18 سال کے طویل اور صبر آزماانتظار کے بعد ڈراپ سین ہو ہی گیا ۔سابق صدر آصف علی زرداری سوئس اکائونٹس کے تمام مقدمات سے با عزت بری کر دیئے گئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ اس کے سامنے متعلقہ کاغذات پیش نہیں کئے گئے اور ان کے بغیر کسی کو ملزم ٹھہراتے ہوئے کیسے سزا دی جا سکتی ہے؟ وہ کاغذات کیا ہیں؟ ساٹھ ملین ڈالر کی 1997ء میں شروع ہونے والی اصل کہانی کچھ یوں ہے ۔۔۔۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے آخری دنوں میں مسلم لیگ نواز کے دو اہم ترین افراد سوئٹزرلینڈ میں کچھ گم نام اکائونٹس کی بھنک لینے کیلئے لندن کے مختلف اداروں اور لوگوں سے رابطوں میں مصروف تھے۔ اسی دوران''ایک شخص‘‘ کا پیغام ملاکہ اس کے پاس انتہائی اہم پاکستانی شخصیات کی منی لانڈرنگ سے متعلق اہم ترین دستاویزات ہیں۔ یہ پیغام ملتے ہی مذکورہ دو نوںافراد اس شخص سے ملاقات کیلئے طے شدہ مقام پر پہنچ گئے۔ اس شخص نے انہیں چند بینک اکائونٹس اور کچھ کمپنیوں سے متعلق لاکھوں ڈالر کی ایسی دستاویزات دکھائیں، جن پر پاکستان کی چند اہم سیا سی شخصیات کے دستخط ثبت تھے۔مذکورہ شخص سے ابتدائی معاملہ طے کرنے کے بعد ان دستاویزات پر قانونی مشاورت کیلئے ان دو افراد نے کراچی کے ایک اہم قانونی ماہر خالد انور کو، جو بعد میں مرکزی وزیر قانون بھی بنے، لندن بلایا۔خالد انور صاحب نے ان دستاویزات کے بغور مطالعہ اور معلومات فراہم کرنے والے شخص سے تفصیلی گفتگو کے بعد ان کے مکمل طور پردرست ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔
محترمہ کی حکومت برطرف ہونے کے بعد فروری1997ء میں کرائے گئے انتخابات کے نتیجہ میں میاں محمد نواز شریف جب دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو ان دستاویزات کی ایک بار پھر تفصیلی
چھان بین کی گئی، اور اس بار پاکستان کی ایک سول خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل اور پوٹھو ہارسے تعلق رکھنے والے ایک اہم وفاقی وزیر بھی اس ٹیم میں شامل کر لئے گئے۔ سوئٹزر لینڈ ، امریکہ اور لندن کے دوروں کے بعدان دستاویزات کے مکمل درست ہونے کا جب سب کو یقین ہو گیا، تو ان دستاویزات کو اگلے عام انتخابات تک سنبھال لیا گیا، لیکن ہوا یہ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خط لکھ دیا، جس پر وزیر اعظم نواز شریف اشتعال میں آ گئے، اور انہوں نے چیئر مین احتساب سیل سیف الرحمان کو اعتماد میں لے کر آصف زرداری کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں، جس پر سیف الرحمان، آئی بی اور وزارت اطلاعات فوراً حرکت میں آ گئے اور انہوں نے مزید معلومات کیلئے اس وقت جیلوں میں بند بے نظیر بھٹو دورِ حکومت کے اعلیٰ افسران، جن میں سلمان فاروقی، عثمان فاروقی، احمد صادق، سٹیل مل والے سجاد حسین،ایڈ مرل اکبر، نیر باری،اسد شیخ،سراج شمس الدین، رائے سکندر،ایم بی عباسی، یونس ڈالیا،جاوید پاشا، علی جعفری اور ماجد بشیر سمیت کئی سینئر بیوروکریٹس شامل تھے، سے ذہنی اور جسمانی تشدد کے ذریعے اعترافی بیانات پر دستخط لینے کے علا وہ ان کی ویڈیوز بھی بنالیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سلمان فاروقی پر جیل میں دوران تفتیش سیف الرحمان کی موجو دگی میں سب سے زیا دہ تشدد کیا گیا اور ان پر سخت پہرہ لگا دیا گیا تاکہ کوئی بھی ان سے ملاقات نہ کر سکے۔ اس وقت کے حکومتی قانونی ماہرین کی مشاورت اور معاونت سے ان سب پر30 کے قریب فوجداری مقدمات بھی دائر کر دیئے گئے۔دوسری جانب سوئس اکائونٹس کے بارے میں دستاویزات دینے والے شخص نے 27 فروری 1995ء کو جاری کئے گئے سوئس فارمA ،جسےA Govt: Required Benificial Owner ID Formکہا جاتا ہے، کی مستند کاپی بھی ان کو فراہم کر دی، جس پر کئے گئے تمام دستخط صاف اور واضح تھے۔ جب سب کچھ واضح ہو گیا تو اس وقت کے وزیر قانون خالد انور اور سیف الرحمان نے 15 جولائی 1997ء کو مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف سوئس اکائونٹس کے تمام ثبوت میڈیا کے سامنے پیش کر دیئے ۔میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش گئی ان دستاویزات میں بومر فنانس کی 25اپریل 1991ء کی وہ دستاویز بھی شامل تھی جس کے مطا بق یہ معاہدہ سوئٹزر لینڈ میں ہوا، لیکن پاکستان کے ریکارڈ کے مطا بق آصف علی زرداری اس تاریخ کو کراچی کی لانڈھی جیل میں بند تھے۔یہ معاملہ آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان کے یہ دستخط لانڈھی جیل کی انتظامیہ کی اجا زت سے ہوئے تھے یا مدد سے؟کیونکہ آصف علی زرداری دسمبر1990ء میں گرفتار ہونے کے بعد فروری1993ء میں رہا کئے گئے تھے۔
حکومت کی جانب سے ''اس‘‘ شخص سے خریدے گئے تمام ثبوتوں کو پیش کرنے کے بعد جب سوئٹزر لینڈ میں بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی، تو ابتدا میں عدالت کی جانب سے ان کے ان تمام اکائونٹس کو90 روز کیلئے منجمد کر دیا گیا جس کی مدت بعد میں عدالت کی طرف سے بڑھا دی گئی، جس کی تصدیق اس وقت پاکستان میں تعینات سوئس سفیرMarc-Andre Salamin نے بھی کی۔سوئس کورٹس کی یہ کارروائی جونہی باہر آئی تو دنیا بھر کے بڑے بڑے اخبارات اس کی خبروں سے بھر گئے۔ اس وقت لندن کے ایک اخبار نے اپنی سٹوری میں لکھا کہ محترمہ کے سوئس اکائونٹس تین بلین ڈالر ہیں۔اس وقت کی حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری کے جن بینک اکائونٹس کی تفصیلات مہیا کی گئیں، ان میں ایک معروف بین الاقوامی بینک کا فارم اے، جو بینک اکائونٹ کھولنے کیلئے ضروری ہوتا ہے،بھی پیش کیا گیا۔ اس فارم میں ان کے بینک اکائونٹ کا نمبر342034 تھا جسے Capricorn Trading کے نام سے کھولا گیا اور جس پر زرداری صاحب کانام اور ایڈریس بلاول ہائوس کراچی درج تھا ۔فارم میں صرف انہیں ہی اپنا یہ بینک اکائونٹ آپریٹ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ نواز حکومت کی جانب سے محترمہ اور زرداری کے خلاف پیش گئی ان دستاویزات میں سے ایک سٹی بینک نیویارک کی تھی جس کے مطا بق Capricron کے کھاتے میں چارمئی1994 ء کو ریفرنس نمبر3951238126 کے ذریعے10, 204,326.27 ڈالر منتقل کرائے گئے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے اندردائر کیے گئے اس مقدمے کے ایک حصے کی بنا پر پاکستان کی عدالتوں نے اپریل1999ء میں محترمہ اور آصف زرداری کو8.6 ملین ڈالر جرمانہ اور پانچ سال قیدکا حکم سنایا۔ دوسری طرف چار سال بعد سوئس انویسٹی گیشن عدالت کے مجسٹریٹ نے اگست2003 ء میںمحترمہ اور زرداری صاحب کو پچاس ہزار ڈالر جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا کا حکم سناتے ہوئے فیصلے کے دوسرے پیرے میں حکم دیا کہ 11 ملین ڈالر کی یہ رقم حکومت پاکستان کو واپس کر دی جائے۔ سوئس کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف محترمہ اور آصف علی زرداری اپیل میں چلے گئے۔۔۔۔ پھر حالات نے ایک نیا پلٹا کھایااور 2007ء میں امریکہ اور برطانیہ کے حکم پر جنرل مشرف کی ظاہری طور پر جبکہ جنرل کیانی اور افتخارچوہدری کی درپردہ معاونت سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے این آر او ہوا، تو اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے حکومت کی ہدایت پر سوئس حکومت کو خط لکھا کہ حکومت پاکستان یہ مقدمہ واپس لے رہی ہے، اس پر مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے،جس پر سوئس اٹارنیZappelli نے26اگست 2008ء کو حکومت پاکستان کو خط لکھتے ہوئے کہا کہ آپ کی طرف سے یہ مقدمہ واپس لینے کی بنا پر60 ملین ڈالر (چھ سو کروڑ)کی رقم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو واپس کی جا رہی ہے، لیکن اس رقم میں سے39 ملین سوئس فرانک بطور کمیشن بحق سوئس حکومت منہا کر لیے گئے ہیں۔ وہ شخص جس نے پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے بھاری رقم لے کر یہ سب معلومات نواز حکومت کو فراہم کیں اس کا نامـJens Schlegelmilch ہے ۔