پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد نے جاتی امرا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ رائے ونڈ شیڈولڈ نہیں تھا بلکہ مودی صاحب نے روس سے کابل پہنچتے ہی فون کیا کہ وہ میاں نواز شریف سے ملنا چاہتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اسلام آباد میں موجود نہیں بلکہ لاہور میں ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ وہ لاہور آ جائیں گے۔ سیکرٹری خارجہ کے ارشادات کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی فرمایا کہ بھارتی وزیر اعظم کا دورہ طے شدہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے، ملک کی دونوں مقتدر شخصیات غلط تو نہیں کہہ سکتیں، لیکن تین باتیں ایسی ہیں جو کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔ اگر نریندر مودی کا یہ دورہ طے شدہ نہیں تھا تو مریم نوازکی صاحبزادی اور میاں نواز شریف کی نواسی کی شادی پر دیے جانے والے بھارتی ملبوسات کیا نریندر مودی پہلے سے اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے کہ جب بھی ان کے دوست کی کسی بیٹی یا نواسی کی شادی ہو گی تو اسے یہ تحفے میں دیے جائیںگے؟ تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔ اگر شریف فیملی سے متعلق حضرات نریندر مودی کی جاتی امرا آمد کی یہی صفائیاں دیتے رہے تو بہت سے جاننے والے اس کے جواب میں''سجن جندال اور مودی کے رابطے‘‘ کی لوک داستانیں سنا دیںگے۔ جھوٹی کہانیاں سنانے کے بجائے آپ کو فخر سے اقرار کر نا چاہیے کہ جس طرح جندال آپ کے خاندانی دوست ہیں، اسی طرح مودی کے بھی جندال فیملی سے خاندانی تعلقات ہیںاور یہ دوستی تب سے گہری ہونا شروع ہوئی جب کورکمانڈرکانفرنس نے ''گڈ گورننس‘‘ کے بارے میں اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم ہائوس سے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا۔
اسحاق ڈار جیسے باخبر اور وزیر اعظم کے خاندان کے اہم ترین رکن سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ نریندر مودی کا لاہور کا یہ اچانک اورسفارتی اعتبار سے طلاطم خیز دورہ اچانک تھا یا پہلے سے ہی طے شدہ تھا۔ بھارت واپس جاتے ہوئے نریندر مودی نے جو ٹویٹ کیے ان کو پڑھنے کے بعد ان کا یہ جملہ اس دورے کے بارے میں کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گیا کہ '' وہ نواز شریف سے ذاتی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں‘‘۔ نریندر مودی کا یہ فرمانا بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے دل میں وزیراعظم نواز شریف کا ہمیشہ سے بہت مقام ہے اور اسی ناتے وہ میاں محمد نواز شریف کی دوستی کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں۔
نریندر مودی لاہور تشریف لانے سے پہلے افغانستان میں تھے جہاں انہوں نے اپنی حکومت کی جانب سے افغانستان کو دیے جانے والے جمہوری تحفے۔۔۔۔افغان پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ خوبصورت اور قیمتی قینچی کے با وجود ان سے سرخ فیتہ نہ کٹ سکا جسے بعد میں اشرف غنی نے کاٹنے کی سعادت حاصل کی۔ کابل آمد سے پہلے وہ روسی صدر کے مہمان تھے جہاں ان کی شان میں مدح سرائی کرتے ہوئے ولادی میر پیوٹن نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کواقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے نریندر مودی کو ڈپلومیسی سے آگے بڑھنا ہو گا۔ تو کیا لاہور کا یہ دورہ سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست کے لیے اسی طرز کی ڈپلومیسی کا حصہ تو نہیں تھا؟
مان لیتے ہیں کہ بھارت کی آر ایس ایس کے بنیادی رکن نریندر مودی وزیر اعظم نواز شریف سے ذاتی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور وہ اسی دوستی کو نبھانے کے لیے لاہور تشریف لائے، میاں نواز شریف کو ذاتی طور پر ان کی سالگرہ کی مبا رکباد دی، ان کی نواسی کی شادی کی مبارکباد دینے کے علاوہ تحائف دیے اور اپنے لیڈر اٹل بہاری واجپائی کی اسی دن ہونے والی سالگرہ کی مبارکباد بھی سمیٹی۔ لیکن ہمیں کوئی یہ بھی سمجھائے کہ لاہور روانگی سے کچھ دیر پہلے وہ افغان پارلیمنٹ میں تالیوں کی گونج میں یہ
کیوں فرما رہے تھے کہ ''ہمسایہ ملک سے جب تک در اندازی روکی نہیں جائے گی اور وہاں موجود دہشت گردی کی نر سریوں کو ختم نہیں کیا جائے گا،افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ یہاں آ کر لگتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ یہ بات ماننے میں کوئی کوئی رکاوٹ نہیں رہتی کہ وہ لاہور ذاتی تعلق اور دوستی نبھانے کے لیے ہی آئے تھے کیونکہ کابل میں کھڑے ہو کر دنیا بھر کے میڈیا اور سفارت کاروں کے سامنے انہوں نے جو پیغام پہنچانا تھا پہنچا دیا یعنی دہشت گردی کابل کے ہمسائے سے ہو رہی ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو رہا۔
وہ دنیا کو یہ بھی بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان کا وزیر اعظم اور ان کا خاندان تو بھارت سے دوستی کا زبردست خواہش مند ہے، وہ تو دہشت گردی کی نرسریاں ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور افغانستان میں قیام امن کے خواہاں ہیں لیکن پاکستان سے افغانستان میں در اندازی بھی ہو رہی ہے۔کیا لاہور آنے سے پہلے مودی کا لگایا گیا یہ زخم ہماری وزارت خارجہ کے کسی ذمہ دار کی نظر سے نہیں گزرا؟ کیا ہماری وزارت خارجہ یہ سمجھ رہی ہے کہ ہمیں کیا، یہ کون سا ہمارے بارے میں کہا گیا ہے؟
نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں اور ہمدردوںکی سخت بھول ہوگی کہ ایک گھنٹہ دس منٹ کی اس ملاقات میںکی جانے والی''باہمی دوستی‘‘ کی باتیں انہی تک محدود رہیں گی کیونکہ جاننے والے تو اسی دن چونک گئے تھے جب دنیائے سٹیل کے ٹائیکون اور نواز فیملی کے ذاتی دوست سجن جندال اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور آئے تھے۔ اظہار افسوس کس سے کریں کہ یہ سب تو ایک ہی لائن میں کھڑے ہوئے نظر آرہے ہیں؛ تاہم قطار میں لگے ان حضرات سے اتنا تو پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب والا! اگر پاکستان کوکسی ملک سے ایک چاقو یا خنجر بھی مل جائے تو بھارت کے وزیر دفاع اور وزارت خارجہ طوفان بپا کر دیتے ہیں کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا، پاکستان پہلے ہی بھارت میں دہشت گردی کرتا ہے اورکئی بار جارحیت کا مرتکب ہو چکا ہے، اس اسلحے کو بھی بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔ لیکن کیا ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف اور سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ انہیں خبر ہی نہ ہو سکی کہ روس نے بھارت کو چاقو یا خنجر نہیں بلکہ اس کے ساتھ 6 ارب ڈالر مالیت کے دفاعی سودے کیے ہیں۔ اس کے علا وہ روس 6 ایٹمی پلانٹ تعمیر کرنے میں بھارت کی مدد کرے گا۔ کیا خواجہ آصف کو کسی نے نہیں بتایاکہ روس بھارت کو4.5 ارب ڈالر مالیت کا S-400 فضائی دفاعی نظام مہیا کرے گا۔ روسی ساختہ کاموف 226 ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروںکی بہت بڑی کھیپ کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔