ایرانی تیل کے کنوئوں تک رسائی کیلئے امریکی صدر ہنری ٹرومین کا حکم ماننے سے انکار کی گستاخی، پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کی جان لے لیتی ہے تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ امریکہ کی ایران سے طویل مخاصمت کی اصل وجہ صرف ایران کی نیوکلیئر پیش رفت ہے؟ اس پس منظر میں ہونے والی لفظوں کی جنگ اور ایران پر تیس سال تک عائد کی جانے والی سخت پابندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ کاایران پربے تحاشادبا ئو رہا ہے۔ پاکستان اور شمالی کوریا کے مقابلہ میں ایران چونکہ تیل کا مالک ہے اور مالک بھی ایسا جواپنے تیل کی تجارت امریکی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے کرتا رہا ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کا یہ فقرہ "The heart of the issue is not Iran's dubious attempt to build nuclear weapons, or even oil, but how that oil is paid for.'' سننے کے بعد ایران کے متعلق امریکی جارحیت کے مقا صد سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری نہیں رہتی۔
1973ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے شاہ فیصل کومکمل یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر پر بری نیت رکھنے والے کسی بھی ملک کی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے سعودی تیل کے ذخائر کی اسی طرح حفاظت کی جائے گی جس طرح امریکہ اپنے ذخائر کی کرتا ہے ۔سعودی عرب کی یہ درخواست اس خدشے کی بنیاد پر تھی کہ اکتوبر1973ء کی مصر اسرائیل جنگ میں جب مصر نے اسرائیل پر فتح حاصل کی تو مصر کو دی جانے والی ہر قسم کی روسی مدد نے اس فتح کا اصل سہرا روس کے سر باندھ دیا لیکن یہ اب راز نہیں رہا کہ
اس وقت در پردہ ہنری کسنجر اور سی آئی اے پس پردہ رہتے ہوئے مصر کے اصل مدد گار تھے لیکن نام روس کا مشہور کر دیا گیا اور پھر سی آئی اے نے روسی حکومت میں موجود اپنے آدمیوں کے ذریعے شاہ فیصل تک یہ'' راز‘‘ پہنچادیا کہ روس سعودی تیل کے کنوئوں پر قبضہ کرنے والا ہے۔بعض اخبارات میں بھی یہ خبریں چھپیں کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس، اسرائیل کو مصر کے ہاتھوں شکست دلا کر اب سعودی عرب کے تیل کے کنوئوں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور پھر 1973ء میں سعودی عرب نے جب روس کے خلاف ا مریکی فوجی مدد مانگی تو امریکہ نے اس کے بدلے سعودی عرب اور اس کے زیر اثر OPECسے جو سب سے بڑی قیمت وصول کی وہ تیل کے لین دین کو صرف ڈالر کیلئے مخصوص کرنا تھا، جس کا فائدہ امریکہ ابھی تک وصول کر رہا ہے۔ امریکہ نے اس پر ہی بس نہ کی بلکہ سعودی عرب کو روسی جارحیت کا ہوا دکھا کر بلیک میل کرتے ہوئے ان سے وعدہ لے لیا کہ سعودی حکمران اپنے کاروبار، اکائونٹس اور تمام ٹریژری بانڈز امریکہ میں رکھیں گے۔ اس معاہدے کی رو سے، کوئی بھی ملک جو OPEC سے تیل خریدے گا وہ اس کی ادائیگی کیلئے امریکی ڈالر یا پیٹرو ڈالر کا پابند ہو گا۔شاہ فیصل کے اس خوف اور امریکی چھتری نے امریکہ کی کرنسی کو دنیا کی مضبوط ترین کرنسی میں تبدیل کر کے رکھ دیا ۔معاشیات کے طالب علم اور صاحب نظر لوگوں کو یاد ہو گا کہ 1980-90ء تک کا یہی وہ عرصہ ہے جس نے امریکی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس کے پیچھے عرب حکمرانوں کے دماغوں میںٹھونسا ہوا وہی روسی خوف تھا جس کے مستقل خاتمہ کیلئے ان تمام عرب حکمرانوں نے امریکہ کے کہنے پر افغان جہاد پر کھربوں ڈالر نچھاور کر دیئے۔ پاکستان نے تو اپنی سر زمین ہی نہیں بلکہ کندھے بھی پیش کر دیئے۔
دنیا کے تیل کے ذخائر پر امریکی قبضہ کی داستانیں سامنے رکھتے جائیں تو2001ء میں صدام حسین کا ہوا نظر آئے گا۔ سب سے پہلے صدام کے ارد گرد بیٹھے امریکی مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ عراقی تیل کو پیٹرو ڈالر کی بجائے یورپی کرنسی میں بیچا جائے۔ صدام نے جونہی رضامندی ظاہر کی تو امریکہ کو یکا یک یہ الہام ہو گیا کہ عراق کے پا س وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے(ایم ڈی ڈبلیو) کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ امریکہ نے تباہی و بربادی پھیلاتے ہوئے عراق پر قبضہ کر لیا اور صدام کو پھانسی چڑھا دیا۔ آج ایک بار پھر عراقی تیل کا کاروبار پیٹرو ڈالر میں ہوتے ہوئے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
1972ء میں لیبیا کے کرنل قذافی نے چین سے '' نیو کلیئر ڈیل‘‘ کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کر دیں ــ لیکن اسے کامیابی نہ مل سکی چین سے مایوس ہونے کے بعدکرنل قذافی آخری کوشش کرتے ہوئے تھائی لینڈ سے اعصاب شکن گیس حاصل کر نے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے لیکن امریکہ اور برطانیہ قذافی سے کبھی'' لاکر بی‘‘ اور کبھی کسی اور شکل میں اپنی قیمت وصول کرنے تک ہی رہے لیکن جونہی کرنل قذافی نے تیل کی خریداری کو پیٹرو ڈالر سے علیحدہ کرنے کی کوشش شروع کی، قذافی اور لیبیا دونوں عبرت کا نشان بنا دیئے گئے۔
آئی ایم ایف کے سربراہ سٹراس کاہن کا قصور اس کے سوا اور کچھ نہیںتھا کہ اس نے ایک اجلاس میں تجویز دی کہ امریکی ڈالر کے بجائے یورو،آئل ریزرو کرنسی کے طور پر، زیا دہ فائدہ مند رہے گا۔ کچھ عرصے بعد ایک ہوٹل میں جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا اس پر ایک خاتون سے دست درازی کا الزام لگا کر اسے جیل میں بند کر ا کر بے چارے کی اس قدر کردار کشی کی گئی کہ اسے منہ چھپانا مشکل ہو گیا۔ پھر جلد ہی سٹراس کی جگہ کرسٹائین لی گارڈے کو آئی ایم ایف کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔یوں ہی سٹراس کی تیل کو یورو کے ساتھ منسلک کرنے کی تجویز بھی اپنی موت آپ مر گئی۔ امریکہ1979ء سے ہی ایران کی انقلابی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش میں تھا، کبھی کم کبھی زیا دہ اور کبھی علانیہ کبھی خفیہ لیکن تیس
سال تک ایران کی قیادت امریکہ کی پہنچ سے دور رہی۔ اب کچھ سالوں سے نئی قیادت نزدیک آئی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو سزا دینے کیلئے اس قدر سرگرم کیوں تھے؟۔ اس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ ایران کی حکومت نے بھی وہی فیصلہ کیا تھا جو قذافی، کیہان اور صدام حسین نے کیا تھا۔2005ء میں ایران نے ایرانی آئل ایکسچینج قائم کرنے کا اشارہ بھی دیا تھا جس کا واضح مقصد امریکی پیٹرو ڈالر سے علیحدگی تھی لیکن ایرانی حکومت اس خوف سے اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ نہ پہنا سکی کہ اسے ڈر تھا کہ برطانیہ اور یورپ میں ایرانی حکومت کے بینک اکائونٹس منجمد کر دیئے جائیں گے لیکن اس کے باوجود وہ منجمد کر دیئے گئے۔ ایران نے اس فیصلے کو رد نہیں کیا بلکہ بھارت جو ایران سے اپنے کل تیل کا12% حاصل کرتا ہے ایرانی حکومت کی خواہش پر تیل کی قیمت کے بدلے سونا دینے کو تیار ہو گیاتھا۔ امریکہ ایران کی اس حرکت پر بھی سخت سیخ پا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تجارت میں ڈالر پر روبل اور ریال کو ترجیح دے رہا ہے،اس طرح ایران غیر محسوس طریقے سے پیٹرو ڈالر کی کمر توڑنے کی کوشش کرر ہا ہے۔ امریکہ خوف زدہ تھا کہ اگر ایران نے چین، بھارت، جنوبی کوریا اور روس کے ساتھ تیل کی تجارت پیٹروالر کی بجائے روبل ،ریال اور سونے کی صورت میں کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو پھر دنیا میں تیل پیدا کرنے والے دوسرے ممالک بھی ایک ایک کر کے اپنی تیل کی تجارت ڈالر اور پیٹرو ڈالر کی بجائے یورو یا کسی اور کرنسی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔!!