2 مارچ کو کوئٹہ ، چاغی، تربت، نصیر آباد، جعفر آباد، گوادر، مستونگ اور نوشکی سمیت بلوچستان بھر میں اور ایران، افغانستان، دُبئی، مسقط، بحرین اور سعودی عرب میں بھی''بلوچ کلچر ڈے‘‘ پورے جوش و خروش اور بھر پور طریقے سے منا یا گیا جہاں جہاں بھی تقریبات ہوئیں۔روائتی بلوچی لبا س اور پگڑیاں پہنے بلوچ نوجوان اور ہر عمر کے بوڑھے اس میں شریک رہے ۔ بلوچ کلچر ڈے کا آغاز2011ء میں ہوا۔یہ دن اب بلوچ قوم اور ان کے بچے بچیوں کیلئے روایت اور سالانہ میلہ بن گیا ہے۔
اس موقع کی منا سبت سے خصوصی طور پر مجھے دُبئی ائر پورٹ پر لینے کیلئے آئے قادر بخش نے سلام دعا کے بعد ٹیکسی چلاتے ہوئے بتایا ''مجھے یہاں آئے پانچ سال ہو رہے ہیں جس قدر خود کو اس وقت میں آزاد اور خود مختار سمجھ رہا ہوں اس کے بارے میں آج سے پانچ سال قبل تک سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج میری اپنی نیندہے اور میری اپنی ہی محنت سے کمائی جانے والی روزی ہے جس پر صرف میرا اور میرے اپنے خاندان کا حق ہے‘ اسے میں جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہوں۔ اپنے اور بچوں کیلئے جس قسم کے چاہوں لباس خرید کر پہن سکتا ہوں۔ کوئی مجھ سے ان کپڑوں کے بارے میں پوچھ نہیں سکے گا۔ کوئی میرے صاف ا ور دھلے ہوئے لباس کو دیکھ کر مجھے ایک ہفتے کیلئے اپنی نجی جیل میں بند نہیں کر سکتا کیو نکہ آج میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ دوزخ سے جنت میں آ گیا ہوں۔ یقین جانئے اگر آج ہمارے والدین اور آبائو اجداد کسی طور زندہ ہو کر آ جائیں ‘ ہمیں اور ہمارے بچوں کو اس طرح کی زندگی گزارتا ہوا دیکھ لیں تو وہ اس کایا پلٹ کا یقین ہی نہیں کریں گے اور جب وہ اپنے پوتے پوتیوں کو صبح گلے میں بستے ڈالے ہوئے صاف ستھری یونیفارم میں سکول جاتے ہوئے دیکھ لیں گے تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ۔
سال میں ایک یا دو دفعہ جب دبئی سے میں بلوچستان جاتا ہوں تو لوگ مجھے اور میرے بچوں کے لباس اور طور اطوار کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ یقین جانئے عورتیں میری گھر والی کے کپڑوں کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھتی اور سونگھنے لگتی ہیں کیونکہ یہ زیور، لباس اور جوتے تو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوتے ۔جب سے گوادر کا کام شروع ہوا ہے ہمارے اور ساتھ والے قبیلے کے لوگ وہاں نوکریاں کرنے کیلئے چلے گئے ہیں اور میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ جیسے ہی چین کی بنائے جانے والی سڑک( اکنامک راہداری) مکمل ہوئی تو دبئی سے واپس بلوچستان چلا جائوں گا‘‘۔ میں نے جب قادر
بخش سے پوچھا کہ آپ لوگ تو گوادر کے خلاف ہیں اور آپ کے تمام سردار ہمیشہ سے یہی کہتے آ رہے ہیں کہ بلوچوں کے حقوق غصب کئے جا تے ہیں؟۔قادر بخش کہنے لگا'' ہمیں اسی جھوٹ نے کھا لیا ہے جس سے متا ثر ہو کر سرداروں کے کہنے پر ہمارے بڑے بھی آج کے نوجوانوں کی طرح گمراہ ہو کر فوج سے لڑنے کیلئے افغانستان اور وہاں سے ادھر پہاڑوں پر چلے گئے لیکن۔۔۔۔ہمیں لڑانے اور اکسانے والے ان سرداروں اور قوم پرست انقلابیوں کیلئے آزاد بلوچستان کے نام سے سپن بولدک اور تورخم سے ٹرکوں کے ٹرک روپوں اور اسلحوں سے لدے ہوئے ان سرداروں کے پاس آتے رہے اور ہمارے نصیب میں آج کی طرح پتھر کی سخت زمین اور در بدر کے دھکے اور مشکل سے ایک وقت کی روٹی۔ آج کے گمراہ نوجوان بلوچوں کو تو علم ہی نہیں ہے لیکن یہاںدبئی اور بحرین میں بیٹھے ہم بلوچ دیکھ رہے ہیں کہ یہ مری اور بگٹی سردار امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ملکوں میں بیٹھ کر عیش و عشرت کر رہے ہیں۔ ہمارے گمراہ اور خوف سے پابند کئے نوجوان بلوچوں کو دنیا اور آخرت میں مجرم بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب تک فوج اور محنت مزدوری کیلئے بلوچستان آئے ہوئے نہ جانے کتنے پنجابیوں کو ان گمراہ کئے جانے والی کٹھ پتلیوں کے ذریعے تعصب اور دشمنی کی وجہ
سے موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔۔۔دو سال قبل جب میں لاہور گیا تو بلوچستان سے پنجابیوں کی لاشیں آنے کے با وجود کسی نے‘ میرے ساتھ بلوچی ہونے کے ناتے تعصب یا نفرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیں ہر جگہ عزت ملتی رہی تو ہم پنجابی سے یا کسی دوسرے سے نفرت کیوں کریں یہاں ہم سب پاکستانی ایک ساتھ اکٹھے رہتے ہیں کبھی کوئی تعصب کی بات محسوس ہی نہیں کی بلکہ ہمیں ا س وقت خود شرمندگی ہوتی ہے جب کسی پنجابی مزدور کو کوئٹہ یا بلوچستان کے کسی دوسرے علا قے میں قتل کرنے کی خبر آتی ہے۔‘‘
اپنے آگے بیٹھے ہوئے مخصوص بلوچی داڑھی والے ٹیکسی ڈرائیور کی زبان سے سرداری نظام کی یہ'' برکات ‘‘سنتے ہوئے میرا دھیان پاکستان اور اس کی فوج سے قدرتی بیر رکھنے والے ہمارے میڈیا کے بڑے بڑے غیر بلوچی دانشوروں کی باتوں اور کہاوتوں کی جانب جانا لازمی تھا‘ جنہوں نے بلوچ نیشلزم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے بلوچ عوام کی کم اور اپنی ذاتی خواہشات کو شامل کرتے ہوئے ان سرداروں کو پریوں اور طلسماتی کہانیوں کے کردار بنا کر رکھ دیا ہے۔ عجیب قسم کے فتوے اور خواب دکھاتے ہوئے بلوچ لیڈروں اورسرداروں کو مافوق الفطرت مخلوق،
ولی اﷲ اور روحانی طاقتوں سے سرشار قرار دے رکھا ہے۔ مختلف قبیلوں کے سرداروں کے بارے میں ان کی رعایا کے ذہنوں میں ایسا تاثر ٹھونس دیا گیا ہے کہ اگر کسی نے غلطی سے بھی سردار کی آنکھ سے آنکھ ملانے کی گستاخی کردی تو غیر مرئی قوتیںاُسے بھسم کر کے رکھ دیں گی ۔
قادر بخش بتانے لگا '' وہاں کی زمین جو ہماری ملکیت ہے ہم تو اس کو بھی فروخت نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں اس کی اپنے قبیلے کے سردار سے ا جا زت ہی نہیں ہے ہم جو کچھ بھی اپنی محنت سے اس زمین پر کاشت کریں گے اس میں سے ہمارا حصہ صرف اتنا ہی ہے کہ مشکل سے ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی کھا سکیں کیونکہ اس سے زیا دہ اناج ہمیں اپنے گھروں میں لانے کی سردار کے کارندوں کی جانب سے اجا زت ہی نہیںہے‘‘۔یہ 2 مارچ کا وہ دن تھا جسے بلوچستان بھر میں بلوچ نیشنل ڈے کے طور پر منایا جا رہا تھا میں نے قادر بخش سے جب اس کے قبیلے اور سردار کے بارے میں پوچھا تو قادر بخش نے جو نام بتایا اسے سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا یقین ہی نہ آیا کہ یہ ٹیکسی ڈرائیور اس سردار کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو آج بلوچستان کی سب سے بڑی شخصیت کے طور پر کام کر رہی ہے لیکن قادر بخش نے جب اپنا شناختی کارڈ نکال کر دکھایا تو یقین کرنا پڑا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔سوچ رہا ہوں کہ اس سوچ کے ہوتے ہوئے ہم بلوچستان میں سرداری شکنجہ کم یا ختم کر سکیں گے؟ ایسا نہ ہو کہ قافلہ ایک بار پھر لٹ جائے؟!!