قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے''(اور لقمان نے کہا تھا) بیٹا، اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ کسی چٹان کی تہہ میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں چھپا ہوا ہو، اﷲ اسے نکال کر لے ہی آئے گا بے شک اﷲ بڑا باریک بیں ہے اور بڑا با خبر ہے‘‘۔جس طرح آصف علی زرداری کے سوئس اکائونٹس میاں نواز شریف کے سامنے آئے تھے وہ اتفاق ان سے بہتر کون جانتا ہو گا۔۔۔اور پھر اب پانامہ لیکس کے ذریعے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے کی بیرون ملک جائدادوں کی ایک ایک تفصیل جس طرح سامنے آ رہی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یہ تو ابھی ایک چھوٹا سا آغاز ہے کیونکہ بحکم ربی سمندر بھی اپنے اندر ڈوبی ہوئی چیزوں کو باہر لے آئیں گے ۔ قران پاک کی وہ آیت مبارکہ بار بار میرے سامنے آ رہی ہے جس میں اﷲ سبحانہْ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں'' یہ مجھ سے مکر اور ٹھٹھا کرتے ہیں حالانکہ میں ان سے بہتر چالیں چلنے والااور ٹھٹھہ کرنے والا ہوں ‘‘۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ حسین نواز کا جاوید چوہدری سے کرایا جانے والا خصوصی انٹر ویو روٹین کا معاملہ تھا تو یہ اس کی بہت بڑی بے وقوفی ہو گی۔ اسی طرح حسین نواز اور حسن نواز کے بی بی سی کو دیئے گئے انٹریوز میں خدا کی مرضی شامل نہیں تھی تو ایسے شخص کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے یاد رکھیے یہ سب کچھ احکام خداوندی کے تحت ہی ہو رہا تھا کیونکہ جس طرح روز محشر انسان کا ایک ایک عضو اس دنیا میں اس کے کئے گئے اعمال کی گواہی دے گا اسی طرح اس دنیا میں بھی سیلو لائیڈ کے فیتے کے بعد اب سی ڈیز اور سیٹلائٹ نے سب کچھ محفوظ کیا ہوا ہے
جو ہمارے کئے اور کہے کی گواہی دیں گے اور گواہی دے رہے ہیں۔۔۔جب ان تک پانامہ کی تفصیلات پہنچیں تو میاں نواز شریف نے اپنے خاندان کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے فیصلہ کیا کہ قبل اس کے یہ بم اچانک پھٹے کیوں نہ اس سے پہلے ہی دنیا کو ان آف شور کمپنیوں اور لندن کے فلیٹس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا جائے تاکہ کل کو جب بات باہر آئے گی تو کہہ دیا جائے گا کہ ہم تو پہلے ہی سب کچھ بتا چکے ہیں لیکن ہوا یہ کہ حسین نواز نے اپنے اس خصوصی اور ارینجڈ انٹرویو میں اپنی ہمشیرہ محترمہ کے بارے میں بتا دیا کہ وہ بھی آف شور کمپنی کی مالک ہیں جبکہ اس سے پہلے ثنا بچہ کے ساتھ عمران خان کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں ایک خصوصی بیپ کے ذریعے وہ کھل کر یہ کہتے ہوئے انکار کر چکی تھیں کہ ان کی اوران کے کسی بھی بھائی اور خاندان کے فرد کی ملک سے باہر کسی بھی قسم کی کوئی جائداد ہے۔لیکن جیسا کہ باری تعالیٰ کا قران پاک کی سورۃ لقمان میں ارشاد ہے'' اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ کسی آسمان یا کسی چٹان یا زمین اور سمندر کی تہوں کے نیچے بھی ہوا تو وہ سامنے لے آ یا جائے گا‘‘۔محترم وزیر اعظم صاحب کے ٹی وی پر قوم سے خطاب سے لے کر میاں شہباز شریف کے پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے خطاب تک۔۔۔میاں نواز شریف کے قومی اسمبلی سے خطاب سے لے کر حسین نواز کے انٹر ویو تک۔۔۔محترمہ کلثوم
نواز کے گارڈین کو دیئے جانے والے انٹرویو سے لے کر مریم صفدر کے ثنا بچہ کو دیئے جانے والے انٹرویو تک۔۔۔جناب حسن نواز شریف کے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک سے کی جانے والی گفتگو سے لے کر صدیق الفاروق کی گفتگو اور چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس تک۔۔۔کھول کھول کر بیان کی جانے والی تفصیلات اور اعترافات کے بعد یہ شک رہ جاتا ہے کہ'' ایک پتہ بھی میرے رب کی مرضی اور منشا کے بغیر نہیں ہل سکتا وہی قادر مطلق ہے وہی ہے جو سمندر کی سات تہوںسے بھی سچ کو سامنے لے آتا ہے۔
اب اس سچائی کے خلاف ایک لندن پلان بننے جا رہا ہے جس کیلئے آصف علی زرداری پہلے سے ہی لندن پہنچے ہوئے ہیں اور اب مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی سمیت حاصل بزنجو بھی پہنچنے ہی والے ہیں اور محمود خان اچکزئی کے پھیرے بھی لگنے ہی والے ہیں۔جہاں سب بیٹھ کر پاکستان اور پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کریں گے لیکن یہ شاید نہیں جانتے کہ یہ چاہے جو بھی اور جتنے بھی منصوبے بنا لیں میرا رب اس ملک کے غریب عوام کی داد رسی کیلئے ان سب سے بہتر منصوبے بنانے والا ہے۔
بائیس مئی کی شام جب وزیر اعظم اس سلسلے میں لندن پہنچنے کے بعد اپنی مشہور زمانہ رہائش گاہ پہنچے تو وہاں پر ان کی '' میڈیا‘‘ سے گفتگو کا بطور خاص بندو بست کیا گیا تھا اور ان سے جو سوالات کئے گئے اس سے یقین ہو گیا کہ '' میرا سلطان‘‘ برطانیہ میں بھی اپنے پنجے اور تجوریاں گاڑ چکا ہے۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ سوالات میڈیا کی جانب سے کئے جا رہے ہیں یا کسی زمیندار اور جاگیردا ر کے ڈیرے پر پلنے والے کسی ہاری یا مزارع کی جانب سے۔ اس قدر انتظامات اور تکلفات کے با وجود '' میڈیا‘‘ کے ارینجڈ سوالات کے جواب دیتے ہوئے بھی وزیر اعظم کے چہرے پر چھائی ہوئی پریشانی اور گھبراہٹ کسی سے پوشیدہ نہیں تھی کیونکہ سچ کی صورت میں ہر انسان کے جسم میں پرورش پانے والا ۔آخر ضمیر بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے جو اندر ہی اندر اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے ہم اپنا کیا دھرا انسانوں سے تو چھپا لیں گے لیکن اپنے رب سے کیسے چھپائیں گے اور وہ عمل جن سے اس رب کی لاکھوں کی تعداد میں بے بس اور مجبور مخلوق کی حق تلفی کی گئی ہو کیسے بخش دی جائے گی اور یہ معاملہ اب چونکہ بے آواز لاٹھی بن کر سوو مو ٹو کی صورت میں سامنے آ چکا ہے اس لئے وہی لاٹھی والا اس کا فیصلہ بھی کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قاد رمطلق یہ لاٹھی کس کے حوالے کرتا ہے کیونکہ اس معاملے میں انصاف کا حصول اب انسانوں کے بس کی بات نہیں رہا شاید اسی لئے اعتزاز احسن بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ'' اگر میاں نواز اور میاں شہباز سب کے سامنے کراچی نیشنل بینک کا ہیڈ آفس لوٹ کر آ جائیں تو انہیں کوئی بھی سزا نہیں دے سکے گا‘‘۔۔۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے اس سے آگے قانون اور انصاف کی بے بسی اور بے کسی کے متعلق کچھ کہنے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں رہنی چاہئے۔
کسی بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ اس ملک کی سوچ اور اہلیت کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن لندن میں مے فیئر کے فلیٹس کے نیچے کھڑے ہو کر عمران خان کو اس طرح کوسنے دیئے جا رہے تھے لگتا تھا کہ اس ملک کو وہی ایک لوٹ کر کھا چکا ہے اور اگر اس شخص کا محاسبہ سب نے مل کر نہ کیا تو نہ جانے یہ ملک کا کیا حال کر دے ۔ اس ملک میں اگر کہیں کوئی ادارہ ہوتا۔۔کہیں انصاف اور قانون ہوتا۔۔۔کہیں پر کوئی ضمیر نام کی شے کا وجود ہوتا تو اس ملک کو لوٹنے والا کوئی، چاہے عمران خان کی صورت میں ہو یا نواز شریف اور شہباز شریف کی شکل میں کوئی بھی بچ کے نہ رہتا۔۔۔ لیکن اب تک کچھ بھی نہیں ہوا شاید سب اپنے مردہ ضمیروں سمیت سوئے ہوئے تھے۔
جب سب سو جاتے ہیں جب بات حد سے گذر جاتی ہے تو پھر فرمان خدا وندی ہے'' اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برا بر بھی ہو وہ کسی چٹان کے اندر ہو یا سمندر کی تہہ میں،آسمانوں میں ہو یا زمین میں کہیں چھپا ہوا ہو اﷲ اسے نکال کر لے ہی آئے گا بے شک اﷲ بڑا باریک بین ہے اور بڑا با خبر ہے...!!