دادو کی گلیوں، سڑکوں اور اس کے اردگرد کے قصبوں، دیہاتوں اور گوٹھوں میں لوگ اکثر ایک دودھ بیچنے والے یا کبھی کبھار سبزیاں بیچتے ہوئے ایک غریب نوجوان کو عام سے سندھی لباس میں دیکھا کرتے۔ ابتدا میں تو یہ دودھ والا اکثر سائیکل پر ادھر ادھر دودھ بیچتا نظر آتا رہا لیکن بعد میں اس نے سبزیاں بھی بیچنا شروع کر دیں۔ اس کا دودھ اس لیے بھی ہاتھوں ہاتھ بکنا شروع ہو گیا کہ وہ اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ نہیں کیا کرتا تھا جب اس نے سبزیاں بیچنا شروع کیں تو دیہات اور قصبوں سمیت شہروں میں بھی لوگ اس کا اس وجہ سے انتظار کرنے لگے کہ وہ سبزیاں بہت ہی اچھی اور مناسب داموں پر بیچا کرتا جس سے اس کے خریداروں میں دیکھتے ہی دیکھتے اضافہ ہونے لگا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ اس کا کئی کئی گھنٹے انتظار کرنے لگے۔ یہ سبزی اور دودھ بیچنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس ضلع دادو میں ہی تعینات سب سے بڑا پولیس افسر تھا‘ جو آج سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات ہو چکا ہے۔ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ دھرتی کے شاہ عبداللطیف بھٹائی، شہباز قلندر اور عبداللہ غازی جیسے بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں کی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ اللہ ڈینو خواجہ( جوکئی سال پہلے دادو ضلع کے ایس ایس پی تھے اور بھیس بدل بدل کر وہ اپنے علاقے میں گھومتے پھرتے ہوئے ڈاکوئوں، منشیات فروشوں، جرائم پیشہ افراد کا سراغ لگایا کرتے تھے) ایک مسیحا کی صورت میں آج سندھ صوبے کے باسیوں کی حفاظت اور خدمت کے لیے انسپکٹر جنرل کے منصب کے لیے منتخب کیے گئے ہیں‘ جو عوام کے لیے قدرت کا عظیم تحفہ ہیں۔ اس منصب جلیلہ پر فائز ہونے سے قبل خواجہ صاحب صوبے کے سات اضلاع میں بحیثیت ضلع پولیس افسر، خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہیں سندھ کی سپیشل برانچ کے ایڈیشنل آئی جی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے سندھ پولیس کے گھٹنوں گھٹنوں تک رشوت ستانی اور منشیات فروشی سے لے کر قبضہ گروپ اور معاشرتی برائیوں کی دلدل میں دھنسے ہونے کا بخوبی علم ہو گا۔ کیڈٹ کالج پٹارو سے 1982ء میں ایف ایس سی کرنے کے بعد خواجہ صاحب نے جام شورو یونیورسٹی سے کرمنالوجی میں ماسٹر کیا اور اس مضمون اور شعبے کے انتخاب کی وجہ سے ہی پولیس افسر بننے کی خواہش اُن کا شوق و جنون تھا جس نے ان کی تعلیمی قابلیت کو چار چاند لگائے رکھا۔ 1987ء کے سی ایس ایس امتحان میں انہوں نے امتیازی حیثیت سے کامیابی کی۔ کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں انہوں نے ضلعی پولیس افسر کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دیں۔ ایک موقع پر سندھ کی انٹیلی جنس بیورو میں جائنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا، انہی ملازمتوں کے دوران پولیس اور دوسرے شعبوں کی اندرونی خرابیوں سے آگاہی ہوئی؛ چنانچہ اس آگاہی نے انہیں ان خرابیوں اور سازشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ولولہ دیا۔
اللہ ڈینو خواجہ کو کبھی دودھ بیچنے والے تو کبھی سبزی بیچنے والے کے بھیس میں گھومتے پھرتے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں سے بھی واسطہ پڑتا تھا جو ان سے کبھی دودھ تو کبھی سبزیاں مفت میں اینٹھا کرتے تھے لیکن اگلے ہی دن ان کی شامت آ جاتی انہیں سخت سزا ملتی لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں اس معاشرے میں نیک سیرت، دیانتدار، قانون و انصاف کی بات کرنے والے، کرپٹ اور ظالم اہلکاروں کی کھنچائی کرنے والے اور حرام کی کمائی رشوت وغیرہ سے کوسوں دور رہنے والے اہلکاروں اور افسروں کو نہیں برداشت کیا جاتا۔ لہٰذا صوبے کے حکمرانوں کے
لیے خواجہ ایسے افسر کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا، جو غریبوں اور مظلوموں کی داد رسی کے در پے رہتا تھا۔ سندھ میں اصل حکومت وڈیرے اور جاگیردار کی ہے۔ یہی لوگ حکومت ‘اسمبلیوں اور وزارتوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ بطور ایس ایس پی دادو خواجہ صاحب کی جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف''دست درازیاں‘‘ حد سے بڑھنے لگیں اور وڈیروں کو ان کے دفتر میں عزت و احترام کی جگہ ان کے خدائی احکام اور سفارشوں کو نظر انداز کیا جانے لگا تو پھر ''سیاسی قانون‘‘ حرکت میں آیا اور سزا کے طور پر 1990ء میں ان کا دادو سے تبادلہ کر دیا گیا۔ اس تبادلے کے خلاف دادو کی سڑکیں اور مارکیٹیں بند ہو گئیں اور عوام بپھر کر سڑکوں پر آ گئے۔ احتجاج اتنا بھرپور تھا کہ سیاسی گرگے بوکھلا گئے لیکن وہ جانتے تھے کہ اگر خواجہ صاحب کا تبادلہ روک دیا گیا تو پھر انہیں یہ ضلع چھوڑنا پڑے گا؛ چنانچہ وڈیرہ شاہی جیت گئی دادو کے عوام ہار گئے۔ دادو کے عوام آج بھی انہیں مسیحا کے طور پر پکارتے ہیں۔
ٹنڈو محمد خان سندھ کے ایک گائوں کے خوشحال اور بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے اللہ ڈینو خواجہ کے والد گرامی کا نام عزیز خواجہ تھا۔ عزیز خواجہ کی جامشورو کے ایک ہندو دریا نومل سے گہری دوستی تھی۔ جو بے اولاد تھے؛ دریا نومل اپنے دوست عزیز خواجہ کے بیٹے کو سگی اولاد کی طرح پیار کیا کرتے اور انہی کی خواہش پر اللہ ڈینو خواجہ کو کیڈٹ کالج پٹارو میں داخل کرایا گیا۔ جہاں انہوں نے اپنے والد اور چچا کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان کی امیدوں کو بھرپور طریقے سے پورا کیا۔
محترم اللہ ڈینو خواجہ نے سندھ پولیس میں کئی اعلیٰ عہدوں پر سالہا سال کام کیا، لہٰذا وہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ صرف کراچی کے میڈیا کی خبروں میں رہنے سے سچے پاکستانی نہیں بن سکیں گے بلکہ انہیں اندرون سندھ کے اضلاع کے غریب ہاریوں اور شہریوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ ہے۔ انہیں‘غریب طبقوں کو صدیوں کی پسماندگی سے نکالنے اور ہر ایک کو انصاف اس کے گھر کی دہلیز تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہو گی۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اندرون سندھ کے صرف ایک تھانے بخشاپور کی ماہانہ آمدنی پانچ کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے اور وہاں تعینات کیے جانے والے ایس ایچ او سے وصول کی جانے والی رقم دو کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے یاد رکھیے کہ سندھ کے اولیاء اور آپ کے والد گرامی عزیز خواجہ سمیت دریا نومل کی نظریں سندھ سے ظلم و جبر کے خاتمے کا منظر دیکھنے کے لیے آپ کی منتظر ہیں...!!