کہا جاتا ہے کہ تصویریں بولتی ہیں۔ اس سے انکار اس لیے ممکن نہیں کہ بہت سی تصویروں میں نظر آنے والی آنکھیں کوئی سوال کرتی محسوس ہوتی ہیں، کچھ کہنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں، ان میں کوئی شکوہ ہوتا ہے، کچھ پوچھ رہی ہوتی ہیں۔ آنکھوں کی اداسی، شوخی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہنے کی مثالیں ہمارے شاعروں کے کلام میں کثرت سے ملتی ہیں۔ چہرے کے تیور بھی اندرونی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں، تیور بدلنے کا محاورہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔
فرانس میں ماحولیات سے متعلق کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے درمیان ہونے والی غیر متوقع سرگوشیاں دنیا بھرکو حیران کر گئیں کہ یہ اچانک کیا ہوگیا؟ ماحولیات کی عالمی کانفرنس کے لیے پیرس کے ہال میں دنیا بھر سے آئے ہوئے عالمی سربراہوں سے الگ تھلگ بڑے صوفے کے ایک کونے پر سمٹ کر بیٹھے 120 سیکنڈ تک آپس میں سرگوشیاں کرنے والے دو متحارب رہنمائوںکی لمحہ بہ لمحہ فلم دیکھتے ہوئے صاف لگ رہا تھا کہ ان کی باتیں دونوں کی طبیعت پر گراں گزر رہی ہیں۔ نریندر مودی کے چہرے پر بار بار بدلتے ہوئے متفکرانہ تیور حیران کن تھے۔ یا اﷲ کیا ماجرا ہوگیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم سے کی جانے والی سرگوشیاں مودی کی طبیعت پر گراں گزر رہی ہیں! اگر اخبارات کو جاری کی جانے والی تصاویر اور ٹی وی چینلز پر چلنے والی فلم کو غور سے دیکھا جائے تو ایک سو بیس سیکنڈ تک نریندر مودی ہی باتیں کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ شاید وہ
میاں نواز شریف کو گھبرائے ہوئے لہجے میں کوئی اہم معلومات دے رہے تھے کیونکہ میاں نواز شریف بڑے ہی متفکرانہ انداز میں ان کی باتیں سنتے دکھائی دیتے ہیں۔ تصویروں کی زبان چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سرگوشیوں میں کی جانے والی بات وہ نہیں جس کا اخبارات میں تذکرہ کیا جا رہا ہے بلکہ بات کچھ اور ہے۔ متحارب ہمسایہ ممالک کے دونوں رہنمائوں کی تصویریں دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی کسی تشویش ناک خبر سے میاں نواز شریف کو آگاہ کر رہے ہیں جو شاید صرف ان کی ذات سے متعلق ہے۔ یہ اہم خبرکیا ہو سکتی ہے؟ اس کے بارے میں ہر زاویے سے سوچا جا سکتا ہے، لیکن اس کے سوا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ کوئی ایسی خبر تھی جس نے دونوں رہنمائوں کو متفکر کر دیا تھا۔
فرانس کی 120 سیکنڈ والی ملاقات کا شور ابھی اپنی پوری لے کے ساتھ دھوم مچائے ہوئے تھا کہ یک نہ شد دو شد کے مصداق بھارت کی مشہور صحافی برکھا دت نے اپنی پہلی شائع ہونے والی کتاب میں ایک ایسی سٹوری کا انکشاف کیا جس نے عالمی سطح پر تہلکہ سا مچا دیا ہے۔ برکھا دت نے سرگوشیوں میں ہونے والی اس ملاقات سے ایک سال قبل 26-27 نومبر 2014 ء کو کٹھمنڈو (نیپال) میں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان خفیہ ملاقات کی کہانی بیان کر دی۔ انہوں نے لکھا کہ نیپال میں دونوں رہنما ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بظاہر گریزاں نظر آتے تھے لیکن نریندر مودی نے سٹیل کے شہنشاہ اور بھارت میں جندل گروپ کے سجن جندل کو فوری طور پر نیپال پہنچنے کے لیے کہا جس نے اپنے جہاز پر وہاں پہنچنے کے بعد اسی ہوٹل میں کمرہ بک کرایا جہاں یہ دونوں رہنما قیام پذیر تھے اور اسی رات ان کے کمرے میں بھارت اور پاکستان کے دونوں وزرائے اعظم کے مابین ایک گھنٹے کی ملاقات کرائی۔ اس ملاقات کو اب خفیہ اس لیے نہیں لکھا جا رہا کہ برکھا دت نے اس کا تذکرہ رالف پبلی کیشنز کے تحت شائع ہونے والی اپنی کتاب میں کر دیا ہے۔ اس کتاب کے مارکیٹ میں آنے کے بعد یہ مبینہ ملاقات اب خفیہ کیسے کہی جا سکتی ہے؟
برکھا دت بھارتی میڈیا کو اس ملاقات کی تفصیلات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے اس ملاقات سے بھارت کے جندل گروپ اور میاں نواز شریف کا مفاد شاید یہ ہے کہ یہ دونوں افغانستان کے کونے کونے میں بکھرا ہوا بے تحاشا فولادی کچرا اپنی سٹیل ملوں کے لیے اکٹھا کرنے کو بے چین ہیں۔ یہ خبر باہر آنے کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔ گیارہ جولائی 2013ء کو روزنامہ دنیا ہی میں شائع ہونے والے اپنے مضمون'' دوحہ سے ماسکو‘‘ میں راقم الحروف نے لکھا تھا کہ افغانستان کے صوبے بامیان میں 2 ارب ٹن لوہے کے ذخائر موجود ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے افغان آئرن اور سٹیل کنسورشیم اور بھارت کے جندل گروپ کے درمیان بات چیت آخری مراحل میں ہے اور بھارت نے افغان حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ حاجی گاک کے افغانی کوئلے اور بامیان کی مجوزہ سٹیل مل کی تنصیب کے لیے آٹھ کروڑ ڈالر بطور امداد دے گا۔ اس متوقع معاہدے کے تحت جندل گروپ افغانستان میں حاجی گاک کے پہاڑوں سے 2 ارب ٹن خام لوہا نکال کر اسے ایکسپورٹ کرنے کا مجاز ہو گا۔ یاد رہے کہ یہ لوہا گریڈنگ میں 60 پوائنٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اپنی کتاب میں برکھا دت یہ بھی لکھتی ہیں کہ جب پاکستانی وزیر اعظم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی پہنچے تھے‘ تو اسی شام جندل فیملی نے ان کے پورے خاندان کو پُرتکلف چائے پر مدعو کیا تھا۔ برکھا دت لکھتی ہیں کہ جب وہ میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے دہلی کے'' تاج مان سنگھ ہوٹل‘‘ پہنچی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ سجن جندل نواز شریف کے صاحبزاے حسین نواز کو اپنے ہمراہ لیے کھانے کے کمرے میں جا رہے تھے۔ بھارت کے کاروباری طبقوں کے لیے یہ اطلاع حیران کن نہیں تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میاں نواز شریف کے صاحبزادے بھی چونکہ جدہ میں سٹیل کا بہت بڑا کاروبار کرتے ہیں اس لیے جندل گروپ کے ساتھ کاروباری معاملات طے کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
لوہے کی عالمی مارکیٹ میں یہ خبر بھی سب کو حیران کر رہی ہے کہ سجن جندل اٹلی کے شہر PIOMBINO میں بدترین معاشی صورت حال تک پہنچنے والی سٹیل مل بھی کسی دوسری اہم شخصیت کی شراکت سے خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بھارت کا جندل سٹیل گروپ افغانستان کے آئرن سٹیل کنسورشیم کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اس میں افغانستان کا حکومتی ادارہ SAIL اور جندل خاندان کے کاروباری ادارے JSW,ISPL,MONNET ISPAT شامل ہیں۔ اس پروجیکٹ میں جندل فیملی کے 44 فیصد حصص ہیں۔ جب جندل گروپ کی یہ خبر سامنے آئی تو اس کی کمپنی JSW کے مینجنگ ڈائریکٹر شیش گری رائو نے کہا کہ بھارت کی سٹیل انڈسٹری کے تمام ٹائیکونز کی شدید خواہش ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف حاجی گاک کے خام لوہے کو افغانستان سے براستہ پاکستان بھارت لے جانے کی اجا زت دے دیں۔