بھارتی میڈیا نے اپنے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھارت کیلئے منحوس اور سبز قدم قرار دینا شروع کر دیا ہے جس سے بھارت بھر میں مودی کی نحوست کے چرچے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے یہ سبز قدم آیا ہے بھارت کی شہرت روز بروزگھٹنے لگی ہے اور کاروباری حلقوں میں یہ مشہور ہو چکاہے کہ مودی کی وزارت عظمیٰ سے پہلے دنیا بھر میں ان کے دیش کو شائننگ انڈیا کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن آج بنیاد پرست اور انتہا پسند بھارت کے نام سے پکارا جا رہا ہے ۔مودی کی نحوست کے قصے زبان زد عام ہو چکے ہیں کہ بھارت کا اقتدار ملتے ہی مودی جب چین کے دورے پر گئے تو تھوڑے ہی دنوں بعد چینی کرنسی کی قدر کم ہو گئی، جرمنی گئے تو دنیا کی بڑی اور مشہور موٹر کمپنی دیوالیہ ہو گئی، آسٹریلیا گئے تو ان کے واپس جاتے ہی ٹونی ایبٹ کی پارٹی ممبر شپ ہی ختم کر دی گئی، کینیڈا گئے تو دس سال تک وزیر اعظم رہنے والااپنا الیکشن بُری طرح ہار گیا ، دوبئی گئے تو جیسے ہی وہاں سے واپس لوٹے،جوا ں سال اور ہر دلعزیز ولی عہد کا جوان عمری میں ہی اچانک انتقال ہو گیا، بہار میں اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کیلئے چالیس جلسے کئے اور جب انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو بہار کی چالیس نشستیں ہار گئے۔
بھارت میں کالی بلی کا آگے سے گذرنا اور کسی بھی شخصیت کا منحوس قرار پا جانا،بڑا خطرناک ہوتا ہے اور ایسے شخص کا سایہ بھی اپنے اوپر پڑنا بد بختی کی علا مت سمجھا جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت کے دانشور اس سے نجات کی اپیلیں کرنے لگے ہیں۔12 نومبر کو اپنے تین
روزہ دورے پر برطانیہ پہنچتے ہی لندن میں بھارت کے وزیر اعظم کے خلاف تاریخ میںشاید پہلی بار دنیا بھر سے آ کر وہاں بسنے والی تمام قوموں کی جانب سے جس طرح کے منظم اور شدید قسم کے مظاہرے جاری ہیں، اس نے بھارت کے چہرے کو اور بھی داغدار کر دیا ہے۔ ابھی مودی نئی دہلی سے برطانیہ کیلئے روانہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے صوبے گجرات سے150 سے زائد نامور وکلا، لیبر لیڈروں ، تاجروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور سابق جج حضرات نے بھارتی صدر پرناب مکر جی کے نام خط میں مودی کی انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف ایکشن لینے کا مطا لبہ کر دیا ۔بھارت کے ہر طبقے نے مودی کے بنیاد پرست اور انتہا پسندانہ رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے اپنے میڈل اور ایوارڈ واپس کر نے شروع کر دیے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بالی وڈ جو کل تک بھارت کی عظمت کے گن گاتا تھا اور اپنی فلموں کے ذریعے بھارت کو دنیا کا سب سے امن پسند دیس بنا کر پیش کیا کرتا تھا، آج اپنے ایوارڈ واپس کرنے میں سب سے بازی لیتا جا رہا ہے ۔ دنیا بھر کا میڈیا اور سول سوسائٹی والے بھارتی حکمرانوں کے انتہا پسند رویوں سے ابھرتی ہوئی خونی صورت پر انگلیاں اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ساری دنیا نے ہریانہ میں دلت بچوں کا وحشیانہ قتل ٹی وی کی سکرینوں پر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اخلاق سمیت دوسرے مسلمان نوجوانوں کو گوشت کھانے کے شک پر جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اس نے ہر شخص کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے متنفر کر دیا ہے۔
نریندر مودی اپنے سکول کے زمانے میں پڑھائی میں کمزور تھا لیکن وہاں کی ڈرامہ سوسائٹی اور تھیٹر میںاس کا فعال کردار تھا۔ لڑکپن میںتھیٹرمیں اداکاری اس کی نس نس میں رچ بس گئی تھی اور اسی تھیٹر لگانے کی عادت کے ذریعے وہ وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوا، اس لیے شہرت کے بھوکے مودی سے دنیا بھر کو بہت ہی محتاط رہنا ہو گا۔ مودی سے کوئی بعید نہیں کہ کسی بھی وقت بھارت کے کسی حصے میںممبئی طرز کا کوئی واقعہ کرا دے یا سمجھوتہ ایکسپریس اور سبرامتی ایکسپریس طرز کاکھیل کسی جگہ پر ایک بار پھر رچا دے اور جیسا کہ چند دن ہوئے اپنے مضمون میں حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی کا ماضی سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو اپنی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ واپس لانے کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ شکر گڑھ یا لائن آف کنٹرول پر کوئی جارحیت کر سکتا ہے ۔ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کو مودی پر بھر پور نظر رکھنی ہو گی کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے کیونکہ برودہ گجرات اسٹیشن پر، سبرامتی ایکسپریس اور پانی پت میں سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعات کی مماثلت سب کے سامنے ہے جس کے بارے میں بھارت کی تمام تفتیشی ایجنسیاں اپنی رپورٹس دے چکی ہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی میں بھارتی فوج کے کرنل پروہت کا گروپ ملوث تھا۔
بہار کے ریاستی انتخابات میںبھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس سمیت تمام انتہا پسند ہندو ئوں کے اتحاد کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اُس نے مودی سرکار کی ذہنیت کو ایک آتش فشاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپنے اقتدار کے ایک سال بعد ہی بہار جیسی ریاست میں مودی کی مقبولیت کے غبارے سے نکلنے والی ہوا نے پورے بھارت میں مودی کی شخصیت کو گہنا دیا ہے۔ نریندر مودی جب مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے تو اس کا مخاطب اصل میں پاکستان ہوتا ہے۔ وہ ہر مسلمان کو پاکستان سمجھ کر اس سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ اپنے گائوں کے قریب ایک بس سٹینڈ پر 9 سال کی عمر میں چائے بیچتے ہوئے مسلمان مسافروں کو اپنے برتنوں میں چائے پلانے کا مخالف تھا۔نریندر مودی کا خاندان کولہو سے تیل نکال کر ارد گرد کے دیہات کی گلیوں میں گھوم پھر کر بیچا کرتا تھا لیکن اس دوران بھی اچھوت اور مسلمانوں کو تیل دیتے وقت ان کو تیل والے برتن چھونے کی اجا زت نہیں تھی۔
نریندر مودی ایک بہت بڑا ڈرامہ نویس اور اداکار ہے۔ بھارت کا وزیر اعظم بننے کیلئے سب سے پہلے اس نے اجو دھیا کی بابری مسجد کے مسئلے کو آگ لگاتے ہوئے ہندو ووٹروں کے مذہبی رجحانات کو ابھارکر بھارت میں مسلم دشمنی کو قومی نعرہ میں تبدیل کر دیا۔ یہ تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہندوستان میں مسلم دشمنی
دراصل پاکستان دشمنی کے معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس طرح مسلم دشمنی کی آڑ میں پاکستان مخالف جذبات ابھار کر اس نے اپنے مقا صدحاصل کیے ۔بابری مسجد کی آگ کو بھارت کے ہر ہندو کے دل میں بھڑکا کر ایڈوانی اور نریندر مودی در اصل بھارت کے انتخابات کے لئے اپنی اپنی راہ ہموار کر رہے تھے لیکن مودی ایڈوانی سے زیا دہ چالاک اور تیز نکلا کیونکہ وہ9 سال کی عمر سے ہی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کی شاطرانہ تربیت گاہ سے مستفید ہوتا چلا آ رہا تھا۔ بابری مسجد واقعہ کے خلاف جب پاکستان میں شدید رد عمل ہوا تو نریندر مودی نے ایک قدم اور آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور بابری مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد اجودھیا سے ٹرین کے ذریعے آنے والے انتہا پسند پنڈتوں اور سبرامتی ایکسپریس میں کیسری لباس پہنے بیٹھے ہوئے وشوا ہندو پریشد اور راشٹریہ کے لوگوں کی بوگی کو مبینہ طور پر جلا کربڑودہ گجرات میں مسلمانوں کی مساجد، مزاروں اور ان کے گھروں کو آگ کی نذر کر نے کے ساتھ ساتھ بچوں اور عورتوں سمیت دو ہزار سے زائد مسلمانوں کا بہیمانہ طریقے سے قتل عام کرا دیا جس سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمان بے گھر ہوگئے ۔ اس طرح مودی ایڈوانی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں کا واحد ترجمان بن گیا ۔بڑودہ گجرات کے اسی قتل عام نے نریندر مودی کو ریاستی انتخابات میں بے پناہ کامیابی سے ہمکنار کیا اوردوسری ٹرم کیلئے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیااور پھربابری مسجد، سبرامتی ایکسپریس اور گجرات کے فسادات کو اپنی سیڑھی بناتے ہوئے بھارت کے وزیر اعظم کی کرسی تک جا پہنچا،اس لئے، اے دنیا والوخ مودی سے ہر دم۔۔۔ ہوشیار خبردار...!!