26/11/2008کے ممبئی حملوں کو سات سال گزر چکے ہیں‘ سمجھوتہ، مالیگائوں، پونا ، اجمیر شریف کی مارکیٹ اور مکہ مسجد دھماکوں کی طرح حسب معمول ممبئی دہشت گرد ی کو بھی آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کے سر تھوپ دیا گیا تھا لیکن آج دنیا بھر کا میڈیا اور بھارت میں موجود سفارتی اور دفاعی نمائندے دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب تو بھارت کی اندرونی دہشت گردی ہے جس نے مختلف لسانی، مذہبی قومیتوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ آج جنتا نہیںبلکہ سرکاری سرپرستی میں نیتا لوگ ہی مذہبی اور علاقائی دہشت گردی پھیلا نے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اس میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کی کوئی تمیز نہیں۔یہ بات اب ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ ایک انتہائی اہم مسئلے پر بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہان سے بجرنگ دل کے دفتر میں بریفنگ لی گئی۔بھارت کس طرح جھٹلائے گا کہ بجرنگ دل کے انتہا پسندوں کو بھوسلہ ملٹری سکول ناسک میں گوریلا جنگ کی تربیت نہیں دی گئی۔ بھارت کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بھارتی فوج میں بیٹھے ہوئے انتہا پسند ہندوئوں کے سرپرست جرنیلوںاور را کے ہاتھوں میں آچکی ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے‘ جو گزشتہ ماہ اکتوبر میں دنیا بھر کے سامنے اس وقت آئی‘ جب بھارت کا سابق آرمی چیف وی کے سنگھ جو آج کل مودی کا وزیر مملکت ہے‘ ہریانہ کے 2 دلت( شودر) بچوں کے ہندوئوںکے ہاتھوں قتل پر سب کے سامنے بول اٹھا کہ '' کتے کے مارے جانے پر شورکیسا؟ ‘‘
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس فوج کے سپہ سالار کے خیالات اس قسم کے ہوں‘ جس سپہ سالار میں مذہبی انتہا پسندی اس پست سطح پر ہو‘ وہ اپنے اقتدار میں اعلیٰ جاتی ہندوئوں کے علا وہ مسلمانوں اور نیچ ذات کے ہندوستانیوں کو کن نظروں سے د یکھتاہوگا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ
بھارتی فوج کے سپاہی سے لے کر صوبیدار میجر اور لیفٹیننٹ سے جنرل تک کا غیر ہندوئوں سے سلوک کس قسم کا رہا ہو گا؟ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ یہ کس طرح کا برتائو کرتے چلے آ رہے ہوں گے؟ بھارتی میڈیا اور اس کے خفیہ ادارے جو ہمیشہ سے باہم شیر و شکر ہیں‘ بھارت میں ایک تنکا گرنے پر بھی اس کی ذمہ داری پا کستان اور آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈالنا نہیں بھولتے۔ اگر تفصیل لکھنے بیٹھیں تو کتاب در کار ہو گی۔ ممبئی میںتاج محل اوبرائے حملوں کو ابھی تین ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ 13 فروری 2009 ء کو پونا کی مشہور جرمن بیکری میں ہونے والے بم دھماکوں کا الزام بھی پاکستان کے سر تھوپ دیا گیا۔ بھارت اگر 13 فروری کو پونا میں جرمن بیکری میں ہونے والے اس بم دھماکے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کراتا تو کرنل پروہت ، سنیل جوشی، سدھاکر اور میجر رمیش کو شامل تفتیش کیا جاتا کیونکہ اس دھماکے میں IED ایمونیم نائٹریٹ فیول شامل تھا جس میں RDX کو بطور BOOSTER شامل کیا گیا اور بمبئی پولیس کے قتل کئے گئے چیف ہیمنت کرکرے نے اکتوبر 2008 ء میں مرکزی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا تھا کہ کرنل پروہت جب دیولائی چھائونی کے اسلحہ ڈپو میں تعینات تھا تو کئی ماہ وہاں سے تھوڑا تھوڑا اسلحہ اور بارود پونا کے ایک جمنازیم میں سٹاک کرتا رہا۔ افسوس ہے کہ بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگائوں، اجمیر شریف اور ناندے بم دھماکوں کی طرح پونا کا ذمہ دار بھی حسب معمول پاکستان کی آئی ایس آئی کو ٹھہراتا رہا لیکن پونا کے بے گناہوں کاخون اسی طرح اپنے قاتلوں کو دنیا کے سامنے ننگا کر چکا ہے جیسے سمجھوتہ، مالیگائوں،موداسا بم دھماکوں کے ذمہ داروں کا کیا ہے۔
پاکستان کو الزام دیتے ہوئے نہ جانے امریکی اور یورپی میڈیا کو مالیگائوں، موداسا، حیدر آباد مکہ مسجد ، اجمیر درگاہ ، جے پور،اورسمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے بم دھماکوں میں 200 سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت اور تین سو کے قریب لوگوں کو زخمی کرنے والوں کے اصل چہرے یاد کیوںنہیں رہتے؟ امریکہ سمیت برطانوی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب ممبئی پولیس کی انسدا دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کرکرے نے بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پرسادپروہت کو گرفتار کیا تھا تو دنیا بھر کے سفارتی، سیا سی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک بھونچال سا آ گیا تھا۔دنیا کے آزاد میڈیا میں ہر طرف بھارت کی ''ROGUE ARMY‘‘کے چرچے ہونے لگے تھے۔ جیسے جیسے ممبئی پولیس ،CIB,ATS کی کرنل پروہت کے گروپ کے متعلق مشترکہ تفتیش آگے بڑھتی گئی ‘ RAW اور بھارتی فوج کی سنٹرل کمانڈ کے ہاتھ پائوں پھولنا شروع ہو گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اگر یہ بات باہر نکل گئی تو کیا ہو گا۔ چنانچہ 26/11 سے ایک ماہ قبل جنرل لامبا نے اپنے چیف جنرل دیپک کپور کو رات گئے جگا کر اس ہولناک خبر سے آگاہ کیا تھا۔ یہ وہ الزامات تھے جو اب عدالتوں میں ثابت بھی ہو چکے ہیں ۔ 26 نومبر 2008 ء کو ممبئی کے خون آشام حملوں کی بات کرنے سے پہلے بھارت میں ہونے والی دوسری دہشت گردانہ کارروائیوں کا بھی جائزہ لینا ہو گا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ بھارت کے اندر کے لوگ کیا کچھ نہیں کر سکتے :
٭26 اپریل کو پولیس اور انسداد دہشت گردی سیل نے مہاراشٹر کے ایک قصبے ناندو میں آر ایس ایس کے کیمپ پر چھاپہ مارا تو وہاں سے نقلی داڑھیاں اور بھارت کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے پہنے جانے والے لباس ملے اور یہیں سے میجر رمیش پاڈیا، شرو کلکرنی اور پرگیہ ٹھاکر نامی ہندو عورت کی بھی نشاندہی ہوگئی اور یہیں سے مالیگائوں کی د رگاہ میں بم دھماکوں کی جگہ سے ملنے والی نقلی داڑھیوں کی گتھی بھی سلجھ گئی۔
٭ ۔ 22 اکتوبر کو مدھیہ پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس ایس کے روت نے ہوم سیکرٹری کو رپورٹ دی کہ کرنل پروہت نے تسلیم کر لیا کہ مالیگائوںبم دھماکوں میں اس کے ساتھ دیا نند پانڈے بھی شامل تھا جس نے راجستھان میں اجمیر شریف کی درگاہ میں بم رکھے تھے۔ کرنل پروہت کو جب حراست میں لیا گیا تو اس وقت وہ پنچھ مڑی مدھیہ پردیش میں انڈین آرمی کی ایجو کیشن کور کے سکول میں عربی زبان پر عبور حاصل کر رہا تھا ۔ دیانند پانڈے کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ لیفٹیننٹ جنرل سنہا جب مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر تھے تو پانڈے ان کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے کشمیر کے راج بھون میں ٹھہرائے گئے اور وہاں کے مشہور مندر میں کچھ لوگوں سے ان کی اہم ملاقاتیں کرائی گئیں۔
٭۔23 اکتوبر کو راجستھان انسداد دہشت گردی فورس نے آر ایس ایس کے سنیل جوشی کی ایک ڈائری قبضہ میں لی جس میں لکھے گئے فون نمبروں کے استعمال کا جب ریکارڈ چیک کیا گیا تو اس میں کرنل پروہت سے کئی بار گفتگو کی گئی تھی ۔
٭۔ 26 اکتوبر کو بمبئی پولیس چیف نے بھارتی فوج کو ایک خط میں لکھا ! '' بم دھماکوں میں گرفتار کئے گئے ''سدھاکر چترویدی‘‘ سے پولیس کو کرنل پروہت کے دستخطوں سے جاری کردہ جعلی فوجی شناختی کارڈ اور ریوالور بمع لائسنس ملا ہے جس میں اسے ناشک میں دیولائی فوجی چھائونی کا اہل کار ظاہر کیا گیا ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کرنل پروہت کے ساتھ اور کون فوجی افسر اور اہل کار اس جعل سازی میں شریک ہیں؟‘‘
٭ ۔ 28 اکتوبر کو CIB کی جانب سے بھارتی فوج کو لکھا گیا کہ ہماری ایک مصدقہ خفیہ رپورٹ کے مطابق کرنل پروہت یکم اگست کو ممبئی کے ایک ہوٹل میں موجود پایا گیا تھا جہاں اس نے شدت پسند جماعت وشوا ہندو پریشد کے لیڈرPRAVEEN TOGADIA سے ملاقات کی ہے ۔کیا کرنل پروہت نے اس دن فوج سے ممبئی آنے کیلئے رخصت لی تھی اور کیا کرنل کے اعلیٰ افسران''ممبئی کے اس خفیہ مشن‘‘ سے واقف تھے؟
٭ ۔29 اکتوبر کو ہیمنت کرکرے نے وزارت دفاع سے سخت احتجاج کیا کہ انہیں کرنل پروہت کا اب تک لی گئی سرکاری چھٹیوں کا ریکارڈ مہیا نہیں کیاجا رہا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ 2006ء میں '' بجرنگ دل کے تربیتی کیمپوں‘‘ میں وہ کس کی اجازت سے جاتے رہے ہیں؟ (جاری)