"MABC" (space) message & send to 7575

سمجھوتہ سے اب تک

پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کی اگلی صبح‘ پشاور ٹول پلازہ کے قریب سے گزرنے والے پاک آرمی کے ایک بڑے فوجی ٹرک کو‘ جس میں گیارہ جوان اور افسر سوار تھے‘ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایک جوان زخمی ہوگیا‘ خوش قسمتی سے بم دھماکے سے ہماری فوج کسی بڑے جانی اور مالی نقصان سے محفوظ رہی۔ اس کے دو گھنٹے بعد کوئٹہ میں پولیس کے دو جوان نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیئے ۔۔۔۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے سے چند گھنٹوں بعد پاکستان میں ہونے والی یہ دہشت گرد کاروائیاں اتفاقیہ یا معمول کی تخریب کاری کا حصہ تھیں تو وہ غلط ہے‘ بغیر کسی شک و شبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی خفیہ اداروں نے اپنے عوام اور میڈیا کو کارروائی دکھانے کیلئے پٹھانکوٹ کے بدلے میں پاکستان پر جوابی وار کرا ئے ۔ ہمارے اداروں اور میڈیا نے بھارت کے اس جوابی حملے کا ہلکا سا ذکر کرنے سے بھی گریز کیا۔ تین اور چار جنوری کو پاکستان میں بھارت کی جانب سے کرائی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا حوالہ کسی نے بھی دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ بات بھی سامنے رکھنی ہو گی کہ اس سے پہلے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی فوری طور پر کوئی تنظیم ذمہ داری قبول کر لیتی تھی لیکن ان حملوں کی ابھی تک کسی نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔ 
پٹھانکوٹ ائر بیس پر تین جنوری کی رات ہونے والی کارروائی کے بارے میں ابھی تک بھارتی حکومت نے صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے ۔ امریکی سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بروس ریڈل کی ایک حالیہ کتاب میں پاک بھارت 
تعلقات کی خرابی پر کیے گئے اظہار خیال پرکسی اور مضمون میں تفصیل سے ذکر ہو گا لیکن اس وقت اس کتاب کے ایک باب کا حوالہ دینا چاہوں گا، جس میں وہ اس خدشہ کا اظہار کرتے ہیں کہ بہت جلد پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل یا ممبئی حملوں جیسا واقعہ رونما ہونے والا ہے۔کیا پٹھانکوٹ بروس ریڈل کی توقعات کے مطا بق ہے یا پھر اتفاقیہ ہو گیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک بھارتی حکومت کا رویہ محتاط رہا ہے اور اس نے کسی کو بھی نام لے کر نامزد نہیں کیا لیکن بھارتی میڈیا کے ایک بہت بڑے حصے نے ہمیشہ کی طرح اسے پاکستان کے سرمنڈھ دیا ہے۔ وہ وقفے وقفے سے نت نئی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا جواب تو یہ کہہ کر آسانی سے دیا جا سکتا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی بوگی کو جب پانی پت کے قریب بارود اور کیمیکل سے تباہ کرنے کے بعد63 کے قریب لوگ جلا دیئے گئے تھے تو اس کا الزام بھی پاکستان پر ہی لگایا گیا تھا۔۔۔اجمیر شریف کی مارکیٹ، مالیگائوں کے قبرستان میں واقع ایک دربار اور اس سے ملحقہ مسجد میں جب بم دھماکوں میں چالیس سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تو تب بھی پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ مکہ مسجد حیدر آباد میں بم دھماکہ ہوا تو اس کا الزام بھی پاکستان کی آئی ایس آئی کے حصے میں آیا تھا لیکن جیسے ہی ان سب کارروائیوں کی تفتیش ممبئی پولیس کے آنجہانی چیف ہیمنت کرکرے کے پاس آئی تو ایک ایک کر کے سب دہشت گردانہ کارروائیوں کا کھوج بھارتی فوج کے کرنل پروہت اور ان کے ساتھیوں تک جا پہنچا اور پھر ان سب نے تفتیشی اداروں اور حکومتی ارکان کے سامنے تسلیم کر لیا کہ یہ سب کام کسی اور نے نہیںبلکہ ان کے گروپ نے کیے ہیں؛چنانچہ ان سب جرائم پرکرنل پروہت اور اس کے گروپ کے چند لوگ اس وقت بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔گورداسپور میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائی تو ابھی کل کی بات ہے جس پر ہمیشہ کی طرح پاکستان کے خلاف الزامات اور دھمکیوں کی توپیں گونجنا شروع ہو گئیں لیکن جیسے جیسے سچ سامنے آتا گیا ان توپوں کے دھماکوں کی شدت کم ہو کر یک لخت خاموش ہو گئی پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کس نے کیا ہے، اس میں کون لوگ ملوث ہیں۔ کون تنظیم اس کی ذمہ دار ہے؟ بہت جلد یہ سب کچھ سامنے آ کر رہے گا۔ بھارت کے دفاعی اداروں کی جانب سے با ضابطہ بیان آنے کے بعد تفصیل سے اس بارے لکھوں گا انشااﷲ ۔
بھارت کا با خبر میڈیا جانتا ہے کہ اجیت ڈوول کو اس حملے کی پہلے سے خبر مل چکی تھی؟ جمعرات کی شام ڈوول کی آئی بی چیف اور آرمی 
چیف دلبیر سنگھ سہاگ اور ایئر فورس چیف سے ملاقات ریکارڈ پر ہے جسے وہ جھٹلا نہیں سکتے۔ بھارتی میڈیا میں تاثر دیا جا رہا ہے کہ حملہ آور ایس پی گورداسپو ر سے سرکاری جیپ چھین کر اندر داخل ہوئے،یہ کہانی ہی بالکل غلط ہے ،کیا بھارتی فوج اور سکیورٹی اداروں میں سے کوئی ایک میری تردید کر سکتا ہے کہ حملہ آور سامنے سے نہیں بلکہ عقبی جنگل سے گیارہ فٹ اونچی دیوار پھلانگ کر ایئر بیس کے اندر داخل ہوئے تھے اور انہوں نے اس کیلئے پلاسٹک کی ڈوری استعمال کی تھی۔ اجیت ڈوول سے بھارتی میڈیا کو ایک سوال ضرور پوچھنا چاہئے کہ وہ جگہ جہاں سے حملہ آور اندر داخل ہوئے اس جگہ کی لائٹیں اس رات خصوصی طور پر کیوں بند رکھی گئیں اور یہاں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کوکون کھا گیا تھا؟( انشااﷲ اگلے مضمون میں تفصیل سے Operation Dhangu کا ذکر کروں گا) یاد رہے کہ پٹھان کوٹ کا ایئر بیس جس جگہ واقع ہے اس گائوں کا نام ڈھنگو ہے جس کی مناسبت سے ''حملہ آوروں‘‘ نے اس آپریشن کا نام ڈھنگو رکھا ۔ اجیت ڈوول، جو اس آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے، کے زیر اثر میڈیا نے اسی وقت شور مچادیا کہ یہ جیش محمد کا کارنامہ ہے جن کے بہاولپور سے رابطے ہیں۔ کیا یہ بات سب کیلئے حیران کن نہیں کہ ان حملہ آوروں نے کسی بھی طیارے اور ہیلی کاپٹر کو نقصان نہیں پہنچایا؟ DSG کے لیفٹیننٹ کرنل نارنجے کمار، جو اس سے پہلے مدراس انجینئرنگ میں تھے، کے سامنے ان کے گارڈ لانس نائیک کلونت سنگھ نے مارے گئے ایک حملہ آور کو زور زور سے ٹھوکریں مارنا شروع کر دیں، جس سے اس کے جسم کے گرد لپٹا ہوا بارود دھماکے سے پھٹ گیا اور کلونت سنگھ، جسے51 سال کی عمر میں فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ DSG میں بھرتی کیا گیاتھا، وہ بھی کرنل اور ایک حوالدار کی موت کا سبب بنا۔ کیا یہ حملہ آور اس قدر بے خبر نکلے کے وہ جان ہی نہ سکے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس کے اندر غیر ملکی ماہرین کی ایک پوری ٹیم موجود ہے جو بھارتی ایئرفورس کے افسروں اور دوسرے عملے کو انتہائی حساس نوعیت کی تربیت دے رہی ہے؟کیا حملہ آوربے خبر تھے ان غیر ملکی ماہرین کی فیملیاں بھی اندر ہی مو جود ہیں؟
اجیت ڈوول کو یاد رہ گیا ہو گا کہ24 دسمبر1999ء کرسمس سے ایک دن قبل کٹھمنڈو کے تری بھون ایئر بیس سے بھارت کادہلی آتاIC-814 طیارہ اغوا کر لیا گیا تھا جسے پہلے لاہور پھر دوبئی کے فوجی ایئر بیس اور پھر وہاں سے قندھار ایئر پورٹ پہنچایا گیا تھا ہائی جیکرز نے طیارے میں عملے سمیت196 افراد کو رہا کرنے کے بدلے بھارت میں قید تین جہادی رہا کرنے کا مطا لبہ کیا۔ان ہائی جیکرز سے مذاکرات کرنے والا اجیت ڈوول تھا۔ ان تینوں میں سے شاید جیش محمد اور بہاولپور کی منا سبت سے مولانا مسعود اظہر کا نام ابھی تک اجیت ڈوول کی یادداشت میں محفوظ ہے نہ جانے‘محترمہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کے درمیان مہیا کی جانے والی فہرستوں کی کہانی ایک بار پھر کیوں یاد آنا شروع ہو گئی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں