شیخ مجیب الرحمان جب اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور کے ہوائی اڈے پر اترے تو انہوں نے میڈیا کے سوالات پر ایک تاریخی جملہ کہا تھا: Bengalis know how to forget and forgive لیکن آج اسی بنگلہ بندھو کے نام سے مسند اقتدار پر برا جمان ان کی بیٹی حسینہ واجد اپنے باپ کے ہر نقش کو بے گناہوں کے خون سے داغدار کیے جا رہی ہیں۔ پاکستان کے خیر خواہ ہر فرد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا ان کا وتیرہ بن گیا ہے۔ شاید وہ بھارت کو اپنی پاکستان دشمنی کا ثبوت دینے کے لیے ایسا کر رہی ہیں۔ کرکٹ کے شائقین نے وہ مناظر انتہائی حیرت سے دیکھے تھے جب پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان ڈھاکہ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ کے دوران میزبان ملک کی وزیر اعظم نے مہمان خصوصی کے طور پر صرف بنگلہ دیش کی ٹیم سے ملاقات کرنا پسند کیا، مہمان ٹیم سے ملاقات کی، نہ اس کے ساتھ تصویر بنوانا مناسب سمجھا۔ ان کا یہ رویہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے شایان شان تھا، نہ سفارتی اورکھیل کے اصول و آداب کے مطا بق۔ جس نے بھی دیکھا اور سنا وہ اس تعصب کو بد تہذیبی اورجہالت کے سوا اور کوئی نام نہ دے سکا۔ یہ زبردست توہین تھی لیکن پاکستان نے اس لیے اسے مسئلہ نہ بنایا کہ وہ اپنے بارے میں بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت کے برادرانہ جذبات سے بخوبی آگاہ ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن انتخابات کی بنیاد پر حسینہ واجد خود کو منتخب وزیر اعظم کہے جا رہی ہیں ان کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں، کیونکہ سوائے عوامی لیگ کے ملک کی تمام سیا سی جماعتوں نے
ان انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا اور عوامی لیگ کے غنڈوں کے علاوہ بھارت سے مکتی باہنی کے بھیس میں آئے ہوئے ووٹروں نے بیلٹ باکس کو بلٹ باکس بنا کر رکھ دیا تھا۔ ایک مسلمان ملک کی حیثیت سے پاکستان ہمیشہ بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ دینی اور عشروں پر محیط تعلقات کی ہر ممکن پاسداری کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً بیس لاکھ بنگالی اس وقت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ حکومتی اداروں کو بخوبی علم ہے کہ وہ کن گھروں اور اداروں میں کام کر رہے ہیں اورکہاں رہ رہے ہیں۔ پھر یہ کوئی راز کی بات نہیں، بنگلہ دیشی عوام اور حسینہ واجد، دونوں جانتے ہیں کہ پاکستان نے کراچی میں امن وامان کی بدترین صورت حال کے باوجود انہیں کبھی نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں پاکستانی سیاحوں اور وہاں مختلف اداروں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے 14دسمبرکو پاکستان سے تعلیم سمیت ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کی جو بات کی، وہ بنگلہ بندھو شیخ مجیب کی نہیں بلکہ بھارت کی زبان ہے۔ امریکہ میں صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شامل ڈونلڈ ٹرمپ اعلان کر رہا ہے کہ مسلمانوںکا امریکہ میں داخلہ بند کر دیا جائے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر علم و ادب کی تعلیم دینے کے بجائے یہ اعلان کر رہا ہے کہ پاکستانیوںکا بنگلہ دیش میں داخلہ بند کر دیا جائے، چاہے کوئی حصول تعلیم کے لیے ہی کیوں نہ آیا ہو۔ کیا یہ رویہ آج کے لبرل اور روشن خیال عالمی معاشرے میں قابل قبول سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا یہ کسی استاد کی زبان ہو سکتی ہے؟ ایسا لگتا ہے یہ کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر نہیں بلکہ مکتی باہنی کا سیکٹر کمانڈر بول رہا تھا۔
1974ء میں جب وزیر اعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو شیخ مجیب اور بنگالی عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا تھا اور جب اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے شیخ مجیب پاکستان تشریف لائے تو وہ اپنی تمام ناراضی اور گلے شکوے بھلا کر آئے تھے۔ لیکن ان کی بیٹی کو گزشتہ چند برسوں سے نہ جانے کیوں باپ کی ہر نشانی سے نفرت ہونے لگی ہے؟ فرانس اور برطانیہ کے مابین جنگوں کی تباہ کاریوں سے سب واقف ہیں۔ مغربی ممالک کے درمیان پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں پانچ کروڑ سے زیادہ انسانوں کی ہلاکت اور صدیوں پرانی تاریخی عمارات کی تباہی کے با وجود سب یورپی یونین کی صورت میں یک جان ہیں۔ آخر بنگلہ دیش اور پاکستان کو 44 سال بعد ایک دوسرے کے قریب ہونے میں کیا رکاوٹ ہے؟ وہ شکایات جو بنگالی بھائیوںکو پاکستان کے حکمران طبقات سے تھیں انہیں طول دینا عقلمندی نہیں۔ بنگلہ دیش نے اپنی آزادی کو حق بجانب ثابت کرنے اور پاکستان کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کو دنیا کے سامنے لانے کا ہرطریقہ اختیار کیا اور اس میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا۔ اسلام کے انمٹ رشتے میں بندھے ہوئے مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے سے گلے شکوے کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن ایک بھائی کو اپنے دین کی توہین کرنے والے بھارتی برہمن کے تیارکردہ سکرپٹ کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ بنگالی عوام کو یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ بھارت بابری مسجد کی طرح ہر مسجد کو گرانے کی خواہش رکھتا ہے جس میں ڈھاکہ کی خوبصورت مسجد بیت المکرم بھی شامل ہے جو بنگلہ دیشی مسلمانوں کی پہچان ہے۔ اگر حسینہ واجد بنگلہ دیش کی ہر رگ میں بھارتی زہر بھرتی رہیں تو خدانخواستہ کل بنگلہ دیش کی حیثیت جونا گڑھ یا حیدر آباد دکن کی ہو کر رہ جائے گی۔
حسینہ واجد اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اچھی طرح جانتے ہیںکہ بھارت یہ دعویٰ کرتا نہیں تھکتا کہ اس نے دو قومی نظریے کو سمندر میں غرق کر دیا ہے، جبکہ بنگلہ دیش کے چاروں کونوں میں پانچ وقت گونجنے والی اذانیں پیغام دیتی ہیں کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے اور کل بھی زندہ رہے گا۔ بنگلہ دیش سے ہر سال ایک لاکھ سے زائد افراد حج کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتے ہیں، سال میں نہ جانے کتنے بنگلہ دیشی مسلمان عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب جاتے ہوں گے۔ ان کی زبان سے لبیک اللھم لبیک کی گواہی اس بات کا اقرار ہے کہ دو قومی نظریہ ہر مسلمان بنگلہ دیشی کے دل اور روح کی آواز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارت دوہری مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ وہ دو قومی نظریہ تو ختم نہ کر سکامگر خطے میں دو آزاد مسلم ریاستیں بن گئیں۔
کیا بنگلہ دیشی وزیر اعظم اس سچائی سے انکار کر سکتی ہیں کہ جس وقت وہ جماعت اسلامی کی اتحادی تھیں انہیں اس کے ''جنگی جرائم‘‘ کا علم نہیں تھا؟ اس وقت بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ایک کٹر ہندو ہے جس کے ذریعے پاکستان کے ہر ہمدرد کو پھانسی گھاٹ پہنچایا جا رہا ہے۔ اس غیر قانونی اور متعصبانہ انصاف کے تحت سزائے موت پانے والوں کے معاملے میں یورپی یونین خاموش کھڑی ہے جو پاکستان میں پھانسی کی سزا پانے والوں کے لیے آسمان سر پر اٹھالیتی ہے۔بھارت اور حسینہ واجد کے سامنے ان کی زبانیں خاموش کیوں ہیں؟ حسینہ واجد کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی وقت بنگلہ دیشی عوام بھارت کی غلامی کا طوق گردن سے اتارنے کے لیے میدان کارزار میں کود پڑے تو اس کے نتیجے میں قانون پر عمل کرنے والا چیف جسٹس انہیں ان تمام جرائم میں برابرکی شریک قرار دے سکتا ہے۔