"MABC" (space) message & send to 7575

پیادوں کی اچھل کود

بد قسمتی سے اس ملک کے سب سے بڑے صوبے پر امریکہ کے حکم سے نگران وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال کر عوام کی رائے کو چرانے کے بعد ملک کی اچھی بھلی کرکٹ کا ستیاناس کرنے میں ہمہ تن مصروف شخصیت نے‘جن کی تقریروں اور تحریروں سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس ملک کے شہری ہیں‘ دس دن قبل لکھے جانے والے اپنے مضمون کی آخری تین سطروں میں وارننگ دیتے ہوئے مسلح افواج کو خبردار کیا ہے کہ اگر پانامہ لیکس کی آڑ میں نواز شریف کو چھیڑا گیا تو افغانستان اور بھارت مغربی اور مشرقی سرحدوں پر مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں ۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شائد یہ مضمون بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کا لکھا ہوا ہے لیکن جب تصویر پر غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ مضمون لکھنے والا تو کوئی بھارتی چڑیا ہے۔۔۔ ان دانشور حضرات کے مضامین اخبارات میں اہتمام سے شائع کرانے کے بعد پاناما لیکس والوں نے اپنا ایک تیسرا مہرہ آگے بڑھاتے ہوئے فوج کو زبر دست شہہ مات دینے کی کوشش کی۔ یہ تخریب کاری اس شخص کی جانب سے کرائی گئی جو ایک رپورٹ کے مطا بق اب تک دس ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو پاکستان کے شناختی کارڈ بنوا کر بلوچستان کی پولیس سمیت مختلف اہم اداروں میں بھرتی کروا چکا ہے۔
محمود خان اچکزئی نے پاناما لیکس کے حوالے سے قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر افواج پاکستان پر براہ راست الزامات لگاتے ہوئے اسے دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا: پٹھان کوٹ کا واقعہ فوج نے کرایا،26/11 کا واقعہ فوج نے کرایا، کابل افغانستان میں دھماکے فوج نے کرائے، کشمیر میں گڑ بڑ فوج کرا رہی ہے۔
موصوف نے یہاں تک ہرزہ سرائی کی کہ افغانستان اور بھارت میں جو بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے یہ سب کیا دھرا پاکستان کی فوج کا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بے چارہ اسی لئے دنیا میں ہونے والی کسی بھی کانفرنس میں جانے سے گھبراتا ہے کہ وہاں پر جب عالمی رہنما ان سے دہشت گردی کے ان واقعات کے متعلق سوال کریں گے تو وہ فوج اور اس کی ایجنسیوںکی ان ''بدمعاشیوں‘‘ کا دنیا میں کس طرح دفاع کرسکے گا ؟۔ اچکزئی کے مطا بق نواز شریف تو فوج کی حرکتوں کی وجہ سے عالمی رہنمائوں کے پاس جانا تو کجا ان کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا ؟موصوف نے اب یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے منہ دکھانے والی بات فوج کی وجہ سے ہے کی ہے یاپاناما لیکس کے گینگ4کی شائع ہونے والی شہ سرخیوں کی وجہ سے؟۔
گھٹیا اور بدترین قسم کے الزامات کی شکل میں جو الفاظ اچکزئی کی زبان سے قومی اسمبلی کے ایوان میں ادا کرائے گئے ہیں اسی طرح کے الفاظ پر مشتمل پاک فوج کے خلاف اشتہارات بھارت کے ساتھ 1999ء میں ہونے والی کارگل جنگ کے دوران امریکہ کے اخبارات میں شائع کرائے گئے تھے۔ ان اشتہارات کا عنوان پاکستان کے بد طینت افراد کی جانب سے ہی '' روگ آرمی‘‘ رکھا گیا تھا۔ پھر بھارتی یہ اشتہارات اٹھائے نیویارک اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی خانے کے سامنے مظاہرے کرتے دکھائی دیتے تھے ۔ جن لوگوں نے محمود خان اچکزئی کی یہ تقریر قومی اسمبلی سے براہ راست سنی ہے انہوں نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ کس طرح نواز لیگ کے ارکان ان کی اس ہرزہ سرائی پر اچھل اچھل کر ڈیسک بجا رہے تھے۔ افواج پاکستان کو ملنے والی ہر گالی اور دہشت گردی کے ہر الزام پر بیس تیس نواز لیگی ارکان قومی اسمبلی کا یہ ٹولہ خوشی اور مسرت سے پاگل ہو تے ہوئے سب کو دکھائی دے رہے تھا۔ اچکزئی کی اس تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ بھارت تو ایک امن پسند ملک ہے وہ تو کبھی پاکستان کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا مگر بھارت سمیت افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور خطے میں جو بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کی تمام تر ذمہ دار صرف اور صرف پاکستان کی فوج ہے۔اچکزئی صاحب! آپ کی نظر ہر روز بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی جانب کیوں نہیں جاتی؟۔ بلوچستان کی پولیس، ایف سی اور سکیورٹی کے دوسرے اداروں کے لوگوں کو روزانہ بم دھماکوں اور فائرنگ سے جو قتل کیا جا رہا ہے یہ کون کروا رہا ہے؟۔پاکستان کی تنصیبات اور بازاروں میں آئے روز جو دھماکے ہو رہے ہیں یہ کیا زمین سے خود رو پودوں کی طرح اگ رہے ہیں؟۔ بلوچستان میں آئے روز پنجاب اور کے پی کے‘ کے مزدوروں کو قطاروں میں کھڑا کر کے جو لوگ گولیوں سے بھون رہے ہیں یہ کون ہیں؟۔کیا یہ دہشت گردی بھارت اور افغانستان نہیں کروا رہا؟۔ اگر آپ کے وزیر اعظم جب کسی بھی ملک جائیں تو آپ کی طرح کیا وہ بھی وہاں موجود عالمی رہنمائوں سے یہ کہتے ہوئے شرماتے ہیں کہ بھارت اور افغانستان میرے ملک میں دہشت گردی کروا رہاہے۔کیا اس وقت آپ سب کی زبانیں تھتھلانے لگتی ہیں؟۔کیا ایف سی، پولیس ، فوج اور بلوچستان کے مختلف حصوں میں بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک پانچ ہزار سے زائد مارے جانے والے پاکستانی آپ کے اور آپ کے مربی و محسن وزیر اعظم صاحب کے کچھ نہیں لگتے؟۔
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جانتے تھے کہ آج کا موضوع پاناما لیکس کے معاملات ہیں لیکن انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اچکزئی کو اس وقت ٹوکا جب وہ دنیا بھر کے سامنے افواج پاکستان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے یہ پیغام دے چکے تھے کہ دہشت گرد بھارت نہیں افغانستان نہیں، مسلم لیگ نواز کی حکومت نہیں اس کے سائے تلے اقتدار کے مزے لوٹنے والے اسفند یار ولی خان جیسے اتحادی نہیں بلکہ خود پاکستان کی فوج ہے!!اور پھر سب نے دیکھا کہ اچکزئی کی اس تقریر کو بھارت نے اپنے میڈیا اور سفارتی مشنوں کے ذریعے ہماری آستین میں پھلنے پھولنے والوں ان سانپوں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا کر وہ کام کر دکھایا جو وہ کئی سالوں سے بھی مکمل نہیں کر سکا تھا۔ محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر اور چڑیا کے مضمون کی آخری تین سطریں معمولی سمجھ کر ہرگز نظر انداز نہ کیجئے۔ یہ سب تانے بانے پوری پلاننگ سے تیار کئے جا رہے ہیں کیونکہ ان کا دوسرا سرا پاکستان کے انF-16 سے جا ملتا ہے جس کی سپلائی امریکہ نے جان بوجھ کر مختلف حیلوں بہانوں سے روک رکھی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت اور صحافت ہے جو پاناما لیکس کے کرداروں کو سزا دینے پر بھارت اور افغانستان کی جانب سے ممکنہ حملوں سے خوفزدہ کر رہی ہے؟۔کیا ان کی جمہوریت میں لوٹ مار ڈاکہ زنی، منی لانڈرنگ جیسے جرائم کی باز پرس آمریت کا راستہ دکھانے کے مترادف ہے؟۔
کون نہیں جانتا کہ اس وقت سی پیک کے سب سے کٹڑ مخالف‘ حاصل بزنجو، زہری، محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان جیسے لوگ ہیں اور جب مسلم لیگ نواز سمیت محترم شہباز شریف اٹھتے بیٹھتے ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ عمران خان سی پیک کے خلاف ہے‘ ملک کی ترقی کا رستہ روک رہا ہے تو ذرا اپنی ایجنسیوں سے یہ خبر بھی لے لیا کریں کہ راہداری کے اس منصوبے کی در پردہ مخالفت کون کر رہا ہے اور ان کی ڈوریاں ہلانے والے کچھ دور بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں؟۔میں نہیں مانتا کہ سول انٹیلی جنس ایجنسی میں سبھی شریف خاندان کیلئے ہی کام کرنے والے رہ گئے ہیں۔ کہیں نہ کہیں کوئی پاکستانی ضرور چھپا بیٹھا ہو گا جو ہمارے جیسے لوگوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کی بجائے چادروں میں چہرے چھپائے ملک دشمنوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔۔۔ان سے بھی کسی دن پوچھ لیجئے ان کی بات کو بھی کسی دن دھیان سے سننے کی کوشش کریں شائد اس طرح آپ کے اندر کہیں سویا ہوا پاکستانی جاگ جائے۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں