان کو اپنا سافٹ ٹارگٹ بناتے رہیں گے۔ یہ وہی سدھائے ہوئے لوگ ہیں جن کے بارے میں سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنے دورۂ اسلام آباد کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا ''افغان فوج کی تربیت کے لیے بھارتی فوج کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں‘‘۔ اور پھر امریکی چھتری کے نیچے حامد کرزئی کے دس سالہ دور میں فوجی تربیت ہوتی رہی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت افغانستان کی فوج، سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا ہم راز بننے کے ساتھ کرزئی اور اس کے ٹولے کا دمساز بھی بن گیا۔بھارتی ایجنسیوں نے اپنے ڈالروں کے ذریعے اس طرح پنجے گاڑے کہ افغانستان اور پاکستان میں ان کے مفاد پرست ہر وقت بھارت کی زبان بولنا شروع ہو گئے کہ 'افغانستان میں دہشت گردی پاکستان کرا رہا ہے‘۔ اس قسم کی زبان بولنے والے کرزئی ، اشرف غنی اور عبداﷲ عبد اﷲ یہ ایک چھوٹی سی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ اپنے ساتھ والے گھر میں اگر آگ بھڑک اٹھے ، تو اس کے ہمسائے سب سے پہلے اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ افغانستان میں بے چینی اور قتل و غارت سے بھارت، جو سینکڑوں میل دور بیٹھا ہوا ہے ،کو تو کوئی نقصان نہیں ہو رہا، اس کی تو کوئی عمارت تباہ نہیں ہو رہی، اس کے تو کوئی فوجی افسر اور جوان یاپولیس والے مارے نہیں جا رہے، اس کا تو کوئی شہری دہشت گردی کا شکار نہیں ہو رہا، اصل نقصان تو افغانستان اور پاکستان کا ہو رہا ہے۔ اس لئے افغان عوام کو یقین ہونا چاہئے کہ پاکستان کسی صورت بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں قتل و غارت ہو اور بے چینی رہے۔ افغان عوام اور دانشوروں کو اس نکتے پر غور کرنا ہو گا کہ جیسے ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کا وقت قریب آیا‘ بھارت سمیت برطانوی اور امریکی میڈیاکیوں پرانے گھسے پٹے اور ''سپانسرڈ الزامات‘‘ کے ذریعے خطے کی صورتحال کو ہوا دینے میں مصروف ہو گیا کہ ' پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ بھارت کے یہ سب ڈرامے افغان عوام اور دنیا کی توجہ اصل حقائق سے ہٹانے کیلئے ہوتے ہیں،
ورنہ کون نہیں جانتا کہ بلوچستان میں اسلحہ کے انبار کہاں سے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے حامی عنا صر کو آئے روز چن چن کر کون قتل کر رہا ہے۔ گیس کی پائپ لائنوں ، ریلوے کی پٹریوں اور بجلی کی لائنوں کو بموں سے کون اڑا رہا ہے۔ افغانستان کا سرکاری ریکارڈ گواہ ہے کہ امریکہ کی مرضی سے کرزئی اور دوستم نے افغان پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کیلئے بھارت کی خدمات حاصل کیں، اور اسی آڑ میں دوستم ملیشیا کی ذاتی فوج کو بھی بھارتی فوج سے گوریلا اور دوسری جنگی تربیت دلوائی گئی ۔ خاصی بڑی تعداد میں بھارتی عملہ، جس میں بری ، فضائی فوج اور 'را‘ سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے، افغانستان میں اہم جگہوں پر تعینات کرایا گیا اور پھر اس عملے نے کرزئی دور میںچن چن کر کمیونسٹوں کو فوج اور خفیہ اداروں میں بھرتی کیا۔یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے سابق وزیر دفاع چیک ہیگل بر ملا زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کیلئے افغانستان کی سر زمین کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اس دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
امریکی میڈیا کو پاکستان پر بار بار وہی الزامات عاید کرنے کے بجائے اس بات پر زور دینا چاہئے کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آمد روکنے کیلئے اگر امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ کوئی مشترکہ حل نہیں نکلتا تو پاک افغان سرحد پر فوری طور پر سات یا آٹھ مقامات پر 38کلومیٹر لمبی اور بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی 350 کلومیٹرکے لگ بھگ سرحد پر باڑ لگانے کے سلسلے میں عالمی طاقتیں پاکستان کی مدد کریں۔ کسی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے اور سوال اس وقت یہ نہیں کہ باڑ لگانے کی اجازت کسی سے ملتی ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ بھارت نواز تحریک طالبان کی بے تحاشا آمد کو پاکستان کیسے روکے؟ پاکستان دس سالوں سے بھارت نواز دہشت گردوں سے حالت جنگ میں ہے اور اس کی فورسز اور پُر امن شہریوں پر آئے روز کے خود کش حملے اور گوریلا کارروائیاں نا قابل برداشت ہو چکی ہیں ۔ بات اس وقت کسی کی خوشنود ی کی نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت کی ہے ۔ ہمیں بھارت کی افغان سر زمین پر بیٹھ کر برسائی جانے والی
گولیوںاور بم دھماکوں کے سامنے بھیگی بلی بننے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو وزیرستان اور بلوچستان میں کیوں نہیں؟ اگر بھارت آج سے 32 سال قبل ہندوستان کے محکوم سکھوں کی طرف سے شروع کی گئی خالصتان تحریک کے دوران پنجاب کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد پر آہنی باڑ لگانے کے بعد شام پانچ بجے اس میں بر قی روچھوڑ سکتا ہے تو پاکستان بلوچستان سمیت وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں غیر ملکی مداخلت روکنے کیلئے باڑ کیوں نہیں لگا سکتا؟ دسمبر2006ء اور جنوری 2007ء میں جب جنرل مشرف نے یہاں باڑ لگانے کی بات کی تھی تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی اور غلام احمد بلور نے شور مچا نا شروع کردیا تھاکہ دونوں طرف ہم پشتونوں کی رشتہ داریاں ہیں ہم یہ باڑ برداشت نہیں کریں گے ۔ جن لوگوں نے ولی خان گروپ کے ساتھ مل کر اس تجویز کی مخالفت کی سیاست کی ، افسوس انہوں نے ملکی سلامتی کو اپنے مفادات پر ترجیح دی، جس کا خمیازہ اے این پی سمیت مولانا کی پارٹی کے ساتھ ساتھ پورے خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں کے معصوم عوام اپنی جانوں اور املاک کی تباہی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیا دہ عزیز ہوتی ہے، اسی لئے بھارتی حکومت نے اپنے دوست ممالک نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحدوں کو کئی مقامات پر آہنی باڑ لگا کر بند کر دیا ہے۔ پاکستان کو بھی افغانستان کے ساتھ لگنے والی اپنی سرحد پر باڑ لگانی چاہیے تا کہ دہشت گردی کا سدِباب ہو سکے۔