"MABC" (space) message & send to 7575

مغرب کو دہشت گرد نظر نہیں آتے؟

دو ہفتے قبل لندن کے اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ خبر بڑی حیرت سے دیکھی اور سنی گئی کہ ایک دس سالہ ایسے مسلمان بچے کو لندن پولیس نے تحویل میں لے لیا جس کی کاپی پر تحریر تھا کہ وہ Terrorist House میں رہتا ہے۔ اس بچے سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے بتایا گیا کہ وہ He lived in a terraced house لکھنا چاہتا تھا، لیکن سپیلنگ کی غلطی کی وجہ سے terrorist لکھ گیا۔ خبر کے مطابق پولیس اس بچے کے گھر اور خاندان کے بارے میں تفصیلات حاصل کر رہی ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق اس خاندان کے ماضی اور نظریات کے بارے میں تحقیقاتی اداروں کو قابل اعتراض شواہد نہیں مل سکے۔ بچے کے خاندان کا کہنا ہے کہ اگر بچے کے لکھے جانے والے فقرے کو اس کے سیاق و سباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک عام آدمی بھی جان لے گا کہ بچہ اصل میں کیا لکھنا چاہتا تھا، اس کی تصدیق ان کے گھر کا محل وقوع دیکھ کر بھی کی جا سکتی ہے۔
جب اس مسلمان بچے کی جانب سے لکھے گئے فقرے کی خبریں یورپی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گونج رہی تھیں تو اسی دوران ایک اور خبر بھی آئی جس پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ وہ خبر یہ تھی کہ بلوچستان میں اب تک فوج، ایف سی اور پولیس سمیت سیکڑوں لوگوں کو دہشت گردی سے ہلاک کرنے والوں کے سرپرست براہمداغ بگٹی کی سیاسی پناہ کی درخواست سویڈن کی حکومت نے مسترد کر دی ہے۔ مختلف ممالک میں بیٹھ کر بلوچستان میں دہشت گردی کرانے کا سلسہ تو دس برسوں سے جاری ہے، لیکن حالیہ تفصیلات کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف جنوری اور فروری کی سات تاریخ تک بلوچستان میں پچاس سے زیادہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں شہید اور سو سے زائدکو شدید زخمی کیا جا چکا ہے۔ کئی زخمی زندگی بھر کے لئے معذور ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے بارے میں براہمداغ بگٹی کی تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی کی جانب سے بڑے فخر سے ان کارروائیوںکی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے اور یہ خبریں امریکہ اور بھارت سمیت یورپی میڈیا میں تفصیل سے شائع اور نشر کی جاتی ہیں۔
دس سالہ مسلمان بچے کی ہجوں کی غلطی پر اس قدر تشویش مگر دوسری جانب امریکہ کی جارج یونیورسٹی واشنگٹن کی اسسٹنٹ پروفیسر مسز کرسٹائن فیئر کے پاکستان دشمنی پر مبنی لیکچرز اور خیالات سے دنیا آگاہ ہے، وہ بلوچستان اورکراچی میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ان بلوچ لیڈروںکے ساتھ عرصہ دراز سے رابطے میں ہے جو امریکہ، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں مقیم ہیں۔ مسز فیئرکے سوشل میڈیا کے اکائونٹس دیکھیں تو وہ بلوچستان کی علیحدگی کے لئے بھارتی مدد کی درخواستوں سے اٹے ہوئے نظر آئیں گے۔ ٹویٹر نے دو دن قبل دہشت گردی کے پیغامات سے متعلق ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اکائونٹس تو بند کر دیئے ہیں، لیکن پاکستان میں دہشت گردوں کی سپورٹ کرنے والی اس امریکی پروفیسر کی جانب کسی کی نظر نہیں گئی۔ امریکی اور ایرانی وزارت خارجہ اس حقیقت سے کس طرح انکار کر سکتی ہے کہ مسز کرسٹائن فیئر اپنے دورہ ایران کے دوران زاہدان میں بھارتی قونصلیٹ میں بیٹھ کر بلوچستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے
کے لئے دہشت گردوں کی بھر پور مدد کرتی رہی۔ اس دوران بلوچ دہشت گرد بھی اس کے ساتھ بھارتی قونصل خانے میں موجود رہے۔ لیکن افسوس، اس اسسٹنٹ پروفیسر کی دہشت گردوں سے ہمدردیاں اور معاونت اقوام متحدہ اورامریکہ میں کسی کو نظر آتیں۔ اس کے برعکس اٹلانٹا (امریکہ) میں واقع شیلوہ سکول میں تیرہ سالہ مسلمان لڑکی کو اس کی ٹیچر سر پر پہنے سکارف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھتی ہے کہ کیا تم نے اس کے نیچے بم رکھا ہوا ہے؟ یہ کیسی انسانی حقوق اور آئین کی پاسداری ہے کہ اب تک سیکڑوں شہریوں اور سکیورٹی فورسزکو قتل کرنے والے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی امریکی پروفیسر اور ٹیچرکسی کو نظر نہیں آئی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت پورے یورپ کی
حکومتوں اور میڈیا کی جانب سے پاکستان میں لشکر طیبہ اور حافظ سعید کو دہشت گردی میں ملوث کرتے ہوئے اسے گرفتار کرنے اور بھارت کے حوالے کرنے کی باتیں توکی جا رہی ہیں، لیکن کیا اسی میڈیا اور دنیا بھر کے سفارتی ذرائع کو براہمداغ بگٹی کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی نظر نہیں آ تی؟ امریکہ اور برطانیہ کے لئے ہندوستان میں سال میں چند افراد کی ہلاکت سنگین دہشت گردانہ کارروائی بن جاتی ہے لیکن بلوچستان میں ہر روز پانچ سے دس افراد کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاکت کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔کوئی مسلمان بم دھماکے یا اس کے فوجی بارودی سرنگ کا شکار ہو جائیں تو کیا یہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا؟ بلوچستان کی سڑکوں پر انسانی جانیں بکھری نظر آتی ہیں تو اسے دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مغرب اور امریکہ کی جان پر کیوں بن آتی ہے؟ کیا ان میں سے کسی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس دہشت گرد کو پاکستان کے حوالے کیا جائے؟ کیا اقوام متحدہ کو حافظ سعید کے سوا پاکستان میں آئے دن قتل و غارت کرنے والے دہشت گرد معصوم نظر آتے ہیں؟ سوئٹزر لینڈ سمیت اقوام عالم کی سب طاقتیں جانتی ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی میں کون ملوث ہے۔ براہمداغ بگٹی کی جانب سے سوئس حکومت کو جب سیاسی پناہ کی درخواست پیش کی گئی تھی تو حکومت
پاکستان نے سوئس حکومت کو اس کی دہشت گردی کے مکمل دستاویزی ثبوت فراہم کر دیے تھے، لیکن پانچ سال تک یہ معاملہ اس لئے لٹکائے رکھا گیا کہ وہ جب چاہے، جس کو چاہے اپنی درندگی کا نشانہ بناتا رہے۔ جب براہمداغ بگٹی کی طرف سے دائر کی جانے والی سیا سی پناہ کی درخواست مسترد کی گئی تو ساتھ ہی فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ '' آپ اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر سکتے ہیں‘‘۔ چنانچہ اس نے اپیل کر دی جس کی نہ جانے کب سماعت ہوگی اور کب اس کا فیصلہ ہوگا؟ اس وقت تک نہ جانے کتنی بے گناہ انسانی جانیں مغربی ممالک اور امریکہ کے زیر سرپرستی دہشت گردوں کی نذر ہو چکی ہوں گی۔ پٹھان کوٹ کے بعد ہم نے ہر اس شخص کو گرفتار کیا جس کی جانب بھارت نے اشارہ کیا۔ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے بھی ہم پر دبائو ڈالے رکھا کہ ان سب کو بند کردو، لیکن وہ ایک شخص جو آپ کا مہمان بن کر آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے، بڑے فخر سے بلوچستان میں مزدوری کے لئے گئے ہوئے بے گناہ لوگوں کوقتل کرا رہا ہے۔
ایک دس سالہ بچہ تو ایک لفظ کی غلطی سے مشکوک دہشت گرد ہو گیا لیکن وہ شخص جو گزشتہ صرف ایک ہفتے کے دوران بلوچستان میں51 انسانی جانوں کو نگل چکا ہے، وہ کسی کو کیوں نظر نہیں آتا؟۔کیا اقوام متحدہ کو نظر نہیں آ رہا کہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں دہشت گردی کا طوفان اٹھانے والے لوگ افغانستان، بھارت، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں بیٹھ کر اپنی اپنی تنظیموں کے ذریعے دہشت گردی کی ہدایات دے رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں