کبھی غور کیا ہے کہ انہوں نے اپنی گردنیں کن کیلئے کٹوائیں،وہ کن کیلئے بے دردی سے ذبح ہوئے، وہ کن کیلئے اپنے ہاتھ پائوں اور ٹانگوں سے زندگی بھر کیلئے معذور کئے گئے اور جوان لاشے کن کیلئے بارود اور گولیوں کی بو چھاڑ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔ گوشت پوست کے یہ جسم دہشت گردوں کی کمین گاہوں میں منوں کے حساب سے اکٹھے کئے جانے والے تباہ کن بارود ی مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے زندگی بھر کیلئے اپنی دونوں آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کن کیلئے محروم ہو گئے۔۔۔ یہ شہید بھی زندہ ہیں اور یہ غازی بھی زندہ رہیں گے لیکن کسی کی ٹانگ نہیں کسی کا ہاتھ اور بازو نہیں تو کسی کے چہرے پر ناک اور آنکھ ہی نہیں‘ یعنی باقی زندگی کیلئے محتاج ہو گئے۔ آنکھ‘ ہاتھ اور پائوں وغیرہ سے محرومی کی اذیت صرف وہی جان سکتے ہیں‘ جو حساس ہوں یا ان اذیتوں کا شکار ہوں۔ مہران بیس کراچی سے لے کر تربت اور گوادر کی پہاڑیوں تک‘ شوال سے لے کر لورا لائی تک ،پاکستان کی ہر مسجد سے ہر گلی بازار تک اور ہرسڑک سے لے کر بسوں اور ریل گاڑیوں تک‘60 ہزار سے بھی زائد شہری ان دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہونے سے معذور ہو ئے ہیں۔ ان میں ہمارے خاکی وردی والے اور ہر قسم کا لباس اور یونیفارم پہنے عوام ہم سبھی اس پاکستان کیلئے قربان ہوئے جس میں ہمارے گھر ہیں کاروبار ہیں میرے اور آپ کے خاندان آباد ہیں۔ آپ کے سکول ہیں آپ کی عبادت گاہیں ہیں آپ کے پلازے اور بڑی بری عمارتیں ہیں۔ آپ کی زمینیں اور جاگیریں ہیں آپ کے کارخانے اور فیکٹریاں ہیں ماں باپ، بہن بھائی ،بیٹے اور بیٹیاں بستی ہیں۔ جب اسی سرزمین سے اپنے پیٹ بھرنے والے اس کی زمینوں کو اس کے وسائل کو نوچ نو چ کر گلچھرے اڑانے والے دانشور، اخبار نویس اور تجزیہ نگار اور بڑے ناموں والی این جی اوز کے بھیس میں چھپے ہوئے کچھ لوگ ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر، پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوانوں میں اپنی تقریروں میں چادریں اوڑھے ہوئے ان قربانیوں کا مذاق اڑائیں تو سمجھ لیجئے کہ ایسے لوگ ہم میں سے نہیں ہیں۔ اتفاق سے یہ پاکستان میں پیدا ہو گئے لیکن ان کے دل ان کے ہاتھ ان کی زبانیں پاکستان سے وابستہ نہیں ؟۔ ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ فوج اور عوام میں فاصلے بڑھائیں۔ جنرل راحیل شریف کی قیا دت میں فوج نے اس ملک کی سالمیت کیلئے جو قربانیاں دی ہیں‘ انہیں گہنا دیا جائے ۔ ایسے لوگوں کی ہر وقت یہی کوشش رہتی ہے کہ فوج اور عوام جو ایک دوسرے کے بالکل قریب ہو چکے ہیں ان میں ایک بار پھر سے دوریاں پیدا کی جائیں۔ کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر فوج اور عوام کا یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا تو ان کا مشن ناکام ہو جائے گا۔ وہ اس ملک کی بنیادوں کو گرانے میں ناکام رہ جائیں گے۔
ان دانشوروں اور اینکر نما تجزیہ کاروں کی باتیں سنیں تو جمہوریت کے ایسے ایسے سہانے سپنے دکھائیں گے‘ شہری آزادیوں کی ایسی ایسی مثالیں دیں گے کہ سننے والے سر دھننے لگیں۔ لیکن ان کی آزادیٔ اظہار کا یہ حال ہے کہ اگر آپ ان پر ذرا سی بھی تنقید کریں تو ایک دم آپے سے باہر ہو کر گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ان لوگوں کے بھیس میں چھپے دانشوروں اور پروفیسروں نے وہی طریقہ اختیار کر لیا ہے جو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں وہاں کی یونیورسٹیوں‘ سکولوں اور کالجوں کے لبرل کہلانے والے بنگالیوں اور ہندو اساتذہ نے باہم مل کر اختیار کیا تھا۔ اب یہی طریقہ پاکستان میں بڑے بڑے ناموںوالی غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں اختیار کیا جا رہا ہے۔ وہاں کھاتے پیتے اور لبرل نئی نسل کے بڑے بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کوآزادی اور جمہوریت کے نام پر پاکستان کی سلامتی سے بے نیاز کرتے ہوئے ورغلایا جا رہا ہے‘ تاکہ وہ مذہب اور رسم رواج کی ہر حد سے بیگانہ ہوتے ہوئے اس نظریئے سے بے پروا ہو جائیں جو پاکستان کی بنیاد اور آغاز ہے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بلوچوں سے فوج زیا دتی کر تی رہی( ایک بلوچ صوبائی سیکرٹری کے گھر سے ایک ارب روپیہ نکل آتا ہے جو بلوچ عوام کی ترقی کیلئے استعمال ہونا تھا)انہیں یہ کہہ کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھی بنگالیوں پر ظلم کئے گئے تھے اوریہ کہ کشمیر اور پاکستان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ مسئلہ کشمیر صرف فوج نے کھڑا کیا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو مغربی ممالک سمیت امریکہ کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں اور پاکستان میں قائم بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بڑے بڑے مشاہروں کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیا جا تا ہے ۔
سب سے پہلے پاکستان میں شہری آزادیوں سمیت خواتین اور انسانی حقوق کے نام سے قائم این جی اوز کی سرگرمیوںکا بغور جائزہ لیں‘ تو معلوم ہو تا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو عوام اور دنیا بھر میں بدنام کرنے کی ہی کوششیں کی ہیں۔۔۔اگر کسی کو سبین محمود والا واقعہ یاد رہ گیا ہے تو سب سے پہلے ان این جی اوز کے مظاہروں اورمخصوص میڈیا سے تعلق رکھنے والوں نے یہی نقش ذہنوں میں بٹھانا شروع کر دیا کہ موصوفہ نے چونکہ بلوچستان کے ما ما قدیر کو اپنی این جی او کے پلیٹ فارم پر مدعو کیا تھا‘ اس لیے فوج کی خفیہ ایجنسی نے اسے ٹھکانے لگا دیا۔ لیکن جب تحقیق ہوئی تو اسی دشمن کے تنخواہ یافتہ اصل قاتل سامنے آ گئے جو تحریک طالبان پاکستان کی شکل میں پاکستان پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ان این جی اوز اور ان کے نمائندوں کو اپنے ٹی وی پروگراموں میں بڑے اہتمام سے مدو کرنے والوں کی‘ پس پشت رہ کر ڈوریاں ہلانے والی ایک ہی طاقت
ہے جو کسی بھی صورت میں دنیا کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے روشن چہرے کو سامنے آنے سے روکنا چاہتی ہے ۔
جب آرمی پبلک سکول پشاور کے 143 معصوم طلبا کے خون سے ہولی کھیلی گئی‘ جب چار سدہ یونیورسٹی میں34 طالب علموں سمیت ان کی سکیورٹی فورس کے لوگ شہید کئے گئے تو‘تو مظفر گڑھ کے دور دراز مقام پر مختاراں مائی کے گھر پہنچنے والی یہ این جی اوز ایک دم غائب ہو گئیں۔ نہ جانے کون سی اندرونی خوشی نے انہیں اتنا بے خود کر دیا کہ انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دنیا کا سب سے بڑا ظلم پشاور میں ہو چکا ہے کہ جہاں معصوم طلباء کو ذبح کیا گیا جہاں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے فرائض انجام دینے والی خواتین اساتذہ کو پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔۔۔''کیا یہ این جی اوز کسی ماںکی اجڑی گود کو دلا سا دینے کیلئے کسی گھر یا کسی دروازے تک پہنچیں؟۔سبین محمود کیلئے تو ان کی جانب سے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں ایک گھنٹے بعد ہی احتجاجی مظاہرے شر وع کر دیئے گئے تھے۔
آج اس قوم کو جو اپنے بیٹوں بھائیوں کی قربانیاں دے رہی ہے انہیں آگے بڑھتے ہوئے ایک ساتھ کھڑے ہو کر ان لبرل تعلیمی اداروں کے طلباء کے ذہنوں میں بھرے جانے والے زہر کا تریاق کرنا ہو گا لیکن ا س کیلئے اس ملک کی سول قیا دت اور سول سوسائٹی کو سامنے آنا ہو گا کیونکہ یقین رکھئے کہ پاکستان کے مفادات کو سبو تاژ کرنے والی کئی خفیہ ایجنسیاں اپنے مشن کی تکمیل کیلئے مختلف شکلوں میں چھپے ہوئے چہروں اور این جی اوز پر سالانہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔