بھارت 44 سال گزرنے کے بعد بھی 16 دسمبر 1971ء کو لگائے گئے زخم کی لذت سے سرشار ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔ پاکستان قوم کو توقع تھی کہ ہمارے حکمران اس ہزیمت سے سبق سیکھیں گے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا اور من حیث القوم ہم سب بھارت کو پھر اسی قسم کی تاریخ دہرانے کا موقع دے رہے ہیں۔ بھارت نے تو اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ بنگلہ دیش بنوانے کی صورت میں لے لیا‘ لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ برہمن دو قومی نظریے کو بحیرہ عرب میں غرق کرنے کی''عظیم الشان‘‘ فتح کے نشے کے چسکے لینے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے بنگلہ دیش میں اب تک متعدد بین الاقوامی تقریبات بھی منعقد کر چکا ہے۔ دو سال پہلے 15 دسمبرکو اسی طرح کی تقریب میں بھارت کے ایسے دوستوں، ہمدرد دانشوروں اور قلم کاروں کو اعزازات سے نوازا گیا تھا‘ جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھارتی جارحیت کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کی کسی نہ کسی طریقے سے مدد کی‘ اور پاکستانی فوج کو غاصب و جارح ثابت کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اور بھارتی حکومت کے زیر انتظام وزارت برائے جنگ آزادی نے 150 کے لگ بھگ ان غیر ملکی ہمدردوں اور دوستوں کو بنگلہ دیش مدعو کیا‘ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں ان کی مدد کی تھی۔ ڈھاکہ میں منعقدہ اس خصوصی تقریب کے مہمان خصوصی بھارتی صدر پرناب مکھرجی تھے۔
25 جولائی2011ء کو کانگریس اور بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کی ہدایت پر بنگلہ دیش کی آزادی کی پہلی خصوصی تقریب منعقد کرائی گئی‘ جس میں آنجہانی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بنگلہ دیش کی تخلیق میں سب سے مرکزی کردار ادا کرنے پر بعد از مرگ آزادی کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ دوسری تقریب 27 مارچ 2012ء کو منعقد ہوئی جس میں 83 کے قریب بین الاقوامی تنظیموں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔
تیسری تقریب 20 اکتوبر 2012ء کو کرائی گئی‘ جس میں61 بین الاقوامی اداروں اور اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا‘ جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 لکھاریوں، اینکرز اور ہیومن رائٹ سے متعلق خواتین کو مدعو کیا گیا تھا‘ جنہوں نے کسی نہ کسی طور بھارت کی بنگلہ دیش بنانے کی سازش میں مدد کی تھی۔ جن نام نہاد پاکستانیوں نے بنگلہ دیش جا کر بھارت کی بنگلہ دیش کی آزادی کے نام پر ایوارڈ وصول کیے وہ گمنام لوگ نہیں۔
دنیا بھر سے پاکستان کے علاوہ میڈیا اور دوسری تنظیموں کے مسلم دشمن عناصر کو بنگلہ دیش بلا کر دو قومی نظریے کو دفن کرنے کے جشن میں کی جانے والی تقاریر اور پڑھے جانے والے مقالوں کی بات کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا‘ کیونکہ پاکستان اور پاکستانی فو ج کے بارے میں جو گھٹیا زبان استعمال کی گئی‘ اسے لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ پاکستان اور اس کی فوج کو سنائی جانے والی گندی گالیوںکا اس لیے افسوس نہیں کہ اس طرح کے گھٹیا اور رذیل دشمن اور اس کے نمک خواروں سے اس سے زیادہ اور امید ہی کیا کی جا سکتی ہے؟ افسوس ہے تو صرف ان وطن فروش بے غیرت پاکستانیوںکا جنہوں نے نشے کی چند بوتلوں اور ڈالروں کے لیے اس تقریب میں شرکت کی۔ ان کا پاکستان میں بھی دن رات ایک ہی کام ہے کہ وہ پاکستان اور اس کی فوج کو بالواسطہ گالیاں دے کر اپنا دل ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں۔
ان تقریبات میں جس بات کی سب سے زیادہ تکرار کی گئی‘ وہ پاکستان کے وجود کی تھی کہ یہ کیوں بنایا گیا؟ اور اس کی اب خطے میں کیا ضرورت ہے؟ ایک طرف پاکستانی قوم ہے جو چالیس سال قبل دشمن کے تیز دھار آلے سے لگنے والے اپنے زخموں کو بھول کر دشمن کے جال میں پھنستی جا رہی ہے‘ تو دوسری طرف ہندوستان ہے جو ہمارے زخموں سے رسنے والے خون کو چاٹ کر لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کو ہوش ہی نہیں کہ پاکستان کے خلاف ایک بار پھر ''بنگلہ دیشی‘‘ طرز کی ایک بڑی سازش کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادتیں جلسے کرتی ہیں‘ جن میں ان کے پاس عوام کو کوئی پروگرام دینے کے بجائے اپنی فوج کو مورد الزام ٹھہرانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کسی سیا سی جماعت نے بھارت کی بنگلہ دیش میں ہونے والی ان تقریبات کو کبھی اپنی تقریر، پریس کانفرنس یا ٹی وی ٹاک میں موضوع نہیں بنایا۔
پاکستان کے عوام کو اور ان کی حفاظت پر مامور اداروں کو سوچنا پڑے گا، لاعلمی کی نیند سے جاگنا پڑے گا کہ آخر چالیس سال بعد ''باسی کڑی میں ابال کیوں آیا ہے‘‘۔ ایک طرف کلدیپ نائر ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر چھوٹے ملکوںکو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ چھوڑو سب کچھ اور صرف سائوتھ ایشین بن جائو اور دوسری طرف بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان اور دنیا بھر سے اپنے ہمدردوں اور ایجنٹوں کو تلاش کر کے بنگلہ دیش میں یہ کہہ کر انہیں اعزازات سے نواز رہی ہیں کہ آپ لوگ ہیومن رائٹس اور صحافت کے بہت بڑے داعی ہیں۔ کیا یہ اتفاق تھا یا کچھ اور کہ جب بنگلہ دیش میں بھارتی حکومت اعزازات دینے کا ڈرامہ رچا رہی تھی، عین اسی وقت سی آئی اے کے سابق سربراہ اور وزیر دفاع لیون پنیٹا ڈاکٹر واحد بخش بلوچ سے ملاقات کر رہے تھے جو خود کو نام نہاد بلوچ سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کا صدر کہلواتا ہے۔ اس ملاقات کا اہتمام CNAS (سینٹر آف نیو امریکن سکیورٹی آف ڈیفنس)
کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ امریکہ سے مطالبہ کر رہا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی طرف سے کی جانے والی مداخلت بند کرائی جائے اور ایران کی طرف سے پاکستان پر حملہ آور ہونے والے ہمارے ایجنٹوں کے خلاف سیستان بارڈر پرکی جانے والی کارروائیاں رکوانے میں ہماری مدد کی جائے۔ ڈاکٹر واحد بخش کے بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں کیونکہ انہیں امریکہ میں کئی دفعہ بھارتی سفارت خانے اور را کے اعلیٰ افسروں سے ملتے جلتے دیکھا گیا ہے۔ اس کے بھارت کے دورے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ جن کا وہ اپنی نجی محفلوں میں بڑے فخرسے تذکرہ کرتا رہتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ڈاکٹر بلوچ امریکی نائب صدر جوبائیڈن، ٹیڈ کینیڈی، چک شومر،گیری ایکر مین اور رُس فن گولڈ جیسے بااثر امریکی سیاستدانوں سے پاکستانی اور ایرانی سکیورٹی فورسز کے خلاف مدد مانگتے ہوئے بلوچستان میں کھل کر مسلح مداخلت کرنے کی اپیلیںکر چکا ہے۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے چالیس سال بعد اعزازات صرف اس لیے دیے جا رہے ہیں کہ بھارت بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی پھیلانے والوں کو اس نشے میں بدمست کر دے کہ دیکھو بھارت کے لیے کام کرنے والوں کو کیسے نوازا جاتا ہے۔ افسوس، جن لوگوں کو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں ساتھ دینے پر بھارت ایوارڈ عطا کرتا ہے، اور جو پاکستان کا ساتھ دینے کی غلطی کرتے ہیں انہیں 70 سال کی عمر میں بھی پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔