محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیے ایک چھوٹی سی سرحدی جھڑپ کی ضرورت ہے۔ مودی کی ابتدائی تربیت اور ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ہر وقت ہر لمحے انتہائی ہوشیار اور تیار رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اپنی بغل میں چھپائی ہوئی چھری سے وہ کسی بھی وقت ہم پر وار کر سکتا ہے۔ اندازہ اس واقعہ سے لگائیے۔پانچ ستمبر 1965ء کی شام چھ بجے کے قریب 7 پنجاب کے لیفٹیننٹ کرنل شیرازیBravo کمپنی کی ڈیپلائمنٹ دیکھنے کیلئے قصور سیکٹر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ روہی نالے پر واقع رینجرز کی چیک پوسٹ پر ایک بھاری ٹرک میں فرنیچر اور چائے کے برتن مع دعوتی سامان لدا ہوا ہے۔ کرنل شیرازی نے اس ٹرک کے پاس کھڑے این سی او سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو رینجرز کا جوان بولا :سر کل چھ ستمبر کو گنڈا سنگھ والا چیک پوسٹ پر بھارت اور پاکستان کی بارڈر سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ افسران کی ماہانہ میٹنگ ہے اور اس ماہ چونکہ یہ میٹنگ اپنی باری پر پاکستان میں ہو نے جا رہی ہے اس لئے یہ سب انتظام کل ہونے والی ماہانہ میٹنگ کیلئے کیا جا رہا ہے۔۔۔۔اور اس کے چند گھنٹے بعد 7 پنجاب سے منسلک براوو کمپنی کی جانب سے اطلاع موصول ہوئی کہ بھارتی فوج نے قصور کی سرحد پر واقع اسی رینجرز چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا ہے، جہاں ملاقات ہونے والی تھی۔ اس اطلاع پر سب حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ شیڈول کے مطا بق ابھی دن چڑھتے ہی چند گھنٹوں بعدتو انڈین بارڈر سکیورٹی فورسز کے افسران یہاں ماہانہ میٹنگ کیلئے پہنچنے والے تھے ۔ جنگ ستمبر شروع ہونے کے تیرہویں دن پاکستان کے گیارہویں ڈویژن نے بھارتی فوج کے توپخانے کے کیپٹن کو گرفتار کرلیا۔ اس کی تلاشی لی گئی تو اس سے برآمد ہونے والی وار ڈائری میں26 اگست65ء کو اس کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کی جانب سے جاری کئے حکم کی تفصیل درج تھی، جس میں اس کیپٹن کی کمپنی کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ قصور سیکٹر پر حملہ کرنے کیلئے اپنی کمپنی کے ساتھ فلاں جگہ پر ڈیپلائے ہوں گے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں پہلے ہی کر چکا تھا لیکن پاکستان اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بارڈر سکیورٹی فورس کی ماہانہ میٹنگ کی آڑ میں سب کو بیوقوف بنانے میں لگا ہوا تھا۔
چار ستمبر 1965ء کی شام جی ایچ کیو راولپنڈی کے آپریشن روم میں جنرل موسیٰ آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے کہ اچانک پروگرام روکتے ہوئے انا ئونسر نے کہا ''ــ ایک انتہائی ضروری اعلان سنئے‘‘ اس کے بعد ایک آواز سنائی دی :'' پردھان منتری لال بہادر شاستری نے ابھی ابھی لوک سبھا کو ملکی سرحدوں کی صورت حال بارے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج سیالکوٹ سے جموں کا رخ کررہی ہے‘‘۔ آل انڈیا ریڈیو پر یہ اعلان کرنے والا جنرل موسیٰ کے ساتھ ملٹری اکیڈیمی ڈیرہ دون میں ایک ساتھ کمیشن حاصل کرنے والا ان کا دوستDe Mello تھا ۔ جنرل موسیٰ آپریشن روم سے باہر نکل کر کھلی ہوا میں کچھ دیر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اپنے دوست ڈی میلو کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ پر غور کرنے کے بعد واپس آپریشن روم پہنچے۔جنرل موسیٰ بھانپ گئے کہ بھارت کچھ کرنے والا ہے اور اس کی نیت ٹھیک نہیں۔ جنرل موسیٰ نے ایک ہنگامی میٹنگ طلب کر لی اور اپنی معلومات کی روشنی میں بتایا کہ انہیں اس اچانک اعلان کے پیچھے بھارت کی نیت پر شک ہے اور ڈی میلو کے ساتھ گزارے ہوئے اپنے طویل وقت کے تجربے کی بنا پر یقین ہے کہ بھارت مغربی یا مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ جنرل موسیٰ نے4 ستمبر رات 22:30 پر بحیثیت کمانڈر انچیف پاکستان آرمی ایک فرمان نمبرG-1316 جاری کرتے ہوئے ملک بھر کی تمام فارمیشن کو لکھا ''کسی بھی وقت بھارتی فوج کے مغربی اور مشرقی پاکستان پر ممکنہ حملے کے پیش نظر فوری طور پر دفاعی پوزیشنیں لے لی جائیں۔لیکن انگریزی زبان میں بھیجے گئے اس پیغام میں وہ فوجی زبان استعمال نہ کی جا سکی، جس کا1959ء میں ایک اعلیٰ سطحی فوجی اجلاس میں فیصلہ کیا گیاتھا کہ'' آئندہ فوجی احکامات میں نان ملٹری (بزنس) لینگوئج استعمال نہیں کی جائے گی‘‘ چار ستمبر کو جاری کئے گئے اس ہنگامی حکم میں
آرمی چیف کے سٹاف نے اس کی خلاف ورزی کیوں کی؟مخصوص زبان استعمال نہ ہونے کی وجہ سے مختلف فارمیشنزاس حکم کا صحیح مفہوم ہی نہ سمجھ سکیں۔ لاہور پر بھارتی فوج کے حملے سے چند گھنٹے قبل تین بڑی بڑی آرام دہ قسم کی سویلین جیپیںواہگہ بارڈر پر کسٹم اور امیگریشن حکام کے پاس کچھ دیر کیلئے رکیں اور پھر لاہور کی جانب چل دیں۔ ان گاڑیوںمیں بھارت میں تعینات انٹرنیشنل ایڈ ایجنسی کے اہلکار سوار تھے۔ یہ حکام اس عشائیہ میں شرکت کیلئے نئی دہلی سے خصوصی طور پر لاہور آئے تھے جو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے دیا جا رہا تھا ۔ ان غیر ملکی مہمانوں کو بڑی بڑی جیپوں میں لے کر آنے والے ڈرائیور سویلین لباس میں ملبوس بھارتی کون تھے۔ اس عشائیہ میں لاہور کی10 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈر میجر جنرل سرفراز خان بھی مدعو تھے، لیکن ہوا یہ کہ عشائیہ شروع ہونے سے چند منٹ پہلے ایک جیپ کا ڈرائیور اپنے پیٹ میں کسی تکلیف کا بہانہ کرتے ہوئے واپس بھارت چلا گیا۔ اس کاساتھی ڈرائیور اسے واہگہ چیک پوسٹ پر چھوڑنے کیلئے ساتھ گیا، اور جب واپس پہنچا تو اس کے ساتھ ایک اور ڈرائیور تھا۔ رات نو بجے کے قریب عشائیہ ختم ہونے پر یہ ڈرائیور اپنے تمام امریکی مہمانوں کو واپس بھارت لے جانے کیلئے واہگہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
یہ بھارتی ڈرائیور ملٹری انٹیلی جنس سے متعلقہ لوگ تھے، جو یہ دیکھنے کیلئے ان امریکیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے کہ لاہور کی سرحد اور با ٹا پور پل سمیت ارد گرد کے علاقے میں پاکستان کا دفاعی بندو بست کس قسم کا ہے اور ابھی جو چند گھنٹوں کے بعد بھارت لاہور پر حملہ کرنے جا رہا ہے تو ا س کیلئے پاکستان کی فوجی اور دفاعی تیاریاں کس قسم کی ہیںاور چونکہ یہ قافلہ آتے اور جاتے ہوئے لاہور چھائونی کی حدود سے ہی گزرا تھا اس لیے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے والے ان جیسے تربیت یافتہ افراد کیلئے یہ جاننا کوئی مشکل نہیں تھا کہ لا ہور گیریژن اور لاہور کے اطراف کی سرحدی صورت حال کس قسم کی ہے۔
پاکستان کے کچھ بیرونی ذرائع اگست کے وسط سے ہی سامبا، کٹھوعہ روڈ پر کچھ غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاعات دے رہے تھے۔ ملٹری انٹیلی جنس کے لیفٹیننٹ کرنل شیر زمان نے کمانڈنٹ ایس ایس جی کرنل ایس جی مہدی سے کہا کہ وہ سامبا،کٹھوعہ روڈ سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر پاکستانی حدود میں لے کر آئیں، جس پر اسی رات ایک بجے کے قریب کرنل مہدی نے کرنل زمان کو پُرجوش لہجے میں اطلاع دی کہ ہم نے بھارتی فوج کے ایکDespatch Rider کو اغوا کر لیا ہے اور اس کے پاس موجود بیگ میں ہیڈ کوارٹر ون آرمر ڈویژن کی جانب سے بھیجی گئی ڈاک ہے۔ اس بیگ کو اسی وقت راولپنڈی روانہ کر دیا گیا ۔ ایم آئی کے کرنل زمان اور میجر سردار نے ان پیغامات کے ایک ایک لفظ کو انتہائی غور سے پڑھتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ بھارت کا مشہور زمانہ ون آرمر ڈویژن سامبا کے جنگلات میں ہی کہیں موجود ہے۔ کرنل زمان نے اسی وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس اور چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل شیر بہا در کو اطلاع کر دی جنرل شیر بہادر نے یہ خفیہ احکامات دیکھنے کے بعد چار ستمبر کی شام آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر ریاض حسین کو فوراً راولپنڈی پہنچنے کا کہا۔ بریگیڈیئر ریاض حسین کراچی سے پانچ ستمبر کی صبح راولپنڈی پہنچے، جہاں مذکورہ ڈاک کے حوالے سے اہم میٹنگ میں شرکت کی۔انہوں نے بھارت کے ون آرمڈ ڈویژن کے کاغذات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے بے ساختہ کہا: '' یہ تو بھارت کا وہی جنگی پلان ہے جو اس نے1950ء میں پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے ترتیب دیا تھا‘‘ ۔