"MABC" (space) message & send to 7575

کیا جنرل حامد کا استعفیٰ طے شدہ تھا؟

جاوید ہاشمی کی طرح کیا خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کے ڈی جی جنرل حامد علی خان کا استعفیٰ بھی طے شدہ ہے؟ پی آئی اے کے ہڑتالیوں کو چوروں جیسی سزا ہوتے سب دیکھ چکے ہیں۔ حکمرانوں نے نیب کے پر کاٹنے یا بڑھے ہوئے ناخن تراشنے کا ارادہ کیا ہوگا تو ان کے سامنے عمران خان کی شخصیت بار بار ابھر کے آتی ہو گی کہ اس کا سب سے پہلے علاج کیا جائے، کیونکہ اس کی طرف سے نیب کے بال و پر کے ساتھ ساتھ انگلیوں سمیت ناخن کاٹنے کی راہ میں وہی دیوار بن کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے مانسہرہ سے ایک ریٹائرڈ جنرل کا سہارا لیا گیا اور بات جنرل حامد تک پہنچائی گئی۔ معاملہ کیسے طے ہوا؟ یہ بھید وقت گزرنے کے ساتھ ضرور سامنے آئے گا۔ جاوید ہاشمی کی طرح جنرل حامد کو بھی میڈیا کی ہر میز کا مہمان بنایا گیا اوروہ پینترے بدل بدل کر عمران خان پر برستے نظر آئے۔ یہ سب اس لئے کیا گیا کہ جیسے ہی چیئرمین نیب اور ان کے محکمے کے بال و پر اور ناخن کاٹے جائیں گے، ہر جانب شور اٹھے گا اور جو سب سے زیا دہ میدان عمل میں آ کر مشکلات کا سبب بنے گا، اس کے توڑ کے لئے جنرل حامد کا استعفیٰ سامنے کر دیا جائے گا۔ بغور جائزہ لیا جائے تو نیب کے چیئرمین قمر الزمان چوہدری اپنے صاحب کی آنکھوں میں تین ماہ سے زیادہ عرصہ پہلے اس وقت کھٹکنا شروع ہو گئے تھے جب ان کی ایک اہم ترین عسکری شخصیت سے ملاقات ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیںیقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر فوج کے کسی بھی 
رتبے کے افسر کے خلاف بددیانتی کی شکایات ان کے محکمے کے پاس ہیں تو کسی کا لحاظ کئے بغیر اس کے خلاف کھل کر کارروائی کی جائے، اس سلسلے میں انہیں آرمی کی جانب سے مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ شنید تو یہ ہے کہ وہ کسی اورکے اشارے پر جنرل راحیل شریف سے ملنے گئے تھے تاکہ انہیں یہ بتا کر دبائو میں لایا جا سکے کہ ان فائلوں میں فلاں فلاں جنرل کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں، لیکن شاید ریٹائرڈ میجر(قمرالزمان چوہدری) نہیں جانتے تھے کہ ان کا واسطہ اس جنرل سے ہے جس کے خاندان کا خون پاکستان کی فصلوں کو شاداب کرنے کے کام آیا۔ ایک نہیں بلکہ دو نشان حیدر ان کے خاندان کے سینے پر سجے ہوئے ہیں۔ جس جنرل کی رگ رگ میں شہیدوں کا خون دوڑ رہا ہو اس کے لئے پاکستان سے زیادہ کوئی اور عزیز نہیں ہو سکتا۔ 
چیئر مین نیب جب وہاں سے اٹھے تو ایسا لگا کہ وہ کسی ایسے محاذ کی طرف جا رہے ہیں جہاں انہیں پاکستان کے دشمنوں کا صفایا کرنا ہے۔ نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو( نیب) کے با خبر ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے خلاف درج ہونے والے پندرہ سال پرانے ریفرنسزکا فیصلہ نیب نے31 مارچ 2016ء سے پہلے پہلے ہر صورت میں کرنا 
ہے۔ اس سے پہلے اس کی حتمی تاریخ 31 دسمبر 2015 ء مقرر کی گئی تھی لیکن بوجوہ فیصلہ نہ کیا جا سکا۔ اب نیب نے یہ اصول متعین کر رکھا ہے کہ اختیارات سے تجاوز یا قومی خزانے کے ساتھ کی جانے والی بددیانتی کے الزامات میں درج کئے گئے تمام پرانے کیسوں کی مکمل چھان بین کرتے ہوئے ملوث لوگوں کے خلاف ریفرنس دائر کئے جائیں گے یا انہیں مکمل طور پر بے گناہ قرار دیا جائے گا۔ اسی اصول کے تحت ہی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نیب میں زیر التوا انکوائریوں کا فیصلہ ہونا ہے اور یہ صرف ان تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ تمام میگا کرپشن کیسز جو سیا ستدانوں، بیوروکریٹس، صنعت کاروں اور تاجروں کے علا وہ دوسرے کسی بھی شہری کے خلاف درج ہیں، انہیں کھول کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے گا اور اس ضمن میں نرم رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔
اگر آپ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خلاف زیر التوا مقدمات کا جائزہ لیں تو ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن کے بارے میں پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے بار بار مقرر کئے جانے والے سربراہ اور ان کے قریبی دوست، غیرسرکاری سیا سی مشیر نجم سیٹھی کے ہفت روزہ انگریزی جریدے کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ 125 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی جس سڑک کے ریفرنس کا انہیں سامنا ہے اس پر سب سے زیا دہ شواہد نجم سیٹھی کے اس جریدے نے ہی پیش کئے تھے۔ اگر آپ 1990ء سے1999ء تک کے ان کے اس انگریزی ہفت روزہ میں شائع ہونے والے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بارے میں لکھے جانے والے مضامین پڑھیں تو پھر نیب کو یا ایف آئی اے کو کسی اور مواد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
میاں محمد نواز شریف کے خلاف نیب کے پاس دوسرا ریفرنس 1999ء میں دائر کیا گیا جس میں ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیاں کیں۔ اس ریفرنس کے لئے بھی 31 مارچ 2016ء کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال پر قید کی سزا دی گئی تھی جس کی مدت انہوں نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پوری کی۔ میاں برادران کے خلاف درج کئے گئے یہ تینوں مقدمات ان مقدمات کی ذیل میں آتے ہیں جنہیں میگا کرپشن قرار دیا جاتا ہے اور جو سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے اور جن کے بارے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ سالوں سے ملتوی ان مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔ یہ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان میگا کرپشن کے ریفرنسز میں سے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کے سمدھی جناب اسحاق ڈار کے خلاف بھی ہے۔ جناب اسحاق ڈار کے اس ریفرنس کا فیصلہ 15 دسمبر2015ء تک کیا جانا لازمی تھا لیکن بعد میں اس کی حتمی مدت 29 فروری 2016ء تک بڑھا دی گئی۔ ان کے خلاف یہ ریفرنس 2000 ء میں پیش کیا گیا تھا۔ 
کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی حکومت کے بھنور اورچوہدری قمر الزمان کا چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ اپنے دوسرے دور حکومت میں بھی وہ چوہدری قمر الزمان سے اس لئے ناراض تھے کہ ان کا جنرل ضیاء الحق اور ان کے صاحبزادے اعجازالحق سے قریبی تعلقات تھے، اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو 1999ء میں بحیثیت وزیر اعظم اپنے حافظ آباد کے دورے کے دوران میاں نواز شریف نے اپنی نا راضگی کا اظہار اس طرح کیا کہ انہیں سٹیج پر بٹھانے سے روک دیا۔ چوہدری قمر الزمان کے ساتھ اس ہتک آمیز سلوک کے چند ماہ بعد میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔ مشتری ہوشیار باش! 21 فروری کو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور میاں شہباز شریف کے درمیان رائے ونڈ میں ہونے والی طویل ملاقات میں نیب کے ناخن انگلیوں سمیت کاٹنے کی تیاریاں مکمل ہو گئی ہیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں