امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش 71 سالہ مطیع الرحمان نظامی کو گزشتہ شب پھانسی دے کر انہیں پاکستان سے محبت اور وفا کرنے کی سزا دے دی گئی۔ پھانسی کی یہ خبر سنتے ہی مجھے ایسے لگا کہ یہ پھندہ نظامی شہید کی گردن میں نہیں بلکہ میرے جیسے ہر اس پاکستانی کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے جو ا س ملک کی عظمت اس ملک کی سرحدوں اور اس ملک کے دوستوں اور خیر خواہوں کیلئے اپنی آنکھیں بچھانا سعادت سمجھتاہے۔ حسینہ واجد کی گسٹاپو نے انہیں 29اگست 2010ء سے جیل میں ڈال رکھا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ آج بھی پاکستان سے دوستی اور سلامتی کیلئے دعا گو کیوں ہیں ؟۔ وہ پاکستان کی بجائے ہمیں بنگلہ دیش کا تحفہ دینے والے بھارت اوراس کی خفیہ ایجنسیوں کے سامنے سر بسجود کیوں نہیں ہوتے؟ شہید پر الزام تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان پر بھارتی حملہ آوروں کے خلاف علم جہاد کیا تھا۔انہوں نے مکتی باہنی کی شکل میں پاکستان کی فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے والوںکی نشاندہی کیوں کی تھی؟۔ مطیع الرحمان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ بھارت کی کمانڈو فورس کی گولیوں اور بموں کے سامنے سینہ سپر کیوں رہے ۔۔۔۔۔دنیا کے تمام قانون دانوں اور عالمی رہنمائوں سے سوال ہے کہ اگر ان کے ملک کے اندر ان کے دشمن ملک کی مدد سے کوئی بغاوت برپا کی جائے یا علیحدگی کے نام سے کسی جانب سے گوریلا جنگ مسلط کر دی جائے تو اسے روکنے کیلئے جو وطن دوست لوگ اپنے ملک کی سلامتی کے خلاف کی جانے والی بغاوت کا مقابلہ کر یں گے کیا وہ جنگی جرائم کے مجرم کہلائیں گے؟
مشرقی تیمور اور آئر لینڈ میں علیحدگی کی پر تشدد تحریکیں کامیاب ہوئیں تو کیا ان کی حکومتوں نے ان کا ساتھ نہ دینے والوں کے خلاف جنگی جرائم کی عدالتیں قائم کرتے ہوئے انہیں پھانسیاں دی ہیں؟۔ کل جب حسینہ واجد کی بنگلہ دیش میں حکومت نہیں ہو گی تو اس وقت اگر بھارت، بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کرنے کیلئے اس پر حملہ آور ہو گا تو کیا بنگلہ دیش کی یہی عدالتیں بنگلہ دیش کو بچانے کیلئے بنگلہ فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والوں کو اسی طرح جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان سب کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکانا شروع کر دیں گی؟۔نریندر مودی اور اس کی حکومت نے کوئی چھ ماہ قبل جب بھارت کے طول و عرض میں بسنے والی اقلیتوں پر ظلم اور بر بریت کا بازار گرم کرنا شروع کیا تو دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ جب راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے انتہا پسندوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو جلانا شروع کر دیا، مذہب کے نام پر مسلمان بچوں کو سکولوں اور کالجوں میں مارنا پیٹنا شروع کر دیا گیا تو اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارت کے تمام بڑے بڑے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے بھارتی حکومت کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں ملنے والے ایوارڈ واپس کرنے شروع کر دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد تین سو سے بھی زائد ہو گئی۔ ایوارڈ اور تمغے واپس کرنے والوں میں بھارتی فوج کے ریٹائرڈ فوجی افسرا ور جوان بھی تھے لیکن من گھڑت قسم کے جنگی جرائم میں دی جانے والی پھانسیوں کے خلاف حسینہ واجد اور نریندر مودی کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کرنے والے پاکستانیوں کے ضمیر نہ جانے کہاں مر گئے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر پر تنکے کے برابربوجھ بھی محسوس نہیں ہو نے دیتے۔وہ ابھی تک گردنوں میں نریندر مودی اور حسینہ واجد کی جانب سے ڈالے گئے طوق فخر سے سجائے ہوئے ہیں ۔ ان سے تو بھارت کے وہ شاعر، دانشور فوجی ا فسرا ور جوان ہی بہتر انسان نکلے جنہوں نے فوجی تمغے اور مراعات مودی کو واپس کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ سب ایوارڈ یافتہ لوگ نریندر مودی کے خلاف احتجاجاًبھارت کی سڑکوں پر نکل آئے تاکہ دنیا کو اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے آ گاہ کیا جا سکے۔ انسانی حقوق کیلئے جدو جہد کرنے والی تمام بھارتی تنظیمیں راشٹریہ سیوک سنگھ کے خلاف سراپا احتجاج بن گئیں؛ چنانچہ انتہا پسند ہندوئوں کو اپنے بڑھتے ہوئے قدم روکنے پڑے ورنہ'' پرکھوں کی گھر واپسی‘‘ کے نام پر بھارت بھر میں مذہب کی تبدیلی کی مہم اس وقت نہ جانے کہاں تک جا پہنچتی۔
پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان قتل کیس میں پھانسی ہوئے 37 سال گزر چکے ہیں لیکن خود کو سوشلسٹ اور کمیونسٹ کہلانے والے ترقی پسند ادیب،دانشور اور لکھاری ، سیا ستدان اور سیا سی کارکن اس پھانسی کو'' جوڈیشل مرڈر‘‘ کا نام دیتے ہوئے نہیں تھکتے۔ بھٹومرحوم کی پھانسی کی جب بھی برسی منائی جاتی ہے تو اخبارات میں ان کیلئے خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے اور سیمنار منعقد کئے جاتے ہیں جن میں انہیں پھانسی کی سز ا دینے والے ان تمام ججوں کو کبھی متعصب تو کبھی ان کی تنگ نظری کی مذمت کرتے ہوئے اس پھانسی کو جو دیشل مرڈر کا نام دیا جاتا ہے۔۔لیکن کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی عدالتیں (جن میں ان کی متعصب سپریم کورٹ سب سے پیش پیش ہے) جب جماعت اسلامی کے ان لیڈروں اور کارکنوں کو پھانسی گھاٹ پر تختہ دار پر لٹکانے کے احکامات جاری کر تی ہیں تو پاکستان اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اپنی زبانوں پر تالے ڈال لیتی ہیں۔اگر بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل ہے تو بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی اور دیگر پاکستان نواز رہنمائوں کی پھانسیاں عدالتی قتل نہیں تو اور کیا ہیں۔مجھے جماعت اسلامی میں مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے ہمدرد اور
خیرخواہ رکن قومی اسمبلی طارق اﷲ سے یہ پوچھنا ہے کہ عمران خان کے دھرنے کے دوران آپ نے نواز شریف کے حق میں اس قدر لمبی لمبی تقریریں کیں کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں ابھی تک ان کی گونج سنائی دیتی ہے آپ کی پاکستان کی فوج کو نشانہ بنا بنا کر کی جانے والی مذمتی تقریروں سے ایسے لگتا تھا کہ نواز لیگ کی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی یا آپ کی ذاتی حکومت کو خطرہ لا حق ہو چکا ہے۔کیا آپ مولانا مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی پر قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر نوازشریف سے پوچھیں گے کہ حکومت پاکستان کی زبان اب تک بند کیوں ہے؟۔ کیا طارق اﷲ جو جماعت اسلامی کے ہمدرد کم اور نواز شریف کے غلام زیا دہ نظر آتے ہیں پوچھیں گے کہ جماعت اسلامی اور فوج کے خلاف بولنے والوں اور لکھنے والوں کو حسینہ واجد نے تو ایوارڈ دیئے ہی تھے آپ نے کس خوشی میں پلوںاور سڑکوں کے نام ان کے ناموں سے منسوب کر رکھے ہیں؟۔ سب سے بڑا ایوارڈ وصول کرنے والے کو کس خوشی میں کر کٹ بورڈ کا کرتا دھرتا بنایا ہوا ہے؟۔ یہ سب عنایات نریندر مودی کے کہنے پر بنگلہ دیش کیلئے ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کے بد لے میں ہیں؟ ایک متعصب ہندو چیف جسٹس جو بنگلہ دیش میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کے لیے '' گلوٹین‘‘ بن کر رہ گیا ہے اس کے خلاف وزیر اعظم ہائوس کا میڈیا سیل جس پر ماہانہ35 کروڑ روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے اسی طرح خاموش ہے جس طرح صاحبزادہ طارق اﷲ میاں نواز شریف کے سامنے خاموش بیٹھے رہتے ہیں!!