مغربی یو پی کے ایک گائوں فیروز آباد میں شیڈولڈ کاسٹ سے تعلق رکھنے والے بھارت کی پیراملٹری فورس کے سپاہی ویر سنگھ کی آخری رسم ادا کی جا رہی تھی کہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے وہاں پہنچ کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ 26 جون کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پام پور میں کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے جانے والے سپاہی ویر سنگھ کی ارتھی کو فیروز آباد کے انتہا پسند ہندوئوں نے اپنے شمشان گھاٹ میں جلانے کی اجا زت دینے سے انکار کر دیا۔ ان ہندوئوںکا کہنا تھا کہ بے شک سپاہی ویر سنگھ نے ہندو مذہب اور نام اپنا لیا تھا‘ اس کے باوجود ہے تو یہ نیچ ذات اور دلت۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نام بھی انتہاپسند ہندوئوں کے سرخیل پروفیسر بلراج مدھوک کی اس مہم کے دوران رکھا گیا تھا‘ جس میں اس نے اعلان کیا تھا کہ نیچ ذات اور اقلیتوں‘ سب کو اپنے نام تیاگ کر ہندو نام رکھنے ہوں گے۔ ویر سنگھ جیسے دلت سپاہی‘ جو بھارت کے ہندوئوں کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں‘ کی چتائوںکو یہی ہندو جلانے کے لئے اپنے شمشان گھاٹ پر لے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ ہے سیکولر بھارت اور سب سے بڑی جمہوریت کا اصلی چہرہ۔ یہ خبر جیسے ہی پھیلی اسے روکنے کی بہت کوشش کی گئی تاکہ اس سے بھارتی فوج کے اندر بددلی نہ پھیلے لیکن آج کے سیٹلائٹ دور نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے: ''دہلی کے نواحی قصبے میوت کے دو مسلم نوجوانوں‘ رضوان اور مختار کو گائو رکھشا دَل کے غنڈوں نے بد ترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے پر مجبور کر دیا‘‘ یہ اس بھارت کا مکروہ چہرہ ہے جو خود کو دنیا بھر میں سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر کہلاتے ہوئے نہیں تھکتا‘ اور یہ چہرہ پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت میں ہی تیار کئے گئے موبائل فونوں کے کیمروں نے دنیا بھر کے سامنے ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارتی فوج اور اس کے انتہا پسندہندو ئوںکے سیاہ کارناموں کے بارے میں میرے لکھے گئے آرٹیکلز پر پاکستان کے دیسی لبرلز سیخ پا ہو کر میرے خلاف چیخنا چلانا شروع ہو جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہائی کمیشن کے اندر بیٹھے ہوئے ان کے مہربان لوگوں کی زبانیں بھی ان سے پیچھے نہیں رہتیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان سے ڈر کر بھاگ جائوں‘ لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کے کھولے گئے ہر محاذ پر کوئی نہ کوئی پاکستانی ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں موجود ملے گا۔ بہت سے دیسی لبرلز اور این جی اوز کبھی ہیومن رائٹس‘ کبھی خواتین کے حقوق‘ کبھی ماما قدیر تو کبھی مسنگ پرسنز کے نام پر حق نمک ادا کرنے کے لئے اپنے جوہر دکھاتے نظر آ تے ہیں اور کبھی جمہوریت کے غم میں دبلے ہوئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے ان ترقی پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے میڈیا ہائوسز کی زیر نگرانی پھلنے پھولنے والی NGOs کو اپنے ملک کی آنکھ کا تو تنکا بھی نظر آ جاتا ہے‘ لیکن بھارت کی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا اور جب ایسی صورتحال ہو تو پھر کوئی تو ہونا چاہئے جو دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھا سکے۔ عجب تماشا ہے کہ حسین حقانی اور ان کی بیگم فرح ناز اصفہانی بھارت جا کر سیمیناروں اور پریس کانفرنسز میں منہ پھاڑ کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم ہوتا ہے لیکن وہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے شرمناک سلوک کے بارے میں زبان کھولتے ہوئے نہ جانے کیوں ڈرتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان جیسے باخبر گائے کا گوبر کھلائے جانے والی ویڈیو سے لاعلم ہوں؟
حسین حقانی اور ان کی بیگم کی بات چھوڑیں‘ صحافت کے دو درجن سے زائد بورژوا اور ان کے استاد‘ جو اپنے مضامین اور پروگراموں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے جمہوریت کو درپیش خطرات کی پیشگی خبریں دینے والے لوگ ہیں‘ کیا ابھی تک بے خبر ہیں کہ بھارت میں گائو رکھشا دَل کے غنڈوں کی جانب سے دہلی سے ملحق ایک قصبے میوت کے دو مسلمان نوجوانوں کو سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں لہولہان کرنے کے بعد گائے کا گوبر کھانے پر مجبور کر دیا گیا؟ یہ گھٹیا حرکت چھپ چھپا کر نہیں بلکہ کھلے عام سب
کے سامنے کی گئی اور اس کے مکروہ مناظر براہ راست ٹی وی پر بھی دکھائے گئے اور یہ سب نریندر مودی کی اس مسلم دشمن پریس کانفرنس کے فوری بعد کیا گیا۔ جب کسی ملک کا وزیر اعظم ہی اس میں بسنے والی اقلیتوں کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے لگے تو اس کے چیلے چانٹے کس طرح پیچھے رہ سکتے ہیں۔ بھارتی چینلز اور سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی اس قبیح ویڈیو کو بہت سے لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح گائو رکھشا دَل کے غنڈے دو مسلمان نوجوانوں رضوان اور مختار کو مارتے پیٹتے ہانکے لئے جا رہے ہیں‘ اور بازار کی نکر پر کھڑی ہوئی ایک گائے کے پاس لا کر اس کا گوبر انہیں زبردستی کھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ دونوں نوجوان زخموں سے چور تھے۔ ان کے گوبر کھانے سے انکار پر وہاں موجود سارا مجمع پھر انہیں بری طرح پیٹنا شروع ہو جاتا ہے جس سے ان کے منہ اور جسم سے خون کی دھاریں بہنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے کپڑے اتار کر انہیں گائے کے گوبر پر لٹاتے ہوئے انہیں گائے کا پیشاب پینے اور اس کا گوبر کھانے پر مجبور کیا گیا‘ جبکہ گائو رکھشا دَل کے غنڈے ان نوجوانوں کے گرد رقص کرتے ہوئے 'جے ہند‘ اور 'گائو ماتا کی جے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
بھارتی حکومت نے زرمبادلہ کمانے کے لئے اگر بکرے اور گائے کے گوشت کی برآمد کی باقاعدہ اجازت دے رکھی ہے تو پھر اس کا گوشت کھانا جرم کس طرح بنتا ہے؟ یہ کیسا دوغلا پن ہے کہ گائے کے گوشت سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے اپنا خزانہ بھرتے ہیں اور پھر اس کا گوشت کھانے والوں پر زندگی بھی تنگ کر دی جاتی ہے؟ اور اگر گائے کا گوشت برآمد کرنا جرم نہیں تو پھر ڈبوں میں بند گائے کا یہ گوشت ائرپورٹ تک لے جانے والے ٹرانسپورٹروں کا کیا قصور؟ یا تو آپ حکم جاری کر دیں کہ گائے کا گوشت برآمد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی‘ اگر بھارتی حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر ان برآمد کنندگان کو تحفظ دینا بھی اسی کی ذمہ داری بنتی ہے۔۔۔ اور جب نریندر مودی سے گوبر کھلانے والے اس واقعہ کے بارے میں ٹی وی انٹرویو کے دوران سوال کیا گیا تو بے شرمی کی حد دیکھئے کہ انہوں نے الٹا میڈیا پر الزام لگا دیا کہ وہ اس طرح کی خبریں اور ویڈیو دکھا کر اقلیتوں کے ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا: ''دس دن پہلے کے اس واقعہ کو آپ لوگوں نے ہی سر پر اٹھا رکھا ہے۔ اگر آپ اسے سامنے لانے سے گریز کرتے تو آپ کے دیش پر انگلی نہ اٹھتی۔ آپ کو چاہئے کہ آئندہ ایسے واقعات کو ٹیلی کاسٹ مت کیا کریں‘‘۔ یہ اس ملک کے وزیر اعظم کی اس میڈیا سے گفتگو ہے جو دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا نہیں تھکتا۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھنائونا جرم سینکڑوں لوگوں کے سامنے کیا جا رہا ہو اور وہاں موبائل فون کیمروں کی سہولت بھی ہو اور پھر بھی ایسے واقعات کو چھپا لیا جائے۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ نریندر مودی اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کے لئے بھارت بھر میں کیمروں والے موبائل فون پر پابندی لگا دیں!!