"MABC" (space) message & send to 7575

نشان منزل 23 مارچ

تیئس مارچ 1940 ء یوم پاکستان کے نام سے ہمارے دلوں اور تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ رہے گا یہ دن اس منزل کی نشاندہی کرتاہے جس کی جانب قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے لاہور کے منٹو پارک میں لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو کر قرار داد کی صورت میں اعلان کیا تھا اس دن مسلمانوں کیلئے علیحدہ آزاد مملکت کے قیام کا وعدہ کرتے ہوئے ایسی مملکت کا خاکہ پیش کیا تھا جس میں ہر ایک کو بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے سب کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا یقین دلایا گیا۔ ہندوئوں نے قرار داد پاکستان کا بری طرح تمسخر اڑایا ‘تمسخر اڑانے والوں میں کا نگریس کے علاوہ بعض علمائے دین بھی شامل تھے ۔کوئی اسے دیوانوں کی بڑ‘ تو کئی اسے شیخ چلی کا خواب کہتا۔ لیکن اس قرار داد نے لا الہٰ کی صورت میں ہر مسلمان کے گھر اور دل میں ایسی جگہ بنالی کہ سب اپنے لئے علیحدہ اسلامی ریا ست کی جستجو میں مگن ہو گئے ‘جہاں دین اسلام کی پیروی کرتے ہوئے سب کے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔ پھر سب نے دیکھا کہ صرف سات سال کی مختصر لیکن خون ریز اور پر آشوب جدو جہد کے بعد 27 رمضان المبارک کو پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار ریا ست وجود میں آ گئی ۔
مولانا ابو الکلام آزاد جن کی علمیت اور قابلیت کا ایک زمانہ معترف تھا قیام پاکستان کے شدید مخالفین میں سب سے آگے تھے اور اس کیلئے وہ پنڈت نہرو اور گاندھی کے دیئے جانے والے دلائل سے بھی آگے تھے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر آج مسلمانوں کو ہندوئوں کی غلامی سے نہ نکالا تو پھر 
ساری عمر کیلئے وہ ان کے اکثریتی اور بے رحم شکنجے میں پھنس کر رہ جائیں گے‘قیام پاکستان کے بہت سے مخالفین آزادی کے وقت مسلمانوں کے قتل و غارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن آج بھارت بھر میں انتہا پسند ہندوئوں کی اقلیتوں پر زیا دتیاں اور قتل و غارت کسی سے مخفی نہیں ۔ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کوقتل کیا جا چکا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی بیٹیوں کو عصمت دری کے بعد دریائے نیلم میں بہا دیا جاتا ہے ۔
جس قوم کا نظریہ مر جائے وہ قوم اس درخت اور پودے کی طرح سوکھ کر رہ جاتی ہے جس کی جڑیں ختم ہو جاتی ہیں۔ بد قسمتی سے آج ہمارے حاکم اور سیا ستدانوں کی دیکھا دیکھی ہماری قوم بھی نظریہ پاکستان کو بھولتی جا رہی ہے اور ڈر ہے کہ ان کی یہ غفلت کہیں آزادی کو خطرے میں نہ ڈال دے۔ انگریز اور ہندو سے آزادی ملنے کے68 سال بعد بھی ہمارا معاشرہ ہندوانہ رسم و رواج کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا ۔ سوچئے اگر ہم ہندوستان کا حصہ بن کر رہتے تو ‘ جو بچی کچھی اسلامی اقدار آج ہمارے معاشرے میں باقی رہ گئی ہیں ان کا کیا حال ہوتا؟۔ آج بھارت میں ہر اقلیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ہر سطح پراعلیٰ اور اچھی ملا زمتوں کے لیے مسلمانوں کے بعد اب سکھوں کی بھی حوصلہ شکنی شروع کر دی گئی ہے ۔کیونکہ حساس معاملات کو ان سے دور رکھنے کی مودی سرکار کی پالیسیاں اس وقت زوروں پر ہیں۔آپ بھارت کی تنگ نظری اور نظریہ پاکستان سے نفرت ملاحظہ کریں : کچھ عرصہ پہلے امن کی کوششوں کو فروغ دینے کے سلسلے میںبھارت سے دانشوروں، صحافیوں اور زندگی کے دوسرے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ایک وفدپاکستان کے کچھ تعلیمی اداروں میں گیا ۔ انہوں نے درسی کتب کو دیکھنے کے بعد شور مچا دیا کہ پاکستان نے اپنی معاشرتی علوم اور تاریخ کی کتابوں میں ابھی تک وہی نظریہ پاکستان کی گھسی پٹی باتوں کو شامل کیا ہوا ہے ۔پھر انہوں نے پروپپگنڈا کیا کہ جب پاکستان اپنے تعلیمی اداروں میں اسلامی تہذیب و تمدن جیسی نفرت انگیز اور دو نوں قوموں کی علیحدہ علیحدہ شناخت کی باتیں شامل کرے گا تو نئی نسل امن اور بھائی چارے کی فضا کا کس طرح حصہ بن پائے گی؟چنانچہ ہمارے حکمرانوں نے بھارتیوں کو خوش کرنے کے لیے پرائمری ‘ ہائی سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں تبدیلی شروع کر دی جس کا ذکر ہمارے میڈیا میں روزانہ دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہا ہے۔
بھارت کے انہی دانشوروں اور صحافیوں کے دورہ پاکستان کے بعد کرسچین سائنس مانیٹر نے اپنے ایک شمارے میں Pakistan text books raise debate about curriculum of hate''۔۔۔۔۔کے عنوان سے لکھا کہ ہم جب اسلام آباد کے نواح میں ایک سکول میں گئے تو یہ دیکھ کر ہمیں سخت حیرانی ہوئی کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے شائع کی جانے والی 9 ویں جماعت کی کتاب میں تاریخ پاکستان میں لکھاہے کہ قیام پاکستان پر بھارت سے آنے والے قافلوں پر ہندوئوں اور سکھوں نے حملے کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو قتل کیا۔اخبار نے لکھا یہ کتاب جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ پاکستان کے اپنے ہی (نام نہاد) تاریخ دان مبارک علی نے اپنی کتابوں میں ثابت کیاہے کہ ہندو اور سکھ تو پر امن تھے یہ سب کچھ پاکستان سے ہندوستان آنے والے ہندوئوں اور سکھوں کے قافلوں پر مسلمانوں کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام کے رد عمل کا نتیجہ تھا ورنہ بھارت سے تو مسلمانوں کے سب قافلے امن و امان سے پاکستان پہنچ رہے تھے؟۔
آج پاکستان میںنام نہاد تاریخ دانوں جیسی سوچ رکھنے والوں کا غلبہ ہے ۔ ترقی پسندی کے نام سے یہ لوگ آج پاکستانی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں ۔جس ٹی وی چینل کی جانب نظر اٹھائیں چاروں جانب یہی کرتا دھرتا نظر آئیں گے ان میں سے کچھ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے بارے میں ایسی ایسی کہانیاں گھڑتے ہیں کہ ان کی زبانیں بھی یہ سب کچھ کہتے ہوئے گڑ بڑا رہی ہوتی ہیں ۔ان کے مضامین اور فرمودات میں پاکستان اور بھارت کے قیام کو تقسیم کا نام دیا جاتا ہے ۔ بلوچستان کے دہشت گردوں سے ان کی ہمدر دیاں اور ان کے بارے میں تعریفی جملے ادا کرتے ہوئے ان کی زبانیں اور قلم ذرا نہیں تھکتے۔ یہ شاید بھول گئے ہیں کہ ابھی پاکستان میں وہ نسل زندہ ہے جو آگ اور خون کا دریا پار کر کے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ابھی تک والٹن کے مہاجر کیمپ میں ان اجڑی اور کٹی ہوئی عورتوں اور بچوں کے جسموں کی ہڈیاں مو جود ہیں جن کی لاشیں پاکستان بننے کی سزا دیتے ہوئے ریل کے ڈبوں میں بھر بھر کر لاہور بھیجی گئیں۔۔۔ مقام افسوس ہے کہ مسلم لیگ کے نام سے حکومت کرنے والی جماعت آج ان کو دودھ پلانے میں مصروف ہے جنہیں دو قومی نظریہ اور اس کی محافظ قوتیں ایک آنکھ بھی نہیں بھاتیں۔ حکمرانوں نے ہم سے روزگار، پانی، بجلی اور گیس توپہلے ہی چھین ہی لیا ہے خدا کیلئے اب دو قومی نظریہ اور پاکستان کی اصل تاریخ اور تعلیمی نصاب تو ہم سے مت چھینو!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں