روس کے شہر اوفا میں شنگھائی کانفرنس کے موقع پر 10 جولائی2015ء کو پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں 26/11 کے ممبئی حملوں کی تحقیقات اور اس میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ اور اس کے کچھ دن بعدطارق کھوسہ، سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، پاکستان کے ایک مشہور انگریزی روزنامہ میں ایک آرٹیکل لکھتے ہوئے ''اپنی تحقیقات‘‘ میں ثابت کر دیتے ہیں پاکستان کے نان اسٹیٹ ایکٹرز اس دہشت گردی میں ملوث ہیں اور ممبئی حملے میں ملوث ان سب دہشت گردوں کی تربیت ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں کی گئی اور یہیں سے یہ لوگ ممبئی کیلئے روانہ ہوئے ؟ یہ آرٹیکل چھپتے ہی بھارت بھر کے اخبارات میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور انہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کے اس سابق پولیس افسر کی پاکستان کے خلاف لکھی گئی اس فرد جرم کی چاروں سو دھوم مچا دی ۔ 9 دسمبر کو اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آنے والی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ پاکستان سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں ایک بار پھر ممبئی حملوں کی تحقیقات پر کارروائی تیز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔۔۔۔ اور حیران کن طور پر یہ مشترکہ اعلامیہ جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد پاکستان کے اہم ترین جرنلسٹ اور ٹی وی اینکرز طارق کھوسہ کے اسی آرٹیکل کو ٹی وی کی سکرین پر دکھاتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ ممبئی حملوں کے مجرم تو ہمارے پاس مو جود ہیں ایسا لگتا ہے کہ اوفا کا دس جولائی اور اب اسلام آباد کا10 دسمبر کا اعلامیہ صرف ''پاکستان کا کمبل چرانے کیلئے‘‘
جاری کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم اور خارجہ امور کے وزیروں مشیروں کی ان ملاقاتوں کے بعد ہر بار سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے طارق کھوسہ کی فرد جرم کے تشہیری واقعات اور اتفاقات ایسے ہیں جن سے لگتا ہے کہ ممبئی حملوں کے بارے میں یہ دونوں مشترکہ اعلامیے مذکورہ فرد جرم کو سفارتی اور اخلاقی مدد دینے کیلئے تیار کئے گئے ۔ ہو سکتا ہے کہ طارق کھوسہ نے اپنی تحقیقات حقائق پر کی ہوں لیکن ان کا اوفا کے اعلامیہ میں باہمی رضامندی سے ممبئی حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے اعلان کے بعد لشکر طیبہ اور پاکستان کے دوسرے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ملوث کر دینا ان کی تحقیقات کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ پہلے لکھ چکا ہوں کہ طارق کھوسہ اپنی جگہ پر درست ہو سکتے ہیں ان کی تحقیقات میں جان بھی ہو سکتی ہے لیکن ان سے یہ سوال کرتے ہوئے کوئی جھجک نہیں کہ دس جولائی کو اوفا میں میاں نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہوتی ہے اور3 اگست کو وہ پاکستان کے خلاف فرد جرم پر مبنی آرٹیکل لکھ دیتے ہیں جس میں '' اپنی تحقیقات‘‘ کی روشنی میں ثابت کر دیتے ہیں کہ ممبئی کے حملہ آور پاکستان سے گئے تھے اور ان کو کراچی کے ایک آپریشن روم سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔۔۔ یہ آرٹیکل اوفا ملاقات کے بعد ہی کیوں؟ پھر9 دسمبر کو سشما سوراج کے ساتھ ممبئی حملہ کی تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے اور اسی رات کچھ نجی ٹی وی چینل طارق کھوسہ صاحب کے تین اگست 2015ء کو لکھے گئے آرٹیکل''Mumbai Attacks Trial" کی تحقیقات اور اس میں ملوث کئے گئے لشکر طیبہ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائی کے پروگرام نہ جانے کس کی شہہ پر یا کس کو خوش کرنے کیلئے نشر کئے جاتے ہیں۔کیا یہ مشترکہ اعلامیے اور تین اگست کے مضمون اور ٹی وی پروگرامز کی باز گشت سب اتفاقات ہیں؟اور یہ تو کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں کہ جب ممبئی کا واقعہ ہوا تو اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور پاکستان بھر کے نجی ٹی وی چینلز اس بات کے گواہ ہیں کہ سب سے پہلے میاں نواز شریف کا تبصرہ نشر ہوا تھا ''اجمل قصاب فرید پور کا رہنے والا ہے اور کچھ ادارے میڈیا کو اس گائوں میں جانے سے روک رہے ہیں‘‘۔ کاش اوفا اور اسلام آباد اعلامیوں میں یہ بھی شامل کیا جاتا کہ کراچی میں مہران بیس پر حملہ کس کے کہنے پر کیا گیا ؟ کامرہ میں پاکستان ائرفورس کے بیس پر حملہ کس ملک نے کرایا؟ لاہور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کس نے کیا اور کن کی مدد سے کیا؟ گلگت اور چلاس میں قتل عام کس کے کہنے پر ہوا، جس کے ملزمان
سب کے سامنے ہیں؟ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوموں کا قتل عام کس کی مدد سے کیا گیا؟ ائر بیس پشاور بڈ بیر کے پس پردہ حملہ آور کون تھے؟ ۔26/11/2008 کو جب ممبئی کے تین اطراف میں بیک وقت دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز ہوا تو وہ بدھ کا دن تھا جونہی بھارت سمیت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر ان حملوں کی براہ راست کوریج شروع ہوئی تو کچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے چند ماہ قبل بھارت کے سینمائوں میں دکھائی جانے والی ایک فلم کے منا ظر گھومنا شروع ہو گئے، جسے نریج پانڈے نےUTV موشن پکچرز تلے''A WEDNESDAY'' کے نام سے فلمایا تھا۔ جن لوگوں کو یہ فلم اور ممبئی حملوں کی براہ راست کوریج دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس فلم میں سردیوں کی ایک شام اچانک کچھ دہشت گرد ممبئی کے تاج محل اور اوبرائے ہوٹل پر قبضہ کرکے وہاں موجود لوگوں کو یر غمال بنا لیتے ہیں اور پھر یہ دہشت گرد ممبئی پولیس کے کمشنر کو فون پر الٹی میٹم دیتے ہیں کہ ہمارے چار ساتھیوں کو،جو اس وقت بھارت کی قید میں ہیں، فوری رہا کیا جائے ورنہ تاج محل اور اوبرائے ہوٹل میں یر غمال بنائے گئے مقامی اور غیر ملکیوں کو ایک ایک کرکے قتل کر دیا جائے گا۔
کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ اجمل قصاب نامی دہشت گرد، جو بقول طارق کھوسہ اور بھارتی حکومت لشکر طیبہ کا رکن تھا، ممبئی کے وکٹوریہ ٹرمینل پر صرف ان 56خواتین کو گولیوں کا نشانہ بناتا ہے جنہوں نے برقعے پہنے ہوئے تھے ، لشکر طیبہ کا اجمل قصاب نامی یہ دہشت گرد صرف ان داڑھی والے مردوں کو وکٹوریہ ٹرمینل پر اپنی کلاشنکوف کی گولیوں کا نشانہ بناتا ہے، جنہوں نے سروں پر سفید ٹو پیاں پہنی ہوئی ہوتی ہیں؟کیا اجمل قصاب کا نشا نہ صرف مسلمان ہی تھے؟ یہ حیران کن نہیں کہ ممبئی پر تین اطراف سے حملہ آور ہونے والے مبینہ دس دہشت گردوں میں سے صرف مسلمانوں کو قتل کرنے والے اجمل قصاب کی ٹانگ کے صرف گوشت والے حصے پرگولی مارتے ہوئے اسے زندہ گرفتار کیاجاتا ہے۔کیا دوسرے دہشت گردوں کے مقابلے میں اجمل قصاب کو ختم کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ تھی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اجمل قصاب بھارتی ایجنسیوں کے پہلے سے تیار کیے گئے سکرپٹ کا ایک اہم حصہ تھا؟ پونا سے شائع ہونے والے بھارت کے سب سے با اثر انگریزی اخبار 'دی ٹائمز آف انڈیا‘ نے اپنی29 نومبر کی اشاعت میں صفحہ پانچ پر اجمل قصاب کی ایک تصویر شائع کی تھی، جو بالکل سامنے سے تیس فٹ کے فاصلے سے اتاری گئی تھی۔ اس تصویر کو پورے بھارت کے باقی تمام اخبارات نےkill کر دیا اور یہ تصویر دوبارہ شائع نہیں کی گئی اور آج تک کسی بھارتی اخبار نے اس تصویر کی ملکیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا؟وجہ صرف یہ تھی کہ بھارتی را گھبرا گئی تھی کہ اگر یہ تصویر عام ہو گئی تو د نیا بھر کا میڈیا اور ایجنسیاں سوال اٹھانا شروع ہو جائیں گے کہ اجمل قصاب نے اتنے قریب سے اپنی تصویر اتارنے والے کو زندہ کیسے جانے دیا؟ جبکہ شیوا جی اسٹیشن کے چشم دید گواہ فوڈ سٹال مینجر ششی کمار سنگھ کے بھارت کے تفتیشی اداروں کو دیئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ'' حملہ آوروں نے اپنے چہرے نقاب سے ڈھانپے ہوئے تھے اور یہ بیان آج بھی ممبئی کرائمز برانچ کی طرف سے عدالت میں پیش کی جانے والی تفتیش کا باقاعدہ حصہ ہے۔طارق کھوسہ کی تحقیقات کے جواب میں اپنی تحقیقات اگلے کالم میں انشااﷲ تفصیل سے بیان کروں گا ۔