دہشت گردی کے خاتمے کیلئے امریکہ اور برطانیہ سمیت ہر ملک دہشت گردوں تک پہنچنے والے مالی وسائل کو روکنے اور ان کے ذرائع کا کھوج لگانے میں ہمہ تن مصروف ہے اور اس کیلئے گزشتہ پندرہ سالوں میں انہوں نے اس قدر سخت قوانین نا فذ کئے کہ اب چند لاکھ روپے کی ترسیل پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے کیونکہ جب تک دہشت گردوں کے نیچے سے اوپر تک کے مالی نیٹ ورکس کو تباہ نہ کیا جائے کامیابی مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لئے کراچی آپریشن میں رینجرز نے معاشی دہشت گردی کے خاتمے کو بھی اپنی اولین ترجیح دے رکھی ہے۔ اس ملک کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے جو جان بوجھ کرملک کو کھوکھلا کر تے رہے ہیں، کیا یہ منا سب ہو گا کہ ان کے ساتھ بھی عام مجرموں جیسا سلوک کیا جائے؟ کراچی والوں کو پر سکون زندگی دینے کیلئے ان کے وسائل اور روزگار کو تحفظ دینے کیلئے اب تک نہ جانے رینجرز کے کتنے جوانوں کا لہو کراچی کی سڑکوں پر بہہ چکا ہے۔ سندھ رینجرز کے سپا ہی عبدالرزاق سولنگی کو ہو سکتا ہے کہ کراچی کی حکومت اور شہری بھول چکے ہوں جس نے کراچی میں عاشورہ کے جلوس کی سکیورٹی کیلئے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے جلوس کی طرف بڑھنے والے تباہ کن بارود کے ڈھیر کو اپنے گوشت پوست کے وجود سے روک کر سینکڑوں زندگیوں کو ہلاکت اور معذوری سے بچایا تھا۔ یہ کسی عام انسان کی ہمت اور حوصلے کی بات نہیں تھی کہ وہ خود کش جیکٹ پہنے ہوئے انسان سے ٹکرا جائے۔ یہ کام وہی کر سکتاہے جس نے اس ملک کے ایک ایک چپے کی حفاظت کی قسم کھائی ہوتی ہے، جس نے اپنے جسم پر پہنی ہوئی وردی کی قسم کھائی ہوتی ہے۔ جس وردی میں وہ خون میں نہاتے ہیں اورجس وردی میں ان کے جسم کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں وہ وردی انہیں یہی سکھاتی ہے کہ مجھے پہننے کے بعد تمہاری ہر سانس پاکستان کی امانت ہے۔ یہ وردی پہننے کے بعد تمہارا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان اور اس کی عوام کی حفاظت کے لیے وقف ہو چکا ہے۔ اس وردی کو اپنے جسم کی ڈھال نہ سمجھنا۔ اس وردی کو پاکستان اور اس کے عوام کی ڈھال بنا دو۔۔۔۔اور رینجرز کی وردی پہنے ہوئے رینجرز کی خدمات کی جیتی جاگتی مثال کراچی کی روشنیوں کی صورت میں سب کو دکھائی دے رہی ہے۔اس سے پہلے کی دونوں سیا سی حکومتوں کی خواہش اور طریقہ کار پر کراچی میں1992ء اور1994-95ء میں شروع کئے گئے آپریشن نہ تو غیر جانبدار تھے اور نہ ہی شفاف کیونکہ اس میں ایک ہی سیا سی جماعت اور اس کے ہمدردوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور باقی سب کو کھلی چھٹی دے دی گئی اور یہ وہ زخم تھے جوابھی تک مندمل ہونے میں نہیں آ رہے لیکن نیشنل ایکشن پلان کے تحت رینجرز کا حالیہ جاری آپریشن کسی بھی ایسے شخص کا لحاظ نہیں کر رہا جو اس ملک اور اس کی عوام کی سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس میں لیاری امن کمیٹی ہو یا بابا لاڈلا ہو یا ارشد پپو ، لیاری سمیت لانڈھی، کورنگی، سہراب گوٹھ، کٹی پہاڑی سمیت منگھو پیر کراچی کے انڈر ورلڈ مافیا سمیت ہر گینگ کو کچلا جا رہا ہے۔ سالہا سال سے سندھ کے شہروں اور قصبوں میں تعینات سندھ رینجرز کے افسر اور جوان چوکوں اور چوراہوں کے علا وہ ہر اہم شخص کی سکیورٹی کیلئے سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے رہتے تھے۔جب سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان کو اختیارات دیتے ہوئے کہا گیا کہ کراچی شہر کے امن کو واپس لانا ہے۔ قوم آپ سے اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ آپ نے بھتہ مافیا ، اغوا برائے تاوان، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان کی نیام میں پڑی ہوئی تلواریں با ہر نکلیں اور انہوں نے دن رات ایک کرتے ہوئے ملک دشمنوں کا خاتمہ شروع کر دیا۔ جو پاکستان کی شہ رگ سمجھے جانے والے کراچی شہر کو افغانستان بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔ یہی وجہ ہے بہت سی سیا سی جماعتیں اب حکومت سے اپیلیں کر رہی ہیں کہ رینجرز کو سندھ کے اندر بھی اسی قسم کی کارروائی کیلئے بھیجا جائے، ایسا لگتا ہے کہ رینجرز سندھ کیلئے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔سندھ کے کچے کے ڈاکو ہو ںیا شاہراہوں پر لوٹنے والے رہزن۔۔۔سرحدوں کے اندر اور باہر دشمنوں سے نبرد آزما یہ رینجرز ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔ کوئی انسان بھی مکمل نہیں ہوتا اور بشریت میں بہت سے کمزور پہلو ہوتے ہیں اس لیے کراچی کے بہت سے لوگوں کو پچھلے بیس سالوں میں رینجرز سے جائز شکایات بھی ہوئی ہوں گی اور
جہاں نظم و ضبط سے عاری ایک ایسی ہجوم نما قوم سے براہ راست واسطہ ہو، جسے قاعدے اور قانون کے نام سے ہی چڑ ہو، وہاں دو سے زائد دہائیوں کی شہری ذمہ داریوں میں مصروف ان رینجرز سے بھی بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی لیکن کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کسی بھی ادارے کی انفرادی نہیں بلکہ مجموعی کارکردگی پر نظر رکھنی چاہئے۔۔۔ وہ لوگ جن کا کام سرحدوں کی نگرانی ہو، انہیں جب سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر عوام کے درمیان کھڑا کر دیا جائے۔۔۔۔تو ان سے شکایات بھی ہو سکتی ہیں اور بہت سے لوگوں کو ان کا وجو د انتہائی ناگوار بھی گزرتا ہے اس لئے ممکن ہے بہت سے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا گیا ہو ۔۔۔۔کراچی جیسا شہر جو زیر زمین مافیا کے سینکڑوں گروپوں کے علا وہ ملک بھر سے آئے ہوئے قبضہ گروپوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ جہاں مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی سیلاب کی صورت پھیل چکی ہو، جہاں دشمن ملک کے ایجنٹ اپنوں جیسا بھیس بنائے رہ رہے ہوں، جہاں چالیس لاکھ سے زائد غیر ملکی غیر قانونی طریقوں سے گھس چکے ہوں وہ شہر تو دہشت گردوں ، تخریب کاروں، جاسوسوں، بھتہ خوروں، قبضہ گروپوں اور انڈر ورلڈ کی جنت ہوتا ہے جس کی جانب کسی بھی حکومت نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔
یہ زہر پاکستان کے اندر پھیلتا رہا اور پھر پھیلتا ہی چلا گیا اور اس میدان کارزار میں رینجرز کو چھلانگ لگانے کا حکم ملا تو بہت سی قربانیاں دینے کے بعد کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔ ابھی بھی ان کا سفر مکمل نہیں ہوا لیکن ان کے راستے میں بے پناہ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، کہیں لسانیت کے نام سے، کہیں مذہب کے نام سے تو کہیں صوبائیت کے نام سے ۔ ظاہر ہے کہ کراچی کے ان تمام گروپوں کے مفادات پر جب ضرب پڑی ہے تو ان کی نفرت اور غصے کا نشانہ رینجرز ہی بنیں گے جس کا اظہار میڈیا میں بھی نظر آتا ہے۔بلوچستان جو آج اسلحہ کے ڈھیر میں بدل چکا ہے، اس کے افغانستان سے ملحقہ علاقوں سے میزائل، راکٹ،کلاشنکوف گرینیڈزاور بارودی سرنگوں کی سپلائی زوروں پر ہے۔ بلوچستا ن کے افغانستان سے ملحق اس 1160 کلومیٹر سے زائد سرحدی علا قے جہاں ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں سرداروں کے قلعہ نما گھر ہیں اور ان قلعہ نماگھروں کا اگلا دروازہ اگر پاکستان میں کھلتا ہے تو پچھلا دروازہ افغانستان میں جا نکلتا ہے اور انہی قلعہ نما گھروں سے بارود کا ڈھیر کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔ پشین،نوشکی، ذہوب اور قلعہ عبد اﷲ کا تحصیل ہیڈ کوارٹر چمن ٹرانزٹ ٹریڈکہلاتے ہیں اور زہوب کے دلائی، کاہنک اور لہری سے سبی ، کوہلو،ڈیرہ بگٹی کشمور، جیکب آباد اور وہاں سے سریاب سکھر سیکشن کو استعمال کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے یا آر سی ڈی ہائی وے جو مستونگ، قلات خضدار اور لسبیلہ کے راستے کراچی داخل ہو جاتے ہیں۔۔۔ بلوچستان میں موجود افغان مہاجرین کے کیمپ بھی اس مکروہ دھندے میںپیش پیش ہیں اور بلوچستا ن کا گردی جنگل اور جنوبی قندھار کے شوربک اور ایرانی بلوچستان کے مرجاوا قصبے کا علاقہ ہماری بربادی کے لیے استعمال ہونے والے اسلحہ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور یہاں سے یہ ذخیرہ کوئٹہ اور پھر کراچی منتقل ہو جاتا ہے۔۔ ۔!!