"MABC" (space) message & send to 7575

جا سوس تک رسائی ؟

جیسے ہی کلبھوشن یادیو کی پاکستان کے سکیورٹی ارکان کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر میڈیا کے ذریعے باہر نکلی بھارت اس سے لا تعلقی کے لیے تیار ہو چکا تھا جس کا فیصلہ نئی دہلی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔ ابھی ان کی وزارت خارجہ اور خفیہ ایجنسیاں سرکاری رد عمل جاری کرنے کے لیے اپنے مرتب کردہ بیان کی نوک پلک سنوارنے میںمصروف تھیں کہ بھارت کے ہی میڈیا نے ان پر قیا مت ڈھا دی۔ 25 مارچ کوبھارت کے سکیورٹی حکام ، وزارت خارجہ اور 'را‘ کے چیف راجندر وزیر اعظم ہائوس نئی دہلی میں سر جوڑے اس نئی افتاد سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل پر بحث کر رہے تھے کہ بھارت کے الیکٹرانک میڈیا نے بریکنگ نیوز دیتے ہوئے ان کے سروں پر ہتھوڑے برسانے شروع کر دیے کہ '' ممبئی کے مضافات کے علا قے ہیرا نندنی گارڈن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا پر پاکستان میں پکڑے گئے جس جاسوس کی تصویر حسین مبارک پٹیل کے نام سے دکھائی جا رہی ہے بالکل اسی شکل و صورت کا ایک آدمی جس کا نام کلبھوشن ہے اور جو ہماری نیوی میں کمانڈر ہے، ساتھ والے بلاک میں ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے۔ بھوشن بھائی کی شکل اور حسین مبارک پٹیل کی دکھائی جانے والی تصویر میں ذرا سا بھی فرق نہیں لگتا۔‘‘ 
جیسے جیسے بھارت کے مشہور میڈیا چینلز سے یہ پروگرام براہ راست آگے بڑھتے گئے مودی سرکار اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی کہ اب کیا کیا جائے، یہ تو اپنے ہی لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ پٹیل ہی اصل میںکلبھوشن ہے، اس بات کو اب میڈیا اور دنیا سے کیسے چھپایا جاسکتا ہے اور پھر بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ کلبھوشن تو کب کا اپنی مرضی سے فوج سے ریٹائرمنٹ لے چکا ہے۔بھارتی حکومت گرفتار کئے جانے والے را اور نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو تک رسائی کے لیے پاکستان پر بھر پور دبائو ڈالنے میں مصروف ہے جس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارت کی اس درخواست پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے براہ راست انچارج وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ہیں، ان سے درخواست ہے کہ اس جاسوس تک بھارتی ہائی کمیشن کی رسائی کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ اور ان کے مشیران یہ نقطہ ذہن میں نقش کر لیں کہ جنیوا پروٹوکول کے تحت''Victim country is not bound to provide councilor access to SPY''... اس لئے یاد رکھیے کہ دہشت گرد جاسوس تک رسائی کے لیے بھارتی کوششیں اوردبائو تمام بین الاقوامی قوانین اور اب تک طے کئے جانے والے ضابطۂ اخلاق کے خلاف ہیںاور بھارت کی جانب سے اس بارے کی جانے والی سب باتیں سوائے میڈیا اور عوام کو دھوکہ دینے کے اور کچھ نہیںکہ کلبھوشن تو زاہدان میں سونے کی تجارت کرتا تھا۔
اگر بھارت کی یہ منطق مان بھی لی جائے کہ کلبھوشن ایک تاجر ہے تو پھر وہ یہ تجارت حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے کیوں کرتا رہا؟ اسے اپنے اصلی نام سے بین الاقوامی تجارت کرنے میں کیا ا مر مانع تھا؟بھارت کے ایک نہیں ہزاروں تاجر اور کاروباری لوگ دبئی، سعودی عرب، کویت، قطر، مسقط سمیت تمام عرب ممالک کی تجارت پر چھائے ہوئے ہیں اور یہ سب اپنے ہندوانہ ناموں بلکہ اپنی بنائی ہوئی دیوی دیوتائوں کے ناموں سے کمپنیاں قائم کر کے کاروبار اور تجارت کرتے ہیں اور انہیں اس میں کسی بھی قسم کی پریشانی یا رکاوٹ کا سامنا نہیں تو پھر زاہدان میں انہیں تجارت کرنے کے لیے اپنے اصلی ہندو انہ نام اور پہچان استعمال کرنے میں کیا مشکلات تھیں؟ دبئی کی مارکیٹوں میں نوے فیصد سے زائد ہندو اپنے اصلی نا موں سے سونے کا کاروبار کرتے ہیں اور اگر کلبھوشن زاہدان میں سونے کا کام کرنا چاہتا تھا تو اسے جعلی نام سے ایرانی رہائشی جعلی پرمٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ 
کلبھوشن یہ سب کاروبار زاہدان میں بھارت کے قونصلیٹ آفس کی وساطت سے کرتا رہا۔ اب ایک انتہائی حیران کن اوردوسرے لفظوں میں بریکنگ نیوز سمجھ لیں کہ زاہدان میں بھارت کی کل آبادی صرف اور صرف پندرہ سکھ فیملیوں پر مشتمل ہے اور صرف ان پندرہ سکھ خاندانوں پر مشتمل لوگوں کے لیے ایک پورا بھارتی قونصل خانہ آخر کس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے جو انقلاب ایران کے بعد سے پاکستان کے سر پر سوار ہے اورجہاں سے افغانستان اور پاکستان میں بھارت اپنے ایجنٹوں کو کارروائیوں کے لیے بھجوانے میں دن رات مصروف رہتا ہے۔حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے بھارتی پاسپورٹL9630722 مہاراشٹرThane سے بارہ مئی2014ء کو 
جاری کیا گیا جس کی میعاد دس سال کیلئے ہے۔ اس کے بعد اس کے پاس چاہ بہار فری ٹریڈ زون کے ایڈریس سے ایران کا جاری کردہ رہائشی پر مٹ ہے جس کی میعاد جون2016ء میں ختم ہونے والی ہے۔پاکستان کی سرحدی حدود سے بھارت کی خفیہ ایجنسی را میں نیوی کمانڈریعنی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اب دو ملکوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے کیونکہ دہشت گردی سے متعلق اقوام متحدہ کے قوانین کے حوالے سے کلبھوشن کے بلوچستان اور کراچی میں اغوا برائے تاوان، Genicides، ,rapesاور بنی نوع انسان کے خلاف کئے جانے والے جرائم کے اعترافات کے بعد بھارت بھی ان پابندیوں کی زد میں آتا ہے جو عالمی اداروں کی جانب سے متفقہ طور پر دہشت گردوں کیلئے وضع کی گئی ہیں۔ کلبھوشن یادیو خود تسلیم کر چکا ہے کہ وہ را کے چیف راجندر کھنہ کی براہ راست نگرانی میں پاکستان کے اندر قتل و غارت کی کارروائیاں اور ان کی ہدایات کے مطا بق پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کیلئے مقامی رابطے اور وسائل مہیا کرتا رہا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں اس نے دو بار براہ راست ان سے ملاقات میں اپنے بلوچستان اور کراچی مشنزکے لیے ہدایات بھی لیں۔
بھارت سرکارتو شروع میں تسلیم ہی نہیں کر رہی تھی کہ کلبھوشن نامی کسی شخص سے ان کا دور کا بھی کوئی واسطہ یا تعلق ہے لیکن ان کے اپنے ہی میڈیا کے کچھ چینلز نے ان کے سب جھوٹوں پر پانی پھیرتے ہوئے ممبئی کے مضافاتی علاقے ہیرا نندنی گارڈن کے لوگوں سے براہ راست گفتگو میں دکھا دیا کہ حسین عباس پٹیل ہی کلبھوشن ہے جو ہماری نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر ہے اور پھر سب نے دیکھا کہ جلد ہی ان کی وزارت خارجہ نے ہار مانتے ہوئے اپنے ترجمان وکاس سروپ کے ذریعے تسلیم کیا کہ پاکستان میں گرفتار کیا جانے والا شخص بھارتی فوج کا سابق افسر ہے، چونکہ یہ شخص اپنی مدت ملازمت سے پہلے بھارتی نیوی سے ریٹائر منٹ لے چکا ہے ا س لئے اس کا بھارت کے کسی سرکاری ادارے سے اب کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے اس اعترافی بیان پر بھارتی حکام ابھی تک اپنے میڈیا کے کچھ'' غیر ذمہ دار‘‘ لوگوں پر آگ بگولا ہو رہے ہیں جنہوں نے ان کی سب تیاریوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے کیونکہ وہ جو کہانیاں سنانا چاہتے تھے وہ ہیرا نندنی گارڈن ممبئی کے لوگوں کے بیانات کے بالکل ہی الٹ تھیں۔انڈیا ٹو ڈے میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں بھارت کی وزارت خارجہ پر برستے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ کیوں تسلیم کیا گیا کہ کلبھوشن کا تعلق بھارت کی نیوی سے رہا ہے چونکہ اس اعتراف نے جہاں بھارت کو مزید دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے وہیں دوسری طرف پاکستان کی پوزیشن کو اس مسئلے پر دنیا کے سا منے اور بھی مضبوط کر دیا ہے۔۔۔کیا کلبھوشن کا سروس ریکارڈ بھارت کی وزارت دفاع نے وزارت خارجہ کو مہیا کیا تھا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر انہیں کس بات کی جلدی تھی؟۔کیا بھارت کی وزارت خارجہ کو یہ تسلیم کرتے ہوئے احساس نہیں رہاکہ اگر ہم اتنا سچ مان رہے ہیں تو کسی کو بھی یہ سوچنے یا کہنے سے کیسے روک سکتے ہیں کہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے جو ابھی تک بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں