پاکستان میںہر سال پانچ فروری کو ملک بھر میں نکالی جانے والی ریلیوں، سیمیناروں اور جلسوں کا مقصداقوام عالم کو یہ یاد دلانا ہوتا ہے کہ کشمیریوں کا قرض تم پر آج بھی واجب الادا ہے۔ وہ وعدہ جو تم نے اقوام متحدہ میں اپنے آپ کو گواہ بناتے ہوئے سب کے سامنے کیا تھا وہ اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ رنگ ونسل اور مذہب کے فرق کے با وجود تم سب نے اپنے اپنے عقیدے کو گواہ بنا کر رائے شماری کی جو قرار داد منظور کی تھی بھارت اسے جوتے تلے مسلے جا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ،پی ڈی پی اور آر ایس ایس کے اتحاد سے مقبوضہ کشمیر میں تشکیل پانے والی کٹھ پتلی حکومت کے پہلے سال نے ہی ثابت کر دیا ہے کہ وہ کشمیر کو بھارت کے اندر ضم کرنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے ۔ بھارت کے چوٹی کے ماہرین قانون کی رائے اور مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ کی بھارتی آئین کی سیکشن370 کی مکمل تشریح کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مذموم منصوبوںسے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں2020ء میں رچائے جانے والے عام انتخابات میں اپنے مشن پلس فورٹی فور(44 +) کی جانب گامزن ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس‘ مقبوضہ علاقوں کی مذہبی شناخت کو بتدریج تبدیل کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں امرناتھ یاترا کی آڑ میں بھارتی فوج اور حکومت کی بے تحاشا مراعات اور اس کے فوائد سے فیض یاب ہونے کی وسیع پیمانے پر تشہیر کر رہی ہے تاکہ دنیا بھر کو بتایا جا سکے کہ کروڑوں ہندوئوں کی دنیا بھر میں سب سے متبرک اور پاک جگہ رام ناتھ کا مندر ہے جو مقبوضہ کشمیر میں واقع ہے اور اس کے بغیربھارت اور ہندوتوا نا مکمل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاست کشمیرکی Demographic Engineering کیلئے خصوصی کوششوں میں بھی مصروف ہیں ۔مثال کے طور پرمغربی پاکستان سے گئے شرنارتھیوںکی بھارتی فوج میں مقبوضہ کشمیر کے کوٹے سے بھرتی، مختلف شہروں میں ان ہندو پنڈتوں کیلئے زمینوں کی الاٹمنٹ جو اپنی مرضی سے چلے گئے تھے ۔ انہیں مخصوص علا قوں میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ آباد کرنے کیلئے فی پنڈت بیس لاکھ روپے کی ادائیگی صرف اس لئے کی جا رہی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے ایسے انتخابی حلقوں میں بسائے جائیں جہاں ہندو ووٹروں کی تعداد کم ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ صحت، تعلیم، لوکل انفراسٹرکچر، سوشل سپورٹ اور دیہی ترقیاتی کاموں کیلئے سب کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان مقبوضہ کشمیر اسمبلی کا محتاج کر دیا گیا ہے۔ تمام اہم پروجیکٹس کی منظوری ‘ان کے اعلانات اور تیاری صرف ان علاقوںمیں کی جا رہی ہے‘ جہاں ہندو ووٹرز کی اکثریت ہے یا جہاں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں تاکہ وہاں کے ہر فرد تک یہ بات واضح ہو کر پہنچ جائے کہ صرف انہیں علاقوں اور لوگوں کی بہتری کیلئے فنڈز دیے جائیںگے جن کی وفاداریاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہوں گی۔ان ہتھکنڈوں سے بی جے پی ریا ستی اسمبلی کے اگلے انتخابات میں اپنی پلس فورٹی فور خواہش کو پورا کرنے کے دیرینہ خواب دیکھ رہی ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت ، آئین اور قانون کے نام نہاد چیمپئن بھارت کا اپنا یہ حال ہے کہ نہ تو وہ مقبوضہ کشمیر کی ہائیکورٹ کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل370 کی تشریح کو مانتا ہے اور نہ ہی ہائیکورٹ کی جانب سے کشمیری رہنما مسرت عالم کی ضمانت منظور کئے جانے کے با وجوداُنہیں رہا کیا جا رہا ہے ۔کیا اس طرح مودی حکومت یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ اپنے حکم کے آگے‘ ہائیکورٹ کے فیصلے کی پروا نہیں کرتی۔ وہ سب لوگ جو آئین، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے نام پر گلے پھاڑ پھاڑکر واویلا کرتے رہتے ہیں ان کی زبانیں عدلیہ کی اس توہین پر نہ جانے کیوں گنگ ہو کر رہ گئی ہیں ؟ ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی ٔ کشمیر کے نام سے منانے کا مقصد کشمیر ی عوام کو یہ یقین دلانا مقصود ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ بدلتے حالات میں بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹادے لیکن کشمیرکے لاکھوں بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیاں اور جدوجہد اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کا ہمیشہ یہ اصولی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ کشمیری عوام حق خود
ارادیت کے سوا کچھ نہیں مانگتے۔ انہوں نے تو آزادی کی جدوجہد اسی روز سے شروع کردی تھی جب انگریزوں نے ایک سو ستر سال قبل گلاب سنگھ کے ساتھ بدنام زمانہ ''معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت16 مارچ 1846ء کو کشمیر کا 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا تھا۔ 1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے پہچان لیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔13 نومبر 1947ء کو شیخ عبداللہ نے پنڈت نہرو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ دہلی کہتے ہیں‘ پھر کانگریس نے بغیر کسی الیکشن کے شیخ عبداللہ کو سری نگر کے تخت پر مسلط کر دیا تو 25 فروری 1975ء کو پاکستان نے آزادا ور مقبوضہ کشمیر میںمکمل ہڑتال کی کال دے دی ۔اس تا ریخی ہڑتال کے دوران سری نگر کے لال چوک میں کشمیری عوام کا من پسند سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا۔ اس ہڑتال کے جواب میں بھارت نے 4 اور13 مارچ 1975ء کو بالترتیب بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے شیخ عبد اﷲ سے کئے جانے والے معاہدہ کی توثیق کروالی جس پرپاکستان نے اقوام متحدہ سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے۔جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا گیا تو تمام کشمیری سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم‘ مسلم متحدہ محاذ کے ذریعے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مسلم متحدہ محاذ کے راہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ الیکشن جیت کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی اس قرار داد کو ریاستی
اسمبلی میں نامنظور قرار دیں گے۔ 23 مارچ 1987ء کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کی واضح اور فیصلہ کن فتح کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے شکست میں تبدیلی کرکے بھارت نے کشمیری عوام کی پرامن ذریعے سے تبدیلی لانے کی خواہش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ یہی وہ نقطہ آغاز تھا کہ جمہوری طریقے سے جدوجہد کرنے والے اور انتخابات میں حصہ لینے والی قیادت مسلح جدوجہد شروع کرنے پر مجبور ہوگئی۔ 1989ء میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے برسوں میں کشمیری عوام اس طرح ان کے سامنے کھڑے ہوں گے کہ ہندوستان نواز سیاسی قوتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ کسی کو یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر کے انتظامی ‘ سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بلند و بالا عمارت انہی قوتوں پر آگرے گی۔ 5 فروری1989ء کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔ اس دن آزاد و مقبوضہ کشمیر ‘ پاکستان اور دنیا بھر میں موجودہ 15 لاکھ سے زائد کشمیری تارکین وطن یوم کشمیر اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ آزادی کے حصول تک یہ دن منایا جاتا رہے گا۔ اس وقت کشمیر میں سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج تعینات ہے ۔ ایک خبر کے مطا بق مزید17 بٹالین بھارتی فوجی دستے مقبوضہ کشمیر میں تعینات کئے جا رہے ہیں ، عالمی ضمیر بھی شائد مردہ ہو چکا ہے جو مشرقی تیموراور جنوبی سوڈان کیلئے تو تڑپ کر رہ گیا تھا اور ایک سال میں ہی کی وحدت پارہ پارہ کر کے‘ دو عیسائی ملک بنا کھڑے کئے!