"MABC" (space) message & send to 7575

جب پچیس لاکھ لوگ فروخت کیے گئے

16 مارچ 1846ء کا معاہدہ امرتسر کشمیر کی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔انگریز تاجروں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے84,471 مربع میل کا علا قہ پچیس لاکھ کشمیریوں سمیت صرف75 لاکھ نانک شاہی کرنسی کے عوض 16 مارچ1846 کوراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ اس طرح بیچ دیاجیسے گائے، بھینس بکر یوں کے ریوڑ اور گھوڑے بیچے جاتے ہیں۔ پچیس لاکھ لوگوں کا یہ شرمناک سوداانگریزحکومت نے کیا جو خود کو قانون پسند، میگنا کارٹا کا علمبردار، مہذب اور انسانی حقوق کا ٹھیکیدار ہونے کا دعویٰ رکھتی تھی۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کو کشمیر کا یہ تحفہ1841ء میں افغانوں کے خلاف جنگ میں انگریزوں کی مدد کرنے اور پھر 1845ء میں سبرائوں کے مقام پر سکھوں کے خلاف انگریزوں کی پہلی لڑی جانے والی جنگ میں راجہ گلاب سنگھ کی غداری کے انعام کے طور پر دیا گیا‘ جیسے انہوں نے بنگال میں میر صادق اور میر جعفر کو نوازا تھا۔گلاب سنگھ نے سکھوں سے مدد کا وعدہ کررکھا تھا، مگر عین وقت پر دھوکہ دے گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سکھ انگریزوں سے بری طرح شکست کھا گئے۔ انگریز سے وفاداری کے انعام کے طور پر گلاب سنگھ انگریزی دربار کا اہم رکن بن گیا۔
انگریز سرکار نے سکھوں کو شکست دینے کے بعد ان سے ڈیڑھ کروڑ روپیہ بطور تاوان جنگ مطا لبہ کر دیا ۔ بری طرح شکست کھانے کے بعد سکھوں کے پاس اس قدر رقم کا بندو بست کرنا نا ممکن تھا؛چنانچہ سکھوں نے بدلے میں دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے درمیان کا علا قہ انگریزوں کو دینے کی پیش کش کر دی، جسے انگریز نے فوری طور پر قبول کر لیا۔ اس طرح9 مارچ1846ء کو لاہور میں انگریز دربار اور سکھ راجہ دلیپ سنگھ کے درمیان ان علاقوں کی ملکیت انگریز کو دینے کا با قاعدہ معاہدے طے پاگیا۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ راجہ گلاب سنگھ کو بیاس اور ستلج کے پہاڑی حصے( کشمیر) بطور ایک آزاد ریاست کے دیئے جائیں گے اور اس کی تفصیل طے کرنے کیلئے گلاب سنگھ اور انگریز سرکار کے درمیان امرتسر میں ایک علیحدہ معاہدے طے کیا جائے گاکیونکہ1834ء اور پھر1840ء میں راجہ گلاب سنگھ لداخ کے پہاڑی علاقوں اورر بلتستان پر قابض ہو چکا تھا۔
معاہدہ امرتسر کے تحت جموں کشمیر کی صورت میں ایک علیحدہ ریاست وجود آ گئی ۔تا ہم کشمیر کی ڈوگرہ ریاست اور ہندوستان کی دوسری562 ریا ستوں میں بنیادی فرق یہ تھا کہ معاہدہ امرتسر نے گلاب سنگھ کو کشمیر کے سیاہ و سفید کا مالک تو بنا دیا لیکن اس میں دوسری ریا ستوں کی طرح معاہدے میں کوئی ایک بھی مقامی باشندہ نہیں تھا۔ معاہدہ امرتسر کے با وجود گلاب سنگھ کو وادیٔ کشمیر کا قبضہ چھڑانے کے لیے وادی کشمیر کے گورنر شیخ انعام الدین سے بھرپور جنگ لڑنا پڑی۔ اس جنگ میں شیخ انعام الدین نے گلاب سنگھ کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے اس کے مشہور ڈوگرہ کمانڈر لکھپت رائے کو ڈل گیٹ کے مقام پر ہونے والی لڑائی میں قتل کر دیا۔اس شکست پر گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد کی در خواست کی جس پر انگریزی فوجوں نے سر لارنس کی قیا دت میں وادی پرحملہ کرتے ہوئے 9 نومبر1846ء کو گلاب سنگھ کو وادی کشمیر کا قبضہ دلایا۔1886ء میں گلگت ایجنسی اور1936ء میں پونچھ کے علاقوں کو بھی کشمیر کا حصہ بنا دیا گیا۔انگریز کو اس وقت سب سے زیادہ فکر زار روس کی جانب تھی اور کہا جاتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے فیصلہ کیا کہ اگر زار روس اس طرف کا رخ کرتا ہے تو اس کا مقابلہ راجہ گلاب سنگھ کے سپرد کرتے ہوئے انگریزی افواج کو ان حصوں میں تعینات کرنے سے گریز کیا جائے؟۔
قبضہ مستحکم ہوتے ہی ڈوگرہ مہاراجہ نے کشمیریوں کے مال و متاع کی لوٹ مار شروع کر دی ڈوگرہ راجہ نے ہر کشمیری پر ٹیکس نافذ کر دیا اور اس روزانہ کی بنیاد پر وصول کئے جانے والے ٹیکس کی حد کا اس سے اندازہ لگائیں کہ راجہ گلاب سنگھ نے پانی میں اگنے والے سنگھاڑوں کو بھی نہ بخشا اور ان پر بھی ٹیکس نا فذ کر دیا۔ سنگھاڑوں کے بعد گلاب سنگھ نے ہر شادی پر بھی ٹیکس نا فذ کر دیا لیکن اس قانون میں اس نے مسلمانوں کو سب سے زیا دہ رگڑا دیا جبکہ ہندو پنڈتوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا۔
راجہ گلاب کی شاہ خرچیاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ سر والٹر لارنس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ1887ء میں ریا ست کشمیر دیوالیہ ہو چکی تھی اور ریاست کی زمینوں کے نظام کے بارے میں جب سر لارنس نے کام شروع کیا تو وہ جان کر حیران رہ گیا کہ سوائے آسمان سے برسنے والے پانی اور ہواکے باقی ہر شے پر ٹیکس نا فذ تھااور اس سلسلے میں سب سے زیا دہ نشانہ مسلمانوں کو بنایاجا رہاتھا۔کشمیری مسلمانوں پرعرصہ حیات اس لیے تنگ کیا گیاتا کہ وہ کشمیر سے نکل جائیں۔محکمہ مال میں تعینات مسلمانوں کو ایک ایک کر کے ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا۔ جس طرح آج بھارت میں دلتوں کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے اسی طرح ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا۔ آہستہ آہستہ کشمیری کلچر ، تجارت اور زراعت کی اس طرح تباہی شروع کر دی کہ گلاب سنگھ 
کے حاکم انگریز بھی دیکھ کر شرما گئے۔ کرنل رالف ینگ1867ء میں کشمیر کے دورے پر آیا تو وہ یہ دیکھ کر سخت پریشان ہوا کہ وہ علا قے جو کل تک فصلوں سے ہرے بھرے تھے آج خشک اور ویران نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔لیکن اپنی آنکھوں سے کشمیریوں کی نا گفتہ بہ حالت دیکھ کر سب سے سخت کوڑا انگریزی حکومت پر جس نے برسایا وہ تھا انسانی حقوق کا مبلغ، رابرٹ تھورپ۔ اس نے کہا '' جن لوگوں کو گلاب سنگھ کی غلامی میں دیا گیا وہ ادب، کلچر ، تجارت اور اخلاق میں سب سے بہترین تھے آج ان کی حالت دیکھ کر مجھے شرم آ رہی ہے کیونکہ اس کی تمام تر ذمہ داری انگریز پر عائد ہوتی ہے‘‘
1586ء میں جب مغلوں کے بعد افغانوں اور سکھوں نے کشمیرفتح کیا ان سب کی یہ روایت رہی ہے کہ مقامی لوگوں کو حکومتی معاملات میں با قاعدہ شامل کیا جاتا تھا لیکن ڈوگرہ راج میں ایسا صرف ہندو پنڈتوں کے سلسلے میں کیا گیا اور مسلمان جو اکثریت میں تھے ان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ سابق چیف جسٹس بھارت جسٹس اے ایس آنند نے جموں و کشمیر کی آئینی تاریخ اور معاہدہ امرتسر کی ایک ایک شق پر تفصیل سے غور کرنے کے بعد پر ایک سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:
"When you accept money in consideration for a transfer of material thing, the transaction is nothing but sale."

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں