''ٹوٹ گئے ہاتھ ابو لہب کے اور نا مراد ہو گیا وہ۔ اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی بھی لگائی بجھائی کرنے والی، اس کی گردن میںمُنج کی رسی ہو گی‘‘ قران پاک میں ارشاد ہے'' ابو لہب دوزخ میں پھینکا جائے گا ‘‘ ابو لہب جو محمد مصطفیٰﷺ کا چچا تھا اور اس کی بیوی ام جمیل‘ جو ابو سفیان کی بہن تھی، نبی کریمﷺ کی دشمنی میں اپنے شوہر سے بھی دو قدم آگے رہتی تھی۔ ابولہب کو اسلام سے اس قدر دشمنی تھی کہ وہ ہر وقت آنحضرتﷺ کا پیچھا کرتا رہتا تھا اگرآپ ﷺکسی اجنبی سے بھی بات کرتے نظر آ جاتے تو مشتعل ہو جاتا۔ جب آپﷺ باہر نکلتے تو مکہ کے بچوں اور لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیتا کہ ان کا مذاق اڑائو اور آوازے کستے ہوئے تنگ کرو۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ تنگ آ کر یا غصے میں اگر آپﷺ ان بچوں کو مارنا یا ان سے جھگڑنا شروع کر یں تو آپ کو مجنون (نعوذباﷲ) مشہور کر دیا جائے لیکن آپ خاموش رہتے ۔
حضرت علیؓ جو اس وقت بچے تھے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی غلیل کے ذریعے تاک تاک کر نشانہ بناتے ہوئے ان شرارتی اور جھگڑالو بچوں کا مقابلہ کرتے اور انہیں بھگا دیتے ۔کیا اس سے صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ بچوں میں حضرت علیؓ کو ایمان کی دولت سے سب سے پہلے سرفراز کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ کفار مکہ کی اس شیطنت کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کی عمر کے ہی کسی بچے کو آگے لایا جائے، سبحان اﷲ! سورہ لہب کے ان الفاظ کا واضح مطلب تھا کہ ابو لہب اﷲ اور اس کے رسول محمد مصطفیٰﷺ پر کبھی بھی ایمان نہیں لائے گا اور وہ مرتے دم تک کافر ہی رہے گا۔یہ سورۂ مبارکہ ابو لہب کی موت سے دس سال قبل نازل ہوئی۔ تب چاروں جانب لوگ نسلوں سے بت پرستی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے اور انہی بتوں کی سرپرستی کے باعث معاشرے میں ان کے مقام اور معیار بنے ہوئے تھے اور یہود و نصاریٰ سے لے کر کفر کے مینار اپنی سرداریاں جاتی دیکھ کر محمد مصطفیٰﷺکی نبوت اور قرآن کے سب سے بڑے دشمن بن چکے تھے ۔ جب بھی کوئی نئی آیت یا سورت نازل ہوتی‘ ایک ہی رٹ لگاتے قرآن(مجید) کوئی الہامی کتاب نہیں اور نہ ہی اسے اللہ نے نازل کیا ہے بلکہ یہ تو ایک انسان کے گھڑی ہوئی شاعری ہے (نعوذباﷲ)۔
اب میں مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے بنی نوع انسان سے مخاطب ہوں چاہے وہ عیسائی ‘ یہودی، بدھ مت ‘ ہندو، دہریے یا پارسی ہوں۔ ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگوں میں سائنسدان بھی ہیں اور مفکر بھی ۔ان میں چوٹی کے حساب دان ‘ فزکس‘ کیمسٹری ، معاشیات اور سیا سیات کے ماہرین بھی۔۔ابو لہب کی موت سے دس سال قبل نازل ہونے والی سورۂ مبارکہ کے بعد کسی دن مکہ میں ایک بہت بڑا مجمع لگا کر ابو لہب اگر یہ اعلان کر دیتا کہ وہ آج سے ایک اﷲ اس کے قران اور بھیجے ہوئی آخری نبی محمدﷺ پر ایمان لاتا ہے تو قران پاک کی عظمت، سچائی اور رہتی دنیا تک اس کے ایک ایک لفظ کی حرمت کہاں جاتی؟۔کیا اس کے بعد کوئی یقین کرتا کہ قران اﷲ کی کتاب ہے؟۔کیا کوئی نازل ہونے والی آیات مبا رکہ کی مکمل سچائی پر یقین کرتا؟۔ کیا اسلام مکہ اور مدینہ میں اس تیزی سے پھیلتا۔۔۔جہاں منافقین کی بھر مار تھی، ان کیلئے قران اور اسلام کا مقابلہ کرنے کیلئے اس سے بڑا ہتھیار اور کیا ہو سکتا تھا؟۔ دس سال تک کفار مکہ سمیت اسلام کے بڑے بڑے دشمنوں اور یہودیوں کے پاس کیا یہ سب سے بہترین موقعہ نہ تھا کہ وہ ابو لہب کے ایمان لے آنے پر نبوت اور الہامی کتاب کے خلاف ہر جانب ایک طوفان بد تمیزی مچا دیتے ؟۔
لیکن ایسا اس لئے نہ ہو سکا کہ یہ کسی انسان کی گھڑی ہوئی سورہ نہیں تھی یہ انسانی شاعری نہیں تھی بلکہ یہ اﷲ کاکلام تھا یہ اللہ کا فرمان تھا۔ اس اللہ تبارک و تعالیٰ کا‘ جس کا علم کائنات کی ہر چھوٹی
بڑی چیز کو محیط ہے۔جسے زمین اور پہاڑوں کے اندر چھپے ہوئے ایک ایک راز کا علم ہے جو قران پاک میں صاف صاف فرماتا ہے کہ اﷲ تو وہ ہے جو تمہارے دلوں میں سوچی جانے والی باتوں سے بھی ہر وقت با خبر رہتا ہے۔ جب وہ یہ آیات مبا رکہ اپنے نبی محمد مصطفیٰﷺ پر نازل فرما رہا تھا تو یہ اُس کے علم میں تھا کہ ابو لہب کبھی بھی ایمان نہیں لائے گا۔ قران پاک میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے'' یہودی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں‘‘ یہ الفاظ محض اس وقت کے یہودیوں اور مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھے بلکہ یہ رہتی دنیا تک کیلئے ہیں آج چودہ سو سال بعد بھی قران کی یہ سچائی سب کے سامنے ہے کہ یہودی تمام مسلمانوں کا بد ترین دشمن ہے۔ اب ذرا غور فرمائیں کیا یہودیوں کے پاس اس بات کا بہترین موقع نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا دوست بنا کر قرا ن پاک کی اس آیت مبا رکہ کو(نعوذباللہ) جھٹلا دیتے؟۔لیکن دیکھ لیجئے چودہ سو سال تک ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کبھی ہو گا کیونکہ یہ الفاظ کسی انسان کے نہیں بلکہ اس خدا کے ہیں جو خالقِ کائنات ہے جو دلوں کے بھید سب سے زیا دہ جانتا ہے۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ساری دنیا کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے قران پاک میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں'' لوگ قران پر غور کیوں نہیں کرتے‘‘ عیسائیت کے بہت بڑے مبلغ اور ریاضی دان ڈاکٹرجیری ملر‘ قران پاک پر تحقیق کرتے ہوئے مسلمان ہی ہو گئے۔ وہ ہر ریاضی دان کی طرح ہر شے کو دلائل سے پرکھنے کے قائل تھے ان کا خیال تھا کہ قران تو آج سے چودہ سو سال پرانی کتاب ہے لیکن جیسے ہی اس نے قران پاک کے ایک ایک لفظ کو پڑھنا اور اسے فارمولے کی طرح ایک حساب دان کی طرح تول تول کر حل کرنا شروع کیا تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ اﷲ اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ ﷺپر ایمان لے آیا۔
دنیا کے ہر مذہب اور نظریئے کے پیروکارکو قرآن پاک میں چیلنج دیا گیا ہے۔'' لوگو تم قران پر غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔ ''(قران پاک کو نہ ماننے والے) کفار کیا دیکھتے نہیں کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔(جیسے یہ ایک ہی ہوں)پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک دھماکے (بگ بینک) سے پھاڑ کر جدا کر دیا۔ پھر ہر جاندار کے لیے پانی کو سرچشمہ ٔ حیات بنایا‘‘قران پاک میں اﷲ نے کھول کر بتا دیا ہے کہ کائنات، زمین آسمان اور سیارے کس طرح وجود میں لائے گئے؟۔ اور Great Explosionکی اسی سائنسی تھیوری کو 1973ء میں نوبل انعام کا حق دار بھی قرار دیا گیا ہے۔!!حالانکہ قرآن مجید چودہ سو سال پہلے یہ حقائق منکشف کر چکا تھا۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ