پنجاب کی سب سے طاقتور شخصیت کے فرزند حمزہ شہباز شریف نے لودھراں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ''عمران خان نے میانوالی کے غریب لوگوں کی زمین چھیننے کی کوشش کی تو عوام ان کا محاسبہ کریں گے‘‘۔ انہوں نے نمل یونیورسٹی سے ملحق زمین کے مالکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،:شہباز شریف اور نواز شریف آپ کے ساتھ ہیں اس لیے کوئی بھی آپ کی زمین کی جانب میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ابھی حمزہ شہباز کے لودھراں میں کہے گئے ارشادات ہوا میں ہی تھے کہ نواز لیگ کی دُھن پر رقص کرتے ہوئے ہزارہ صوبہ کی تحریک کے لیے ایبٹ آباد میں نکالے جانے والے جلوس پر فائرنگ کر کے12 افراد کو ہلاک کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان نے کہا کہ غریبوں کی زمینیں چھیننے والا عمران خان رنجیت سنگھ بن گیا ہے۔ زاہد خان کی کہی ہوئی باتوں کو ہزارہ والے جانیں یا جاں بحق ہونے والے بے گناہ بارہ افراد کے وارثان، لیکن حمزہ شہباز شریف نے میانوالی کی سلو برادری کے دکھ میں غمگین ہوتے ہوئے جو کچھ لودھراں میں فرمایا‘ وہ ان کی سیاست کا حق ہے۔ اگر تحریک انصاف کے لیڈروں یا ان کے ''انتہائی متحرک‘‘ میڈیا سیل کے پاس وقت ہوتا تو وہ میاں حمزہ شہباز شریف سے صرف اتنا ضرور پوچھ لیتے کہ جناب والا! جب آپ نے
لاہورکی میٹرو بس کے لیے لوگوں کی دکانیں، مکان اور مارکیٹیں گرائی تھیں تو کیا وہ لوگ انسان نہیں تھے؟ کیا آپ نے ان سے اجازت لی تھی؟ کیا آپ نے انہیں آج کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا تھا؟ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ڈی سی او کی جانب سے لاہور کے مختلف علاقوں میں جائداد کی خرید و فروخت کے لیے جو فی مرلہ نرخ مقرر کیے گئے ہیں‘ وہ تو اصل قیمت کا چوتھائی بھی نہیں ہوتے اور پھر جو لوگ تیس چالیس برسوں سے وہاں رہ رہے تھے یا جمے ہوئے کاروبار کر رہے تھے، کیا ان سے آپ نے ملکیت کے حقوق لیے تھے؟ کیا آپ نے اسی سیکشن فور کے تحت زبردستی ان کے گھر، دکانیں اور مارکیٹیں نہیں لی تھیں؟
جناب والا! آپ نے فیصل آباد اور ملتان میں میٹرو اور پلوں کے لیے جو اراضی حاصل کی، کیا وہ سیکشن فور کے تحت نہیں لی گئی؟ کیا آپ وہاں عشروں سے رہائش پذیر اورکاروبار کرنے والوں کو بے دخل نہیں کر رہے؟ تحریک انصاف کی قیادت تو بہت مصروف رہتی ہے، دوسرے انہیں عمران خان کے خلاف کی جانے والی چھوٹی چھوٹی باتوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن لاہور کے لوگ آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے کتنے پٹرول پمپ سڑکوں کی تعمیر کے لیے گرائے؟ کیا مسلم لیگ ن کی حکومت لاہور میں آثار قدیمہ اور تاریخی مساجد کو میٹرو ٹرین کے لیے مسمار نہیں کر رہی؟ کیا آپ سڑکوں، پلوں، میٹرو ٹرین یا میٹرو بس کے لیے لوگوں کی زمینیں، دکانیں، پلازے اور گھر نہیں چھین رہے؟ راولپنڈی تا اسلام آباد جو میٹرو بس چلائی گئی ہے کیا اس کے لیے مری روڈ کے دکانیں مسمار نہیں کی گئیں؟
میڈیا کے دوست سوال کر رہے ہیں کہ کیا تحریک انصاف لاہور اور پنجاب کی قیادت کو علم نہیں کہ پنجاب کی طاقتور ترین
شخصیت کے حکم پر دریائے راوی کے ارد گرد اراضی کے مالکان اس قدر بے بس تھے کہ پٹواری انہیں فرد ملکیت جاری نہیں کرتا تھا‘ اور یہ سلسلہ 2011 ء سے جاری ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اپنی بچیوں کی شادیوں اور خاندان کے افراد کی بیماری کے علاج کے لیے اپنی زمینیں بیچنا چاہتے تھے مگر پٹواری انہیں نئی فرد ملکیت جاری نہیں کرتا تھا، لہٰذا وہ اسے فروخت کر سکتے تھے نہ اس پر قرضہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ کیا تحریک انصاف لاہور کی قیادت اس زبانی پابندی سے آگاہ نہیں؟ پھرکیا وجہ ہے کہ وہ میاں حمزہ شہباز شریف کی لودھراں میں سخت تنقید کا جواب دینے سے معذور رہے؟ شاید اسی لیے ملک کے نو جوان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان صاحب! آنکھیں کھولو اور اپنے ارد گرد بھی دیکھ لیا کرو۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کی پہلی برسی پر اپنی تقریر میں فرمایا کہ ''کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنے والا دنیا و آخرت میں سزا سے نہیں بچ سکے گا‘‘۔ وزیر اعظم کے یہ ارشادات سننے اور پڑھنے والے سر دھننے لگے۔ خدا جانے یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جب وزیر اعظم قاتلوں اور دہشت گردوں کو یہ وارننگ دے رہے تھے‘ عین اسی وقت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری فرما رہے تھے کہ وہ ما ڈل ٹائون کے چودہ بے گناہوں کے خون کا حساب لے کر رہیں گے۔ معلوم نہیں، قادری صاحب اور ان کی عوامی تحریک نے وزیر اعظم نواز شریف کا یہ حوصلہ افزا بیان سنا ہے یا نہیں کہ بے گناہوں کو قتل کرنے والوں کو اس دنیا میں بھی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی۔ ہو سکتا ہے نواز لیگ یہ سمجھتی ہو کہ ما ڈل ٹائون میں قتل کیے گئے چودہ افراد بے گناہ نہیں تھے، ہو سکتا ہے محترم خاتون تنزیلہ یا اس کے پیٹ میں موجود ننھی روح سے کسی کی شان میں کوئی گستاخی ہو گئی ہو؟ ہو سکتا ہے تنزیلہ اور شازیہ کی ماڈل ٹائون اور لاہور ہائیکورٹ کے درمیان گھومتی ہوئی بے چین روحوںنے بھی وزیر اعظم کا یہ بیان سنا ہو اور وہ ننھی جان جو تنزیلہ شہید کے پیٹ میں پرورش پا رہی تھی، اس نے بھی وزیر اعظم کی سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کے 134 بچوں اور سٹاف کے سولہ افراد کے بہیمانہ قتل کی پہلی برسی کی تقریب میں کہے گئے یہ الفاظ سنے ہوں کہ ''تم نے بے گناہ عورتوں اور مردوں کو قتل کیا ہے، اس کی سزا تمہیں اس دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت میں بھی مل کر رہے گی!‘‘ ظاہر ہے جب ملک کا سب سے بااختیار چیف ایگزیکٹو قاتلوںکو سزا دینے کا ارادہ کرے گا تو پھر وہ لازمی طور پر جسٹس باقر علی نجفی کی اس رپورٹ کو بھی سامنے لانے کا حکم جاری کرے گا جس میں ماڈل ٹائون کے چودہ بے گناہ افراد کے قاتلوں کی واضح طور پر نشاندہی کر دی گئی ہے!