"MABC" (space) message & send to 7575

درد کے ہتھیار

میڈیا کے ایک مخصوص حصے اور انسانی حقوق کے نام پر سیاسی کھیل کھیلنے والی تنظیموں نے منان بلوچ اور اس کے چار ساتھیوں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں ہلاکت پر ہم آواز ہو کر الزام تراشی شروع کر دی‘ اور وطن عزیز کو بدنام کرنے لگے کہ اس بے گناہ کو پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں نے قتل کر دیا۔ ان نام نہاد تنظیموں اور لبرل نقاب چڑھائے میڈیا کو نیو یارک ٹائمز کی وہ رپورٹ نہ جانے کیوں بھول چکی ہے‘ جس میں اس بدنام علیحدگی پسند کمانڈر منان بلوچ کی جانب سے مہاجرین کی بحالی کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اہل کار جان سولسکی کی رہائی کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو سراہا گیا تھا؟ کیا نیو یارک ٹائمز کی یہ رپورٹ ثابت نہیں کرتی کہ منان بلوچ کا سولسکی کو اغوا کرنے والی تنظیم HIA's کے ساتھ کس قدر قریبی تعلق تھا؟ محکمہ صحت کا ایک عام ملازم کس طرح اتنا اہم ہو گیا کہ وہ جان سولسکی کے اغوا کاروں پر اثر انداز ہوا؟ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں اور ان کی ہمنوائی کرنے والے اپنے ملک کے لبرل میڈیا سے صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ منان بلوچ کے ساتھی‘ جنہیں آپ سیاسی ورکر کا نام دے رہے ہیں‘ کیا نہیں جانتے کہ اس کی در پردہ فنانسنگ ''آپ‘‘ ایکشن ایڈ پاکستان نامی این جی او کرتی رہی؟ کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ میڈیکل جیسے شعبے کا سہارا لیتے ہوئے وہ پاکستان کو عالمی برادری کی نظروں سے گرانے کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کی مخالفت کرتا رہا؟ کیا مستونگ اور خضدار کے لوگ نہیں جانتے کہ وہ ڈاکٹری پیشے سے تعلق کی بنا پر معصوم بلوچوں کو پولیو کے قطروں سے متنفر کرتا رہا؟ کون نہیں جانتا کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی مخبری کرتے ہوئے ان کو قتل کراتا رہا؟ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کے اگلے روز جیسے ہی بھارتی حکومت کا میڈیا پر دیا جانے والا ''فرمان‘‘ سامنے آیا تو بلوچستان میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر دہشت گردوں کے حملوں میں یک دم تیزی آ گئی۔ ایسا لگنے لگا کہ ان دہشت گردوں کو کسی نے چابی بھر دی ہے۔ بلوچستان کے اندر ہر جانب قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ صبح سے شام تک کوئٹہ سمیت مستونگ اور تربت کے ارد گرد بم دھماکوں سے محنت مزدوری کے لیے آئے غریب مزدوروں اور بلوچستان بھر میں امن و امان کی بحالی کے لیے تعینات سکیورٹی فورسز پر حملوں کی انتہا کر دی گئی۔ بھارتی وزیر دفاع کی دھمکی کے اگلے ہی دن پولیس اور ایف سی کے جوانوں اور افسروں کی لاشیں بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ان دہشت گردوں کی جانب سے بارش کی طرح گرائی جانے لگیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے مزدوری کے لیے آئے ایک دو نہیں بلکہ اب تک سینکڑوں محنت کش ان دہشت گردوں کے ظلم و بربریت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر کی کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے اس بہیمانہ قتل و غارت کی مذمت میں ایک لفظ تک سننے میں نہیں آیا۔ 30 جنوری کی شام جیسے ہی پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے مستونگ میں ایک خفیہ پناہ گاہ میں چھپے منان بلوچ اور اس کے چار ساتھیوں کو 
ان کے انجام تک پہنچایا تو انسانی حقوق کے نام پر کھمبیوں کی طرح بکھری تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کہ ایک سیاسی ورکر کو ختم کر دیا گیا۔
افغانستان میں بے شمار بھارتی قونصل خانوں میں منان بلوچ کو پاکستانیوں کی گردنیں کاٹنے والے گلوٹین کے نام سے جانا جاتا تھا۔ منان بلوچ ایک دہشت گرد ہی نہیں بلکہ بھارت کے ان قونصل خانوں کے ہاتھوں میں پکڑا ایسا ہتھیار تھا‘ جس سے وہ اپنے مخالفین کو اذیت ناک درد دینے کا کام لیتا تھا۔ منان بلوچ‘ جو بطور ڈاکٹر بلوچستان کے محکمہ صحت میں ملازمت کر رہا تھا‘ دہشت گردوں کے لیے بہترین پناہ گاہ تھا۔ خضدار اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں سکیورٹی فورسز سے مقابلوں میں زخمی ہونے والے علیحدگی پسندوں کو اس کی وساطت سے پناہ گاہ اور علاج کی سہولیات مہیا ہوتی رہیں۔ محکمہ صحت سے تعلق رکھنے کی بنا پر وہاں آنے جانے والے مردوں و خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں دہشت گردی کے لیے تیار کرنے لگا۔ وہ بلوچ نوجوانوں کو سنہرے خواب دکھا کر دہشت گردی کی تربیت کے لیے سرحد پار بھیجنے لگا۔ طبی سہولیات کی فراہمی کی آڑ میں چونکہ اس کا معاشرے کے ہر طبقے سے رابطہ رہتا تھا اس لئے ایک سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خضدار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پاکستان کے خلاف احتجاج اور آواز بلند کرنے کے نام پر شٹر ڈائون ہڑتالیں کرانے میں بھی پیش پیش رہا۔ منان بلوچ سب سے پہلے بلوچستان نیشنل موومنٹ کے نام سے بلوچ نیشنلسٹ کے طور پر آگے آیا۔ بعد میں اسے سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد منان بلوچ کو بلوچ لبریشن فورس کا ڈپٹی کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔ جیسے ہی چین پاکستان اکنامک راہداری کا منصوبہ سامنے آیا تو ایک طرف جہاں یہ خبریں سامنے آنے لگیں کہ بھارت نے ایک ارب ڈالر کی بھاری رقم سے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی تیاریاں مکمل کرتے ہوئے اپنے حاضر سروس اور سابق فوجی اور انٹیلی جنس افسران پر مشتمل ایک علیحدہ خفیہ سیل تشکیل دے دیا ہے‘ تو ساتھ ہی بلوچستان میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے ان کی نگاہ انتخاب منان بلوچ پر پڑی اور یہ مشن اس کے حوالے کرتے ہوئے اُسے بلوچستان واپس بھیج دیا گیا کیونکہ ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے اس کے خضدار، مستونگ سمیت دوسرے علاقوں میں محفوظ ٹھکانے اور تعلقات موجود ہیں جو ابھی تک پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔
منان بلوچ اور اس کے گروپ نے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں کے کم پڑھے لکھے جوانوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش کرنا شروع کر دی کہ راہداری کا منصوبہ اصل میں بلوچستان کے وسائل اور دولت سمیٹنے کے لیے چین اور پنجاب کی فوج کا اکٹھ ہے۔ اس طرح نوجوانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کی طرح رٹائی گئی پرانی کہانیاں ٹھونسنا شروع کر دیں کہ یہ لوگ ہماری دولت لوٹ لوٹ کر یہاں سے لے جائیں گے۔ 
انسانی حقوق کے نام پر شور مچانے والی تنظیموں اور ہمارے لبرل اور سیکولر میڈیا کی نظروں سے منان بلوچ کی وہ تصویریں اور ویڈیو فلمیں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار گزری ہوں گی‘ جن میں وہ گوریلاجنگجوئوں والی وردی پہنے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ انسانی حقوق کے یہ سب نام نہاد علمبردار اس کے وہ فخریہ اعترافات کس تنظیم کے کھاتے میں ڈالیں گے‘ جن میں اس نے بلوچستان کے شہریوں اور سکیورٹی فورسز سمیت پولیس کے اہل کاروں کے اجتماعی قتل عام کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں... منان بلوچ اور ان کے ساتھی سیاسی ورکر نہیں بھارت کے تراشے ہوئے '' درد کے وہ ہتھیار ہیں‘‘ جن سے پاکستان کو گہرے زخم لگانے کا کام لیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں