اخبار اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق ایک جانے پہچانے صاحب جن کی سب سے بڑی وجہ شہرت یہ ہے کہ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھارتی صدر اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے دست کشادہ سے '' بنگلہ دیش کی آزادی‘‘ کیلئے گراں قدر خدمات کے صلے میں ایوارڈ وصول کیا۔ ان کی خدمات گنواتے ہوئے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے تسلیم کیا کہ مشرقی بنگال کی آزادی کے دوران موصوف نے پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف سینہ تان کر اپنے قلم کے نوکیلے اور زہر آلود نوکوں سے ہمارے شانہ بشانہ اسی طرح کام کیا جیسے مکتی باہنی نے رائفل کی سنگینوں سے کیا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں سمیت حسینہ واجد کو ان کی انجام دی گئیں خدمات کا اس قدر اعتراف تھا کہ بنگلہ دیش بننے کے43 سال بعد انہیں ایوارڈ سے نوازنے کیلئے خصوصی طور پر ڈھاکہ مدعو کیا گیا کیونکہ انہوں نے تجزیوں، تقریروں اور مضامین سے جس طرح افواج پاکستان کے مورال اور کردار کو دنیا بھر داغ دار کیا، بھارت کے دل میں آج بھی اس کی قدر موجو دہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ان صاحب جیسی چند اور پاکستانی شخصیات کی جانب سے بنگلہ دیش کو وجود میں لانے کیلئے انجام دی گئیں ان کی ناقابل فراموش خدمات کے عوض دنیا بھر سے مدعو کے گئے لگ بھگ دو سو سے زائد دانشوروں اور مشہور شخصیات کی موجو دگی میں خصوصی ایوارڈز سے نوازا۔موصوف نے شرمندہ ہونے کے بجائے اس ذرہ نوازی پر فخرمحسوس کرتے ہوئے حسینہ واجد اور مودی کے دیئے گئے ایوارڈ اپنے ڈرائنگ روموں میں بڑے فخر سے سجا رکھے ہیں ۔ یہ صاحب جب آزادی صحافت کی ڈگڈگی بجاتے ہیں تو ان کی زبان پر ہر وقت عساکر پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی گالی اور الزام ابلتا رہتا ہے لیکن ان کی آزادی صحافت کی حد صرف پاکستان تک ہوتی ہے اس سے آگے ان کی ناک نہ تو کچھ دیکھنے دیتی ہے اور نہ ہی ان کی آنکھیں دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں بے شک ان کی معلومات میرے جیسے لوگوں سے بہت زیا دہ ہیں لیکن انہیں بنگلہ دیش میں آزادیٔ اظہار کو کچلنے اور پابند سلاسل کئے جانے کی خبروں سے نہ تو آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے ذرا سی بھی پریشانی۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں بنگلہ دیش میں صحافت اور صحافیوں کو ٹھونکنے کا فریضہ حسینہ واجد بھارتی خفیہ ایجنسی را کی معاونت سے انجام دے رہی ہیں اس لئے موصوفہ کی مخالفت تو ان کے ایمان اور عقیدے کے سخت خلاف ہے ۔ ہمارے ملک میں ان کی آماجگاہ سارک سے متعلق میڈیا کی ایک تنظیم ہے جسے پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فوری خبر ہو جاتی ہے لیکن ان کی نظروں سے ابھی تک ایشین ہیومن رائٹس کمیشن اور انٹر نیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس اور ورلڈ آرگنائزیشن آف ٹارچر کی جانب سے جاری کی جانے والی مشترکہ رپورٹ نہیں گزری جس میں بنگلہ دیش میں صحافیوں کے خلاف ڈھائے جانے والے حسینہ واجد سرکار کے مظالم کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستانیں بمع تصاویر درج ہیں۔ ان تینوں رپورٹوں کے بعض ابواب کا حوالہ دے رہا ہوں کیونکہ تفصیل کے لیے کئی صفحے درکار ہوں گے ۔۔۔ تیرہ اپریل 2013 ء سے ڈیلی امر دیش کے ایڈیٹر محمو دالرحمن کو نہ صرف گرفتار کیا ہوا ہے بلکہ ان کے مؤقراخبار کو اس جرم میں بند کیا ہوا ہے کہ اس میں حسینہ واجد کے بیٹے مجیب واجد جوئے کی کرپشن کے دستاویزی ثبوت شائع کئے گئے تھے۔ محمود الرحمن کو جیل میں بند کئے ہوئے اب تین سال ہو چکے ہیں۔ چند روز پہلے اس کی اس مقدمے میں ہائی کورٹ سے جونہی ضمانت ہوئی اسے کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ روزنامہ امردیش بند ہونے سے سینکڑوں صحافی بے روزگار ہو گئے ہیں۔ عبد السلام چیئرمین اکوشے ٹی وی چینل کو6 جنوری2015 ء کو اس جرم میں گرفتار کیا کہ اس نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سینئر وائس چیئر مین کا، جو جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں خطاب کیوں نشر کیا؟ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے ایک صنعت کار کو زبردستی اکوشے ٹی وی کے اکثریتی شیئرز کا مالک بنا کر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ عبدالسلام ابھی تک جیل میں ہیں۔۔۔ ویکلی اکنامک کے ایڈیٹر شوکت
محمود کو، جو حسینہ واجد کی پالیسیوںکے سخت مخالف جانے جاتے ہیں، 18 اگست2015 ء سے زبردستی جیل میں رکھا گیا اور اب ان پر25 جھوٹے مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں۔۔۔ ڈیلی سٹار کے ایڈیٹر محفوظ عالم پر حسینہ واجد حکومت نے79 مقدمات درج کرائے ہوئے ہیں ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے حسینہ واجد کی کرپشن کے متعلق 2007 ء میں اپنے اخبار میں خبریں کیوں شائع کی تھیں۔ ان تین عالمی اداروں نے پوری تحقیق کے بعد اپنی علیحدہ علیحدہ رپورٹس میں حسینہ واجد اور را کی مشترکہ انتقامی کارروائیوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت سچ کی آواز کو دبانے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف جرمنی کے ہٹلر کی طرح میدان میں اتر آئی ہے۔ اس وقت میڈیا سے متعلق لاتعداد لوگ بغاوت اور سازشوں کے الزامات کے تحت بنگلہ دیش کے مختلف ٹارچر سیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ چند ایک کے بارے میں یہ اطلاع بھی ہے کہ انہیں اگرتلہ بھارت کے فوجی ٹارچر سیل میں بھی لے جایا گیا۔حسینہ واجد کی انتقامی اور میڈیا کی آزادی کو پائوں تلے کچلنے کی سب سے بڑی مثال 81 سالہ شفیق الرحمن جیسے برٹش نیشنل، سینئر جرنلسٹ، ٹی وی اینکر اور مصنف کی سولہ اپریل کو بے رحمانہ طریقے سے ہونے والی گرفتاری سے دی جا سکتی ہے جب سول لباس میں دس لوگ جو خود کو کسی ٹی وی چینل سے منسوب کر رہے تھے ان کے گھر کے اندر گھس گئے اور پھر گھر والوں کو
مارتے پیٹے ہوئے شفیق الرحمن کے کمرے سے ان کی کتابیں، کمپیوٹراور الماریوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے انہیں گھسیٹتے ہوئے کسی نا معلوم مقام کی جانب لے گئے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں سزائے موت کے خاتمے کی مہم چلا رہے تھے۔جب شفیق کو ڈھاکہ کے تفتیشی ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا تو ان کے خلاف اگست2015 ء میں حسینہ واجدکے بیٹے سجیب واجد جوئے کو قتل کرنے کی ایک ناکام سازش کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔ حسینہ واجد اور نریندر مودی کے مسلمانوں کے خون سے اٹے ہوئے دستانے پہنے ہوئے ہاتھوں سے خصوصی ایوارڈ لینے والے صاحب کیا نہیں جانتے کہ پاکستان میں آئے روز سزائے موت کے خاتمے کی اپیلیں اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں لیکن کبھی کسی کو اس ضمن میں پوچھا تک نہیں جاتا؟۔
بنگلہ دیش سے ایوارڈ یافتہ صاحب اور ان کی تنظیم کو بھارت اور بنگلہ دیش کی جانب سے صحافت کو پابند سلاسل کرنا تو یاد نہیں لیکن ابھی چند دن پہلے اپنے ایک مضمون میں پاکستان میں آزادی صحافت کو پابند سلاسل کئے جانے پر وزیر اعظم سے شکایت بھرا شکوہ کیا ہے لیکن اس کا الزام انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف پر نہیں بلکہ حسب معمول ملک کی دفاعی قوتوں پر ہی تھونپا ہے۔ اپنے اس مضمون میں ان صاحب نے ملک کی عسکری ایجنسیوں کی جانب اشارے کرتے ہوئے جو لغویات لکھی ہیں ان کو دہرانا کسی طور منا سب نہیں لگتاکیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ میڈیا سے متعلق ہر شخص کو کس قدر نوازا جا رہا ہے، سوائے چند ایک سر پھرے لوگوں کے باقی سب شاپنگ مال کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔