اس ہفتے دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں سکھ گورو پُرب انتہائی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند اور دنیا میں شایدبہت کم لوگ اس دن کی اہمیت اور پس منظر سے مکمل آگاہ ہوں گے ۔ سکھ مت کے بانی اور دنیا کو بھائی چارے،برداشت اورایمان کا درس دینے والے با با گورونانک جی کا547 واں یوم پیدائش منانے کیلئے دنیا بھر سے سکھ یاتری لاہور پہنچ رہے ہیں اوراگر ویزا کی پابندیاں نہ ہوں تو بھارت سے سکھوں کا ایک سیلاب ہر سال بابا جی گرونانک کے یوم پیدائش کی خوشیاں منانے پاکستان پہنچ جائے۔ ہندوستان نے دنیا بھر کو دو انتہائی قابل احترام شخصیات کا تحفہ دیا ہے‘ ان میں ایک مہاتما بدھ اور دوسرے بابا جی گرو نانک۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات نے بدھ مت کا ڈول ڈالا تو گرونانک جی نے سکھ مت کی بنیاد رکھی۔ مغربی دنیا میں بدھ مت کو ہندو مت سے علیحدہ مذہب سمجھا جاتا ہے۔ کئی ممالک کا یہ سرکاری مذہب بھی ہے۔ لیکن با با جی گرو نانک کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکا گو کہ ان کی تعلیمات اور افکار موتیوں میں تولنے کے قابل ہیں۔ انہیں علیحدہ حیثیت نہ ملنے کی وجہ سے سکھوں کا اپنا کوئی وطن نہیں؛چنانچہ دنیا بھر میں یہی مشہور کیا جاتا ہے کہ سکھ مسلک ہندو دھرم کاہی تسلسل ہے؛حالانکہ ایسا ہرگزنہیں۔ بابا جی کے افکار اور تعلیمات کا ہندو عقیدے اور دھرم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ دوسری طرف اس کم علمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی اصل تعلیمات سے اقوام عالم ابھی تک مکمل روشناس نہیں ہو سکیں۔سکھ مت اور بابا جی گرونانک اور اسلام آپس میں ایک ڈور
سے بندھے ہوئے ہیں۔۔۔۔کیا سکھ نہیں جانتے کہ با با جی کا سب سے قریبی ساتھی اور معاون کوئی ہندو نہیںبلکہ بھائی مردانہ جی ایک مسلمان تھے؟۔انگریز نے پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ سب سے پہلے ہندو نے چالاکی سے مسلمان پنجابی اور سکھ پنجابی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اورپھر ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ پاکستان بننے سے پہلے سکھوں کی دوستیاں اور بھائی چارے مسلمانوں کے ساتھ ہی تھے،دونوں ہی ہندو بنئے کے سود اور سودوں سے تنگ تھے۔ ایک دوسرے کے ہمسائے بھی سکھ اور مسلمان تھے کیونکہ ہندو تو تنگ اور ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں رہتے تھے،جبکہ سکھ اور مسلمان کھلی جگہوں کو پسند کرتے ۔۔۔کیا سکھ نہیں جانتے تھے یا انہوں نے آج تک اپنے لیڈروں سے یہ پوچھنے کی زحمت کیوں نہیں کی کہ راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور اور گردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب جہاں گروجی کے دنیا میں پہلے درشن ہوئے ، گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال، گردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور، گردوارہ کرتار پور صاحب جہاں با با جی گرو نانک کا انتقال ہوا انہیں چھوڑ کر ہندو برہمن اور کانگریس کی گود میں جا کر کیوں بیٹھ گئے؟ قائد اعظم کی بات کیوں نہیں مانی گئی؟۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے آخری نبی ؑکا جنم استھا ن ہوتا تو وہ کبھی اسے کسی دوسرے کے پاس چھوڑ کر کہیں نہ جاتے چاہے بدلے میں انہیں دنیا جہاں کی پیش کش کر دی جاتی تو یہ کیسے سکھ لیڈر تھے جنہوں نے اپنے ہی گورو جی کے جنم استھان کو چھوڑ کر ہندو کانگریس کے بتوں کو اپنا بھگوان بنا لیا؟۔ہر وہ سکھ جس نے مسلم لیگ کے لیڈر محمد علی جناحؒ کے دوستی اور عزت و احترام کے ہاتھ کو ٹھکرا کر کانگریسی ہندوئوں کے ساتھ دیتے ہوئے پنجاب کے دو ٹکڑے کرنے میں مدد کی اور جنم استھان با با جی گورو نانک سے بے وفائی کی وہ اپنے گورو جی کے دیدار سے محروم رہے گا۔ سردار پٹیل اور کرتار سنگھ کے بہکاوے میں آ کر ہزاروں کی تعداد میں حضرت میاں میرؒ اور بھائی مردانہ کے مسلم بھائیوں کا قتل عام بھی کیا اور بدلے میں ہزاروں سکھ قتل بھی کروائے اور ساتھ ہی جنم استھان سے محرومی بھی۔
''واہ گرو جی کا خالصہ کیوں مار ی گئی سی مت
جس کعبے متھا ٹیکیا اوہناں دی کڈ لئی رت‘‘
دنیا بھر میں جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں سے سکھ مت سب سے نوعمر ہے،دوسرے لفظوں میں اسے نیا یا سب سے بعد میں سامنے آنے والا مذہب بھی کہہ سکتے ہیں۔ تلونڈی میں‘جسے آج ننکانہ صاحب کہتے ہیں‘ با با جی گورو نانک کا اپریل 1469ء میں جنم ہوا۔ ان کے والد ایک مسلم نواب کے ہاں منشی تھے۔ گورونانک جی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نواب دولت خان لودھی کے پاس بارہ سال تک ملازم رہے انہوں نے ایک دن دریا میں نہاتے ہوئے غوطہ لگایا تو غائب ہو گئے، تین دن بعد باہر آئے تو ان کی داڑھی لمبی ہو چکی تھی اس کے بعد انہوں نے دولت خان کی ملازمت چھوڑ دی اور لوگوں کو خدا کی وحدانیت کا پیغام دینا شروع کردیا۔گورو نانک جی مہاراج مسلمان صوفیوں بھگت کبیر اور بابا فریدؒ کے کلام سے بہت متاثر تھے ۔تقسیم کے بعد ننکانہ صاحب پاکستان کا حصہ بنا اور یہاں کی تمام سکھ آبادی اپنے نئے وطن بھارت جا کر آباد ہو گئی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد سمجھ بوجھ رکھنے والے سکھوں کو احساس ہونا شروع ہو گیا کہ جو کچھ وہ پاکستان میں چھوڑ آئے ہیں اس کا انہیں عشر عشیر بھی نہیں مل سکا۔ ان سے ان کی شنا خت اور پوتراستھان چھن گئے۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب اور ننکانہ میں با باجی کی جنم دھرتی کے درشنوں سے محروم ہونا پڑ گیا۔ کل تک وہ دوسری قوموں کے ساتھ انگریز کے غلام تھے تو آج وہ بھارت کی برہمن آمریت کے غلام ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر انہیں کسی وقت حکومت میں کسی بڑے عہدے پر فائز بھی کر دیا جاتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کبھی کبھی مسلمان کو صدر یا وزیر بنا دیا جائے لیکن اس کے ہاتھ میں بغیر سیاہی والے قلم کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔انگریز سے آزادی حاصل کرتے وقت سکھ لیڈروں نے ایک لمحے کیلئے بھی نہ سوچا کہ انہیں پنڈت نہرو عزیز ہے یا با با جی گورونانک کی جنم بھومی، انہیں مہاتما گاند ھی عزیز ہے یا پنجہ صاحب حسن ابدال ؟۔
سکھ لیڈر کرتار سنگھ ہندو سردار پٹیل کے جال میںپھنس کر رہ گئے جس کی سزا لاکھوں سکھ آج تک بھگت رہے ہیں۔کل کو سکھ جب اپنے گورو جی مہاراج کے سامنے حاضر ہو ں گے تو ان کے اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ انہوں نے ان کے گورو کے دربار صاحب امرتسر کی بے حرمتی کرنے والوں کی غلامی سے خود کو آزاد کیوں نہیں کرایا؟۔
گرونانک جی مہاراج کا1539ء میں انتقال ہو ا تو ہندو انہیں جلانے او رمسلمان دفنانے کیلئے آپس میں جھگڑنے لگے کیونکہ مسلمان اُنہیں مسلمان سمجھتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے بغداد شریف سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر حاضری دی، حج کیا، طویل عرصہ تک مسجد نبوی میں عبادت کرتے رہے ہیں۔ جھگڑا بڑھا تو جب ان کی لاش پر سے کسی نے کپڑا اٹھایا تو وہاں صرف پھول تھے جو بعد میں مسلمانوں اور ہندوئوں نے آپس میں بانٹ لئے۔ ۔!! مسلمانوں نے انہیں دفن کر دیا۔ ہندوئوں نے انہیں جلا دیا۔