یورپی یونین کے Armament Research(CAR) کے نام سے کام کرنے والے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے داعش کی جانب سے عراق‘ شام ‘ فرانس اور برسلز سمیت دوسرے یورپی ممالک میں دہشت گردی اور قتل عام میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے جدید اسلحے‘گولہ بارود اور ہتھیاروں کی سپلائی کے ماخذ جاننے کیلئے 20 ماہ تک تحقیق و تفتیش کے بعد جو رپورٹ جاری کی اس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ رپورٹ میںیہ ہوش ربا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ کہ بھارت سمیت کئی ممالک داعش کو اسلحہ سپلائی میں ملوث ہیں اور یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں کیا جا رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون کے تحت دنیا بھر میں اسلحہ سپلائی کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کو اپنے ملک سے باقاعدہ لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے نا قابل تردیدثبوت کے باوجود نہ جانے ابھی تک بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟۔آخر پاکستان نے یہ معاملہ ابھی تک اقوام متحدہ یا بین الاقوامی میڈیا اور عالمی فورم پر کیوں نہیں اٹھایا۔ کیا پاکستان کو یورپی یونین کے اس تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کاعلم ہے بھی یا نہیں؟
یورپی یونین آرمامنٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی اس رپورٹ نے پاکستان کے سوا دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے رپورٹ کے مطابق بھارت کی سات کمپنیاں داعش کو70کے قریب وہ
پرزے اور حصے بھاری تعداد میں سپلائی کرتی ہیں جو دھماکہ خیز مواد تیار کرنے میں کام آتے ہیں۔ بھارت دنیا کا وہ دوسرا ملک ہے جو داعش کو تباہ کنIEDs کی تیاری کیلئے براہ راست مہلک اور زہریلا میٹریل مہیا کر رہا ہے جس سے ہر طرف اس طرح تباہی پھیلتی ہے کہ دور دور تک انسانی جانیں اور املاک ریزوں کی طرح اڑ جاتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مودی سرکار نے داعش کو اسلحہ اور اس کے پرزے سپلائی کرنے والی ان سات کمپنیوں کو با قاعدہ اجازت نامہ جاری کیا ہوا ہے۔ داعش یہ تباہ کن دھماکہ خیز مواد ترکی اور لبنان کے خلاف آئے دن استعمال کر رہی ہے۔اگر علامہ اقبال ٹائون لاہورکے گلشن اقبال پارک دھماکہ کی تفتیش اس پہلو سے کی جائے تو ممکن ہے کہ اس دھماکے میں استعمال ہونے والے components وہی ہوں جو بھارت کی سات کمپنیاں داعش کو سپلائی کر چکی ہیں؟۔
آرما منٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد میڈیا اور دنیاکی بہت سی خفیہ ایجنسیاں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ عراق اور شام میں داعش دہشت گردی کی جو براہ راست کارروائیاں کر رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اسے تباہی اور بربادی پھیلانے کیلئے درکار ہر وہ ہتھیار اور مواد بھارت اورکچھ دوسرے ممالک سے بغیر کسی قسم کے تردد کے مل رہا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے ۔اس ادارے نے یہ رپورٹ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ مرتب کی ہے اور اسے تیار کرنے میں عراقی فیڈرل کونسل اورکردستان فورس جیسے چار مختلف ادارے بھی شامل ہیں۔اس رپورٹ میں حاصل کئے جانے والے ہتھیاروں اور گولہ بارود سمیت ٹیکنیکل کمپوننٹس پر بھارت کی تصدیق شدہ مہریں موجود ہیں۔ جیسا کہ یہ رپورٹ جاری کرنے والی یورپی یونین کی تنظیم کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ داعش کو بھارتی کمپنیوں کی جانب سے مہیا کئے جانے والے lethal IEDsکی‘ جن میں ڈیٹو نیٹرز، ڈیٹونیٹرز کورڈ، اور سیفٹی فیوزبھی شامل ہیں‘ تمام تفصیلات ان کمپنیوں کے ریکارڈ میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی تنا ظر میں آرمامنٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیمز بیون نے انکشاف کیا ہے کہ داعش کے دہشت گرد‘ ریموٹ ڈیٹو نیشن کے لیے ایک خاص موبائل فون کا استعمال کر رہے ہیں اور یہ سب مواد مودی سرکار کی با قاعدہ اجازت سے داعش کو دیا جا رہا ہے ۔یہ رپورٹ منظر عام پر آنے پر بین الاقوامی میڈیا سمیت دنیا کے دفاعی اور سفارتی حلقے چونک کر رہ گئے ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر اس رپورٹ کی روشنی میں وسیع پیمانے پر تحقیق کرتے ہوئے معلوم کیوں نہیں کیا جاتا کہ داعش کی جانب سے یہ سب سپلائی وصول کرنے والے لوگ کون ہیں اور ان کے ٹھکانے کہاں کہاں واقع ہیں کیونکہ اگر سپلائی دینے والے موجود ہیں تو اسے وصول کرنے والے بھی کہیں نہ کہیں تو موجود ہوں گے؟۔ یہاں پر یہ سوال شدت سے سامنے آتا ہے کہ داعش تک ہتھیار پہنچانے والے امریکہ کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتے ہیں؟۔ تمام تحقیقات کے بعد جب روز روشن کی طرح یہ سب واضح ہو چکا ہے تو پھر اقوام متحدہ کی جانب سے بھارت کو بطور عالمی مجرم اور دہشت گرد ی کی کارروائیوں میں مورد الزام کیوں نہیں ٹھہرایا جا رہا؟۔ایک جانب امریکی صدر بارک اوباما داعش کا سر کچلنے کیلئے دنیا بھر سے اپیلیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب وہ یورپی یونین کے اس با اعتماد ادارے کی دستاویزی رپورٹ کے بعد بھی بھارت کوIAEAکیلئے شائد اس لئے فیورٹ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ کوئی مسلم ملک نہیں ہے ؟۔
دوبئی، بنکاک اور تائیوان سے اب تک بیس کے قریب بھارتیوں کو داعش کیلئے بھرتی کرنے کے جرم میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے داعش سے ہمدردی رکھنے والے دہشت گردوں سے تعاون اوررابطے کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ افغانستان میں داعش کی یہ سرپرستی افغان حکومت اور ا س کے خفیہ ادارے کی نظروں سے بھی اوجھل نہیں ؛بلکہ اب تو یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ طالبان کے ساتھ لڑائی کیلئے داعش کے نام سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم کو افغان حکومت اور فوج کی مدد اور رہنمائی سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا بھر میں جگہ جگہ داعش کی جانب سے کئے جانے والے بم دھماکوں میں استعمال ہونے والا زہریلا اور تباہ کن میٹریل بھارت کی جانب سے مہیا کیا جا رہاہے‘ جس سے اب تک ہزاروںہلاکتیں ہو چکی ہیں تو پھر اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت بھارت کے خلاف سخت پابندیاں عائد کیوں نہیں کی جا رہیں؟۔اسے دہشت گرد ملک قرار کیوں نہیں دیا جا رہا؟۔اتنے ٹھوس ثبوت سامنے آنے کے بعد بھارت کو کس قانون کے تحت سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کا حق دار قرار دیا جا سکتا ہے؟۔ کیا اس رپورٹ کے بعد یہ امکان رد کیا جا سکتا ہے کہ بھارت سے کسی بھی وقت ایٹم بم تیار کرنے کے لیے درکارcomponents داعش کو مہیاکئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔!!