آج سے 48 سال قبل حبیب جالب کی ذوالفقار علی بھٹو سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھی گئی مشہور زمانہ نظم ایک بار پھر یاد آ گئی ہے جسے عمران خان کی نذر کر رہا ہوں۔ گوکہ اس نظم میں بظاہر نام تو ذوالفقار علی ہی استعمال کیا گیا ہے لیکن آج کا مخاطب عمران خان ہے۔
جنگ کو تیز کر ذوالفقارِ علی
رات ہے مختصر، اب ڈھلی، اب ڈھلی
شام کو شمع دے صبح کو نور دے
لوگ بے تاب ہیں اپنا منشور دے
منتظر ہے تیری، دیس کی ہر گلی
رات ہے مختصر، اب ڈھلی اب ڈھلی
حلقۂ زر پرستاں سے باہر نکل
طبقۂ چیرہ دستاں سے باہر نکل
تجھ کو اہل وطن پھر کہیں گے ولی
جنگ کو تیز کر ذوالفقارِ علی
عمران خان حلقۂ زر پرستاں اور طبقۂ چیرہ دستاں سے باہر نکلتا ہے یا نہیں؛ تا ہم ایک نامور صحافی نے درست کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست سے اگر عمران خان کو نکال دیا جائے تو باقی صرف ''مک مکا‘‘ رہ جائے گا لیکن اگر عمران خان خودہی سیاست سے نکلنے کی کوشش کرے تو اس میں کسی کا کیا قصور؟ سیاست پریس کانفرنس کر دینے یا کسی اخبار یا چینل کو انٹرویو دینے کا نام نہیں بلکہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا نام ہے۔ سیاست میں کچھ الفاظ بے وقت استعمال کیے جائیں یا کوئی فیصلہ قبل از وقت یا بعد از وقت کیا جائے یا بے سبب کر لیا جائے تو وہ کل کو سب کے سامنے شرمندگی اٹھانے پر اپنی ہی دل آزاری کا سبب بن جاتا ہے، اور یہی کچھ عمران خان سے سرزد ہوتا رہا، پنجاب کے بارہ اضلاع کے بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے، اس پر اس کے سوا اور کوئی تبصرہ نہیں کہ اسے ٹی20 سمجھ کر حصہ لیا گیا اور بن دیکھے، بن پہچانے جو بویا گیا وہ اجڑی ہوئی فصل کی صورت میں سامنے آیا۔ لاہور کے حلقہ این اے122 میں جو رنگ علیم خان نے جما دیا تھا اسے جان بوجھ کر اکتیس اکتوبر کو گہنا دیا گیا۔ یہ درست ہے کہ ان انتخابات میں ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس کی الیکشن قوانین میں اجازت ہی نہیں۔ گیس، بجلی اور پانی کے کنکشن ووٹر گھرانوں کو ان کے دروازوں پر پہنچائے گئے لیکن اسے شکست کا واحد عذر بنایا جانا صحیح نہیں ہو گا۔ عمران خان کا وہ مخصوص دس فیصد سے زائد ووٹر بھی اکتیس اکتوبر کو باہر نہیں آیا،جس کی نظر میں بلدیاتی انتخابات کی کوئی خاص اہمیت نہیں، لیکن یہ ووٹرز اتنا تو جان گئے ہیں کہ ان کے باہر نہ نکلنے سے جیل میں بند نامی گرامی ڈکیت بھی کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہو جاتا ہے۔ پنجابی کی مثال ہے کہ ''ڈُلے بیراں دا اجے وی کجھ نئیں وگڑیا‘‘۔ عمران خان کو اگر حقیقی سیا ست کرنی ہے تو ،بنی گالہ سے باہر نکلنا ہو گا، اسے کم از کم وقفے وقفے سے سات دن خیبر پختونخوا میں اس طرح گزارنے ہوں گے، جیسے نیٹو کے خلاف دھرنے کے وقت گزارے تھے نہ کہ شاہی مہمان کی طرح۔ انہیں پشتون عوام کے درمیان رہنا ہو گا اور پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کے ہر گائوں تک جا نا
ہو گا، اپنے مخلص کارکنان کو جگانا اور منانا ہو گا، ان کو وقت دینا ہو گا، لیکن انہیں حلقۂ زر پرستاں سے دور رہنا ہو گا۔ انہیں ان عوام کے پاس جانا ہو گا جو شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر سے لے کر دھرنے تک ان کے ارد گرد ڈٹے رہے۔ سوچنے کی بات ہے کیا عمران خان نے ان لوگوں کو خریدا ہوا تھا جو سخت ترین سردی میں اور موسلا دھار بارشوں میں اس کے ہم رکاب رہے؟ وہ لوگ جو ہر جلسے میں دس دس گھنٹے انتظار میں کھڑے دھکے کھاتے رہے کیا وہ ان کے مزارع تھے؟ دنیا کے کونے کونے سے اپنی فیملی سمیت پاکستان کے پولنگ سٹیشنوں پر مئی کی تپتی دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے والے ان کے یا شاہ محمود قریشی سمیت دوسرے لوگوں کے ماتحت تھے؟ وہ سب کوئی ان پڑھ یا معمولی پڑھے لکھے نہیں تھے بلکہ بہت بڑی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی۔ ان میں ڈاکٹر، پروفیسر، سکالر اور ریٹائر افسران تھے اور بیوروکریسی کے سابق اہلکاروں کے خاندان بھی۔ ان سب نے عمران خان پر اعتماد کیا، بھروسہ کیا۔ انہوں نے اپنا لاکھوںروپیہ عمران خان کی نیت کو دیکھتے ہوئے خرچ کیا۔ میرے ساتھ قطاروں میں کھڑی نہ جانے کتنی فیملیاں دور دراز کا سفر طے کرکے مختلف ملکوں سے صرف اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے پاکستان پہنچی تھیں۔ دو، تین یا چار ووٹوں کیلئے انہوں نے پانچ پانچ لاکھ روپیہ عمران خان کے نئے پاکستان کے پیغام پر نچھاور کر دیا۔ انہیں عمران سے کوئی ذاتی مطلب نہیں تھا۔ کسی بھی قسم کے ذاتی فائدے کی امید نہیں تھی۔ ہاں اگر خواہش تھی تو صرف یہ کہ شاید ان کا ملک بھی اقوام عالم کے سامنے با عزت کھڑا دکھائی دے۔
عمران خان پر اندھا اعتماد کرنے والے کیا اپنے سینوں میں دل نہیں رکھتے؟ کیا ان کے کوئی جذبات نہیں ہیں؟کیا انہیں مخالفین کے تیز، تند جملوں اور مضحکہ خیز الفاظ کا سامنا نہیں ہوتا ہے؟ وہ تو اس وقت بھی آتش بگولہ ہو گئے تھے جب 2013ء کے انتخابی نتائج ان کے سامنے آنے لگے۔کیونکہ جو کچھ انہوں نے اپنے سامنے پولنگ سٹیشنوں پر دیکھا ، نتیجہ اس کے بالکل الٹ تھا۔ وہ خون کے آنسو پی کر رہ گئے لیکن اس وقت انہی عوام نے، لالک چوک اور لبرٹی چوک پر احتجاج کر تے ہوئے دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر انہوں نے گھروں سے دور باہر نکل کر ڈی چوک کے دھرنے میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ یہ کوئی ایک دو یا دس بیس دن کی بات نہیں، 126 دن کا دھرنا تھا، جو پاکستان کی سیا ست میں نئی تاریخ رقم کر گیا، لیکن اس کے بدلے میں انہیں کیا ملا؟ چند اکڑی ہوئی گردنیں ؟ حالت یہ ہے کہ مخالف سیا سی جماعت کا ہر رکن عمران خان کے خلاف باتیں کر رہا ہے لیکن اس سے غلط سلط فیصلے کرانے والے بڑے بڑے لیڈر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہتے ہیں۔ شاید یہ سوچ کر کہ وہ اپنی زبانیں بند ہی رکھیں کہ نہ جانے کس وقت انہی کی جانب کوچ کا اشارہ مل جائے؟ ملک کی سب سے اہم سیا سی جماعت ان کی قیادت پر سیاسی حملے کرتی ہے، لیکن سب خاموش رہتے ہیں اور ہر حملے کا جواب عمران خان کو خود ہی دینا پڑتا ہے تو پھر خان صاحب، آپ نے اپنی کمر پر یہ بوجھ کیوں لادا ہوا ہے؟ اگر نوجوانوں پر مشتمل یہ سوشل میڈیا کے بے لوث لوگ آپ کو میسر نہ ہوں تو آپ کی تو کوئی آواز ہی نہ سنے۔ کیا عمران خان اس قدر سادہ ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ اس ملک کی بیس سیا سی جماعتیں انہیں زہر قاتل سمجھتی ہیں۔؟ کیا وہ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ ایک جانب وہ اکیلا ہے اور دوسری طرف میڈیا کا طوفان اسے لپیٹ میں لیے ہوئے ہے... بہت سے حکیم لقمان اس شرط پر دوبارہ لائے گئے ہیں کہ ہماری تعریف مت کریں، بس''اسے‘‘ اچھی طرح رگڑیں، یہی آپ کی سب سے بڑی خدمت ہو گی؟ اور یہ سیدھی سادی جماعت آنے والے وقت سے بے خبر سوئی ہوئی لگتی ہے۔