"MABC" (space) message & send to 7575

امریکہ کا آخری صدر ؟

6نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کیلئے باقاعدہ امیدوار نامزد ہونے کے ابتدائی مرا حل طے ہو نے کو ہیں اور ہر ریا ست سے نامزدگی کیلئے ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن امیدواروں کا اپنی اپنی جماعت کی جانب سے امیدوار چنے جانے کے مقابلے کی دوڑ تیزی سے جا ری ہے ۔اس وقت پانچ امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ جماعتیں اپنے اپنے امیدوار کی نامزدگی کا اعلان کرنے کے بعد صدارتی دوڑ کیلئے بھر پور مہم کا آغاز کریں گی۔ اس وقت ابتدائی دوڑ میں پانچ امیدوار میدان میں ہیں اور امریکہ کی تاریخ کا یہ اس لئے بھی انو کھا صدارتی الیکشن ہونے جا رہا ہے کہ جو امیدوار آج مقابلے میں نظر آ رہے ہیں‘ ان کی انفرادیت بہت ہی الگ ہے اور یقین سے کہا جا رہا ہے کہ یہ انتخابات امریکہ کی تاریخ کو بدلنے میں بنیادی کردار بھی ادا کر سکتے ہیںکیونکہ سوائے ہلیری کلنٹن کے‘ باقی امیدوار امریکی ووٹروں کو لبھانے کیلئے ان کے مذہبی اور لسانی جذبات کو ہوا دینے کیلئے الفاظوں کے نشتر استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کسی با شعور معاشرے کی جمہوریت کیلئے نہیں بلکہ کوئی دو سال پہلے افریقہ کی کسی آبادی کے چیف کا الیکشن ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدارتی مہم کے امیدوار راشٹریہ سیوک سنگھ اور صہیونی تنظیم جیسی انتہا پسند تنظیم یا بھارت کے نریندر مودی سے متاثر ہو کر اپنے ووٹروں کے مذہبی رجحانات کو استعمال میں لا رہے ہیں۔۔۔اور امریکی صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کیلئے سب سے زیا دہ مسلمانوں سے نفرت کا وہی حربہ اختیار کیا جا رہا ہے جو اسرائیلی فلسطین میں اور نریندر مودی نے گجرات کے قتل عام کی طرز پر بھارت بھر میں اختیار کر رکھا ہے۔
اگر ڈیمو کریٹ کی جانب سے ہلیری کلنٹن کا صدارتی امیدوار نا مزد ہونے کے بارے میں سوچا جائے تو آپ بلا مبا لغہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی تاریخ میں وہ پہلی خاتون صدر بننے جا رہی ہیں ۔۔۔۔اور اگرسینیٹر برنی سینڈرزامریکی صدارتی امیدوار کے طور پر نا مزد ہوجاتے ہیں تو اپنی کامیابی کی صورت میں انہیں امریکہ کا پہلا یہودی صدر بننے کا اعزاز حاصل ہو گا۔۔۔اور اگر مارکو روبیو کامیاب ہوتے ہیں تو ان کا یہ انتخاب امریکہ کی تاریخ میں اس لئے یاد گار ہو گا کہ وہ امریکی تاریخ کے پہلے لاطینی صدر اور فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے صدر کہلائیں گے اور اگرٹیڈ کروز منتخب ہو گئے تو انہیں امریکہ کی تاریخ کے پہلے کینیڈین نژاد صدر بننے کا اعزاز مل سکے گا اور اگر ری پبلکن کی جانب سے ''ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں تو یقین کیجئے کہ وہ امریکہ کے'' آخری صدر ‘‘ہونے کا اعزاز ہمیشہ کیلئے اپنے پاس رکھ سکیں گے کیونکہ امریکی صدارتی انتخابات میں یہ وہ پہلا امیدوار ہے جس نے ببانگ دہل ''امریکی آئین‘‘ توڑنے کا اعلان کیا ہے اور ا س کے باوجود بھی امریکی ووٹر ز کااس کی جانب مائل ہونا امریکی عوام کی جمہوریت اور با شعور ہونے کے دعوے کی مکمل نفی کرتا ہے۔۔۔۔ اپنے انتخابی منشور میں وہ عبادتگاہوں کو مسمار کرنے جیسے مقاصد اور ارداوں کا پرچار کئے جارہا ہے۔ اس نظریئے کے آغاز سے ان کا امریکہ کا صدر بننا ہی امریکہ کا اپنے انجام کی جانب بڑھنے کا سفر شروع ہو جائے گا لیکن سب سے حیرانی اس بات کی بھی ہے کہ امریکی میڈیا اسے سب سے زیا دہ اہمیت دے رہا ہے ؟۔ اگر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریر اور پیغامات کو سامنے رکھیں تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے نریندر مودی نے بھارت کے عام انتخابات سے پہلے ہندو ازم اور دوسری تمام اقلیتوں کیلئے گھٹیا ترین جملے ادا کرنے شروع کئے تھے اور نتیجہ یہ نکلنا شروع ہوا کہ تمام قومیتیں آپس میں ہی گتھم گتھا ہونا شروع ہو گئی ہیں اور ساتھ ہی بھارت میں رہنے والی تمام قوموں کے درمیان نفرت اور حقارت کی ایک وسیع خلیج بننا شروع ہو چکی ہے اور وہاں اب کوئی بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہا۔ گائے کے گوشت کے شبہ میں اب تک چھ مسلمانوں کو انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں سر عام پھانسی پر لٹکایا جانا اسی نفرت کا آغاز ہے۔اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی ہوجاتی ہے تو پھر یہ ری پبلکن نہیں بلکہ امریکی راشٹریہ سیوک اور عوامی لیگ کہلائے گی۔
اس وقت امریکہ کا با شعور اور دانشور طبقہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی امیدوار بننے سے پریشان ہو رہا ہے تو ساتھ ہی ایک بہت بڑی تعداد اس کے نظریات کو قبول بھی کئے جا رہی ہے جن میں لاطینی بھی ہیں اور سیاہ فام بھی اور یہی پہلو سب سے زیا دہ حیران کن بنتا جا رہا ہے کہ ایک ایسا شخص جو امریہ میں بسنے والی تین اہم قوتوں مسلمانوں، لاطینی امریکن اور سیاہ فاموں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا بلکہ ان پر پابندیوں کے مشورے دے رہا ہے اسی سوائے مسلمانوں کے باقی دو فریقین کی حمایت بھی مل رہی ہے ۔ 
جب دنیا بھر کا میڈیا اور خاص طور پر مغربی اخبارات نے اخلاق و تہذیب کے اس جنازے کی تصویر کشی شروع کر دی تو ری پبلکن پارٹی کے فیصلہ کن لوگ ڈونلڈ کی راہ میں سب سے بڑی رکا وٹ بن کر کھڑے ہو گئے کیونکہ اس کی مختلف ریاستوں کے ابتدائی مرا حل کی کامیابیوں نے امریکی معاشرے اور اتحاد کی تباہی کے خطرے کی گھنٹیاں بجانی شروع کر دی تھیں اور پہلا قدم بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے جان مکین اور مٹ رومنی نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کا صدارتی امیدوار بننا امریکہ اور اس کی عوام کیلئے کسی طور بھی بہتر نہیں ہو گا اور یہ شخص کسی طور بھی امریکہ کے سب سے بڑے منصب تک پہنچنے کے قابل نہیں بلکہ ٹرمپ کی اپنی ہی جماعت کے اہم ترین رہنما مٹ رومنی نے تو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اسے جمہوریت کیلئے زہر قاتل قرار دے دیا ہے۔جان مکین اور مٹ رومنی کے ان بیانات کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی کہ ری پبلکن پارٹی اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہی صفحہ پر نہیں ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی بحیثیت صدر نامزدگی کو نا ممکن دکھا رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کے خیالات اور بیانات سے بین الاقوامی برادری میںری پبلکنز کے بارے میں اچھے تاثرات نہیں جا رہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے یہودی سرمایہ کاروں اور چند بڑی بڑی کارپوریشنوں کی جانب سے بہائے جانے والے کروڑوں ڈالروں کے اثرات کو روکنے کیلئے ری پبلکن پارٹی کے دوسرے دو امیدواروں ٹیڈ کروز اور Marco Robioکی انتخابی مہمات کیلئے بھی بے دریغ پیسہ استعمال میں آنا شروع ہو گیا ہے جس کا ان کیلئے میڈیا میںنظرآنے والی حالیہ اشتہاری مہم سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
ری پبلکن پارٹی کا ہی ایک اور امیدوار مارکو روبیو اس حد تک یہود نواز ہے کہ وہ فلسطینی علا قوں میں اسرائیلی آباد کاری کا نہ صرف پر جوش حامی ہے بلکہ انہیں کھلم کھلا مالی اعانت بھی فراہم کر رہا ہے اور اس صدارتی امیدوار کو ڈالروں کے ڈھیر فراہم کرنے والا پال سنگر ہے اگر مارکو روبیو کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر کسی قسم کا شک ہی نہیں رہتا کہ یہودی کھلم کھلا دندناتے پھریں گے اور فلسطینیوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہو جائے گا اور دوسرے ری پبلکن امیدوار ٹیڈ کروز کی بیگم جس بینک میں اہم عہدے پر براجمان ہے‘ اس بینک نے اب تک ٹیڈ کروز کیلئے کروڑوں ڈالر صرف کر دیئے ہیں۔
امریکہ میں منعقد کئے گئے آئینی کنونشن میں بنجمن فرینکلن سے کسی خاتون صحافی نے پوچھا'' امریکہ میں کس قسم کی حکومت ہو گی‘‘ فرینکلن نے کہا'' وہ ایک جمہوری حکومت ہو گی اگر آپ لوگ اسے سنبھال سکے‘‘ آج امریکہ کا صدارتی انتخاب کسی چھوٹے اور ترقی پذیر ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی بڑھ چکا ہے اور یہ کس قسم کی جمہوریت ہے جو ڈالروں سے تولی جارہی ہے‘ بندوں سے نہیں ۔۔۔۔اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھیں تو جمہوریت کے نام سے اپنی انتخابی مہم چلانے والا ڈونلڈ ٹرمپ خود کہہ رہا ہے کہ امریکی آئین توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہو گا!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں