"MABC" (space) message & send to 7575

بھروسہ

لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم کے بالمقابل آرمی ریکروٹنگ اینڈ سلیکشن سنٹر کی جگہ‘ جسے شاید اب والٹن کے قریب شفٹ کیا جا چکا ہے‘ ایک حاضر سروس اور ایک ریٹائرڈ جنرل کو الاٹ کئے جانے کی خبریں کافی عرصے سے سنی جا رہی تھیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جیسے ہی اس انتہائی قیمتی پلاٹ کے بارے میں خبر ملی تو انہوں نے یہ الاٹمنٹ فوری طور پر منسوخ کر دی۔ وہ ایسا جنرل ہے جو اپنے استحقاق اور قاعدے کے مطابق ملنے والا پلاٹ پاک فوج کے شہدا کے نام وقف کر چکا ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کی طرح اپنی جائداد ملک و قوم کے نام پر وقف کرنے والے اس منفرد جنرل سے یہی امید کی جا سکتی تھی۔ 
جنرل راحیل شریف اپنے ماتحت اداروں کی کسی زیادتی کو برداشت نہیں کرتے، اس لئے ڈی ایچ اے سٹی کے معاملے میں لٹنے والے میرے جیسے کئی لوگ ان کی جانب بیتابی سے دیکھ رہے ہیں۔ جون 2010ء میں ملک کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ٹھوکر نیاز بیگ لاہور سے کوئی پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر، ملتان روڈ کے ساتھ، ڈی ایچ اے سٹی کے نام سے دو ماہ تک دن رات اشتہارات دیکھ کر اپنا گھر بنانے کی امید رکھنے والوں کی اشتہا دوچند ہو رہی تھی۔ کسی بھی رہائشی سکیم کے ساتھ اگر ڈیفنس کا لفظ ہو تو اعتماد اور بھروسے کا تصور خود بخود ذہن میں آ جاتا ہے، اس لئے جیسے ہی میرے سمیت ہزاروں لوگوں نے یہ اشتہارات دیکھے تو یہ سوچا کہ جی ایچ کیو سے منظور شدہ ایک سوسائٹی میں سر چھپانے کے لئے اپنا گھر بنانے کا موقع مل رہا 
ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بہت سے لوگوں نے سوچا اس اشتہار کے ساتھ ڈی ایچ اے سٹی کا لفظ آ رہا ہے اس لئے پہلے اس کی تصدیق کروا لی جائے تاکہ بعد میں سر نہ پیٹنا پڑے۔ اپنے شکوک دور کرنے کے لئے فوج کے متعلقہ ادارے سے معلومات حاصل کیں تو یہ جان کر دل کو تسلی ہوئی کہ ہمیشہ کی طرح اس ڈیفنس ہائوسنگ کی فائنل منظوری بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے دی ہے، اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں؛ چنانچہ راقم الحروف نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنے گھر کے افراد کے ناموں پر پلاٹ کے لئے درخواستیں اور رقم جمع کرا دیں۔ بتایا گیا تھا کہ اگلے سال یعنی جولائی 2011ء میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کر دی جائے گی، لیکن ہم نے چونکہ سب سے پہلے درخواستیں دی تھیں اس لئے ہمیں ایک سال بعد ہی کنفرم پلاٹس کی خوشخبری دے دی گئی۔ ایک سال گزرا پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا حتیٰ کہ پانچ سال گزر گئے لیکن کہیں پلاٹ تھے نہ ہی کوئی سائٹ۔ میرے جیسے نہ جانے کتنے لوگوں نے 17 ارب روپے جمع کرائے تھے۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ ای ایم ای کے نزدیک ڈی ایچ اے سٹی کا جہازی سائز کا ایک بورڈ لگا ہوا تھا، وہ راتوں رات غائب ہو گیا۔ ہمارے جیسے سیکڑوں لوگ فیملیوں کے ہمراہ اپنی ڈوبی ہوئی لاکھوں روپے کی رقم کی بربادی کا نظارہ کرنے کے لئے اس بورڈ کے قریب آیا کرتے تھے، اب وہ بھی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ متعلقہ دفتر میں موجود کسی شخص سے جب پوچھتے کہ بھائی وہ جگہ ہی دکھا دو جو تم لوگوں نے ایکوائر کی ہے تو یہ کہہ کر تسلی دی جاتی کہ اگر جگہ بتا دی تو ساتھ کی زمینوں والے اپنے نرخ بڑھا دیں گے۔ یہ ایک ایسی منطق تھی جس نے فریب کی چادر کو مزید گہرا کر دیا اور میڈیا پر شور مچ گیا کہ اس فراڈ میں کچھ طاقتور اور نامور لوگ شامل ہیں۔ جب ان ناموں میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے رشتہ داروں اور سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے بھائیوں کے نام سامنے آئے تو سب کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا کہ ان کو سوائے خدا کے اور کون پوچھ سکتا ہے؟ صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ ہمارے بچوں نے یہ کہہ کر تسلیاں دینا شروع کر دیں کہ ہماری برسوں کی محنت سے کمائی 
ہوئی رقم ضائع نہیں جائے گی، کبھی نہ کبھی کوئی مسیحا آئے گا اور ہم سب کے ساتھ انصاف کرے گا۔۔۔۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ بچے شاید ہمارے بڑھاپے کی وجہ سے پریشان تھے کہ کہیں یہ نقصان ان کے دل کا روگ نہ بن جائے‘ لیکن لاکھوں روپے ڈوبتے دیکھ کر میں اپنے آپ سے شکوہ ضرور کرتا کہ بچوں اور اپنی محنت سے جمع کی ہوئی رقم اس اعتماد اور بھروسے کی نذر ہو گئی جو پندرہ برسوں سے میری تحریروں میں عیاں تھی۔ اس زیا دتی کا کس سے گلہ کروں؟ ڈیفنس کے نام سے وابستہ میرا برسوں کا اعتماد مجھے لے ڈوبا۔ ڈی ایچ اے سٹی کے نام سے اس ملک کے ہزاروں لوگوں کے جڑے ہوئے اعتماد اور بھروسے کو قتل کرنے والے کچھ لوگ موجودہ آرمی چیف کی مداخلت سے گرفتار تو ہو چکے ہیں جو نیب کی تحویل میں ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ احتساب کی 'واشنگ مشین‘ سے کیا نکلتا ہے؟
اعتماد اور بھروسہ کیا ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں ایک چھوٹی سی کہانی سن لیجیے: کہتے ہیں، تین دوست عرصے سے ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ ایک دن انہیں وہ جگہ چھوڑنا پڑ گئی تو ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے تینوں دوسست ماضی کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ آخر وہ گھڑی آ گئی جب تینوں کو ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے راستوں کی طرف بڑھنا تھا۔ تینوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا کہ اب ہم کہاں اور کس جگہ ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں؟ پہلا دوست جس کا نام ''علم‘‘ تھا اس نے کہا: گھبرائو نہیں، جب بھی تمہیں میری یاد آئے، مجھے ملنے کے لئے کسی یونیورسٹی،کالج، لائبریری، بک شاپ، مدرسے، عالم فاضل پروفیسر اور ادیب کے پاس چلے جانا، میں تمہیں آسانی سے وہاں مل جائوں گا۔ دوسرا دوست جس کا نام ''دولت‘‘ تھا، اس سے پوچھا کہ اگر تم سے ملنا ہوا تو کہاں مل سکیں گے تو وہ بولا: مجھے ملنے کے لئے کسی بڑے محل، کاروباری ادارے، کارخانے، کسی بڑے شوروم یا بڑی بڑی مارکیٹوں اور دکانوں، بنگلوں، کسی جاگیردار، زمیندار یا رشوت خور سرکاری افسر اور سیاستدان کے گھر آ جانا، میرا انہی جگہوں پر ٹھکانہ ہو گا۔ علم اور دولت کے نام والے دوست اپنی اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے تو ایک لمحے کے لئے رکے اور اپنے تیسرے دوست سے کہنے لگے ہم تو بتا چکے ہیں کہ تمہیں کہاں کہاں مل سکیںگے لیکن جب تمہیں ملنا ہو تو تمہیں کہاں ڈھونڈا جا سکتا ہے؟ تیسرا دوست ان کی باتیں سن کر رو پڑا۔ اسے روتا دیکھ کر دونوں دوست افسردہ سے ہو گئے اور رندھی ہوئی آواز میں پوچھا دوست غمگین کیوں ہو گئے ہو، ہمیں بتائو کہ تم سے کہاں ملاقات ہو سکے گی، ہم وہاں آ جائیں گے۔ تیسرا دوست جس کا نام ''بھروسہ‘‘ تھا آنسو پونچھتے ہوئے طویل ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا، دوستو اگر کسی کا مجھ پر کیا گیا بھروسہ ایک بار اٹھ جائے تو دوبارہ لاکھ اس کے دروازے پر ٹکریں مارتا رہوں کوئی مجھے قریب نہیں آنے دیتا۔ میری بدقسمتی یہ ہے کہ میں ایک دفعہ اگر کہیں سے چلا جاتا ہوں تو پھر مشکل سے ہی کوئی ٹھکانہ ملتا ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں