گیارہ مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے نتائج کے چند گھنٹوں بعد قومی اسمبلی کے حلقہ این اے125 کے مردوں اور خواتین ووٹرزکی بہت بڑی تعداد لاہور ڈیفنس کے لالک جان چوک میں اکٹھا ہو نا شروع ہو گئی، دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی اور رات گئے تک وہاں الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران کی بددیانتی کے خلاف احتجاج ہوتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا گیا جس پر وہاں عارضی احتجاجی کیمپ قائم کر لیا گیا۔ ڈیفنس کے چوک لالک جان کا نام کارگل کی جنگ میں بھارت کے خلاف جرأت، بہادری اور سر فروشی کی عظیم روایت ڈالنے والے حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کی منا سبت سے رکھا گیا ہے، اس لئے یہاں جمع ہونے والے پاکستانی مرد و خواتین کے پائے استقلال کو اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی اور لاہور پولیس کی ڈنڈا بردار فورس متزلزل نہ کر سکی۔ پولیس کے ڈنڈا بردار بھیجتے وقت نگران وزیر اعلیٰ کو سوچنا چاہئے تھا کہ جب حوالدار لالک جان شہید آپ کے مربیوں کی توپوں اور فضائی بمباری سے مرعوب نہیں ہوا تو اس کے پرستار کیسے گھبرائیںگے! لالک جان شہید نے دشمن کی تعداد اور موسم کی شدت سے بے پروا ہو کر بھارتی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوائے تھے تو اس کے نام پر قائم کئے گئے لالک چوک سے پولیس کی دہشت اس کے شیدائیوں کو کیسے بھگا سکتی ہے۔
لاہور کی ہر نشست پر ہونے والی انتخابی بد دیانتی کے خلاف لڑنے والوں کے لئے لالک چوک ہمت اور بہادری کا سمبل بن گیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ شہر بھرکی خواتین یہاں جمع ہو جاتیں، یہ تعداد
بلاشبہ ہزاروں تک پہنچنا شروع ہو گئی اور احتجاج رات ایک بجے کے بعد بھی جاری رہنے لگا۔ لیکن کسی دن ایک لمحے کے لئے بھی یہاں آنے والی خواتین کے ساتھ بد تمیزی کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ سب لوگ ایک خاندان کی طرح یہاں آتے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر گھروں کو واپس چلے جاتے۔ جب یہ سلسلہ دراز ہوا تو میڈیا گواہ ہے کہ نواز لیگ نے اپنے آدمیوں کو اس احتجاجی کیمپ پر حملہ کرنے کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ ڈیفنس تھانہ کا ریکارڈ اس بات کی گواہی دے گا کہ حملہ آور کون تھے اور انہیں کون بھیج رہا تھا۔ لالک جان شہید چوک کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126 دن جاری رہنے والا تحریک انصاف کا دھرنا سب کے سامنے ہے، جہاں خواتین کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں ہوئی، یہی وجہ تھی ہر گزرتے دن کے ساتھ دھرنے میں شرکت کے لئے پورے پورے خاندان آنا شروع ہو گئے اور اکثر خواتین کی تعداد مردوں سے دوگنا ہو جاتی تھی۔ اس دوران خواتین کی جانب کسی نے انگلی تک نہیں اٹھائی سوائے حکمران جماعت کے خاص آدمیوں کے۔ حکمرانوں کے حواریوں نے میڈیا میں اس احتجاج کو کبھی مجرے کا نام دیا اور کبھی کنسرٹ کا، شاید اس طرح وہ اپنے ذہنوں کی گندگی باہر نکال رہے تھے۔
پنجاب کے وزیر قانون نے لاہورکے جلسے میں شریک خواتین کے بارے میں وہی زبان استعمال کی لیکن ناچ گانے کی باتیں کرتے ہوئے وہ اداکارہ ریما کو ایک ٹی وی چینل پر دیا جانے والا اپنا انٹرو یو کیوں بھول جاتے ہیں؟ پنجاب انتظامیہ کی جانب سے جب یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ یکم مئی کو لاہور میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں خواتین کے لئے فاطمہ جناح روڈ پر سول لائنز تھانے کے سامنے علیحدہ انکلوژر قائم کیا جائے گا تو عین وقت پر یہ فیصلہ واپس کیوں لے لیا گیا؟ پنجاب حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ لاہور پولیس نے گنگا رام ایمر جنسی ہسپتال کی دیوارکے ساتھ چار لہروں میں آہنی باڑیں لگا کر فاطمہ جناح روڈ کو بندکیا ہوا تھا، وہاں تحریک انصاف کے سینکڑوں لوگ احتجاج اور نعرے بازی کرتے رہے۔ آخر سول لائنز تھانہ اور پلازہ سینما کے درمیان کشادہ سڑک پر خواتین انکلوژر بننے میں کیا حرج تھا؟ کیا پنجاب کی سپیشل برانچ اور انٹیلی جنس اس بات کی تردید کرنا پسند فرمائیںگی کہ ان کے دو دو اہلکار تحریک انصاف کے اس جلسہ کی پوری اور مکمل فلم بندی کرتے رہے؟ کیا پنجاب اور مرکزکی یہ دونوں خفیہ ایجنسیاں خواتین انکلوژرکے اندر اور باہر کیمرے نصب کرکے کھڑے نہیں ہوئے تھے؟ کیا جلسے کے دوران سٹیج سے فیصل جاوید خان نے ایک نہیں بلکہ وقفے وقفے سے کوئی پانچ سے زائد دفعہ خواتین کے لئے کئے گئے خصوصی انتظامات کے سوالات نہیں کئے تھے؟ کیا ہر بار خواتین نے اس دن کے انتظامات کو سب سے بہتر اور منا سب قرار نہیں دیا تھا؟
جب اسلام آباد میں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لئے لاہور اور راولپنڈی سے ''فورس‘‘ بھیجی گئی تھی تو اس وقت بھی نواز لیگ نے ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا تھا، لیکن وہ سچ ہی کیا جو کھل کر سامنے نہ آئے۔ اس موقع پر لی جانے والی کچھ اداروں کی تصاویر نے ایک ایک چہرہ بے نقاب کر دیا جن میں لاہور گوالمنڈی کے دو درجن سے زائد معروف ''کارکن‘‘ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ وزارت داخلہ اگر ڈی چوک پر دھرنے کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن پر حملہ کرنے والوں کی تصویروں سے دو دن میں نادرا سے تمام ریکارڈ اکٹھا کر سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد اور لاہور کے واقعات کو دس دن سے بھی زیادہ وقت گزر چکا لیکن نادرا کسی ایک شخص کو بھی اپنے ریکارڈ میں نہیں ڈھونڈ سکی؟ بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تصویروں سے آپ ان کے گھروں تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن شاید لاہور میں خواتین کے ساتھ بد تمیزی کرنے والی ان جیتی جاگتی تصویروں تک پہنچنے کے لئے
نادرا اور وزارت داخلہ کے پر جلتے ہیں۔جناب والا! یاد رکھیے لاہور کے واقعے کے فوراً بعد پولیس کا اپنی جانب سے ہی ایف آئی آر لکھنا اور چند منٹ بعد ہی وزیر اعظم ہائوس کے میڈیا سیل کا تحریک انصاف پر منظم حملہ اند رکی کہانی کوکھول کھول کر بیان کر رہا ہے۔
جس بے خوفی سے درندوں کی طرح جلسہ میں شریک خواتین پر حملے کئے گئے، اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کو مکمل یقین دلا کر بھیجا گیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا اور یہ یقین دہانی کسی طاقتور شخصیت کی جانب سے ہی کرائی گئی ہو گی۔ جس طرح سپریم کورٹ کا تقدس پائوں تلے روندنے والوں کو یقین تھا کہ انہیں واپسی پر شاباش اور پلاٹ ملیں گے، لاہور میں خواتین پر حملہ آور درندوں کو بھی اس کی اشیر باد مل چکی تھا اور پھر پولیس کی بھاری نفری کے جلو میں جس طرح انہیں وہاں سے لے جایا گیا وہ اپنی جگہ بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے۔کسی بھی جگہ سکیورٹی اور خصوصی ڈیوٹی کے لئے سپیشل برانچ اور سکیورٹی ڈویژن ایک نقشہ بناتی ہے، ایک ایک اہلکار کی اس کے نام کے ساتھ ڈیوٹی لگائی جاتی ہے، لہٰذا خواتین کے حصے پر دہشت گردی کو روکنے کے لئے تعینات ذمہ دار افسران سے پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ کون لوگ تھے اور کس طرح خواتین کے حصے میں گھسنے میں کامیاب ہوئے؟ یاد رکھیے، خواتین کی بے حرمتی کرنے کی یہ قبیح حرکت جس نے بھی کرائی وہ خدا کی لاٹھی سے بچ نہیں سکے گا کیونکہ اس کے محبوب محمد مصطفیٰﷺ کا تو اپنی فوجوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے ہوئے فرمان ہوتا تھا کہ دشمن کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ درختوں کو بھی نقصان مت پہنچانا۔