تنزیلہ کی ننھی منی سی بیٹی نے دو سال قبل اپنی ماں اور پھوپھو کے کفن میں لپٹے ہوئے جنازوں کو گھر سے اٹھتا ہوا دیکھ کر آسمان کی جانب منہ اٹھا کر اﷲ سے انتہائی بلند آواز میں چیختے ہوئے ایک سوال کیا تھا:'' میری مما کو کیوں مارا؟ میری ماں کا کیا قصور تھا؟ میری پھوپھو کا کیا قصور تھا؟!!جس جس نے بھی اس بچی کی اس چیخ کو سنا وہ چند لمحوں کیلئے اپنی جگہ پر ساکت ہو کر رہ گیا اور آج بھی جب یہ فلم ایک بار پھر سامنے لائی گئی ہے تو بہت سے لوگوں کے یقیناََ رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں گے، لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ا س منظر کو ایک نظر دیکھنے کے بعد آگے کی جانب چل پڑے ہوں گے، شائد یہ سوچ کر کہ یہ معصوم سی بچی نہ جانے کن مقتولوں کی بات کر رہی ہے اور یہ ہم سے تھوڑی مخاطب ہے، بلکہ یہ تو اپنے خدا کو پکار رہی ہے۔ اب وہ بچی جانے اور اس کا خدا جانے یہ ان دونوں کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا ۔
محمد مصطفیٰؐ احمد مجتبیٰؐ کا فرمان ہے'' سچ کا کھل کر اظہار کرو چاہے یہ لوگوں کو تلخ لگے اور ان کی ناراضگی کا سبب بنے‘‘۔ اس لئے بے ساختہ پوچھ رہا ہوں سوال مظاہرین کے دھرنے کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قتل نہیں ہوئے ؟ کیا پنجاب کی پولیس نہیں جانتی کہ تنزیلہ کے پیٹ میں چھ ماہ کا ایک بچہ پرورش پا رہا تھا ؟ حالانکہ دنیا میں بھیجی جانے والی ننھی جان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ'' خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا‘‘ کیا ا س ملک کی کسی عدالت کے جج نے تنزیلہ اور شازیہ کا قتل ہوتے نہیں دیکھا؟ کیا ان تک ان مقتولوں کی ویڈیو فلمیں اور حقائق نہیں پہنچے؟۔ کیا لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان تنزیلہ کی بیٹی کی چیخ و پکار کرتی ہوئی فریادوں سے ابھی تک آگاہ نہیں ہوئے؟۔ جنرل مشرف پر قاتلانہ حملے کرنے والے مجرمان کی پھانسی کی توثیق کرنے والے جنرل راحیل شریف کو ان چودہ افراد کے قاتلوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں؟۔ کیا ان تک اس معصوم بچی کی فریاد نہیں پہنچی؟۔ کیا انہوں نے ان سب مقتولوں کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی؟ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ روز محشر خدا ان سے ان قاتلوں کے بارے میں کچھ نہ پوچھے جس کے یہ سب گواہ ہیں۔۔۔۔ لیکن اگر یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اسے دبانے یا چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں یا اس سے نظریں چرانے کی کوششیں کر رہے ہیں تو پھر یہ سب بھی اﷲ کے ہاں اس کے برابر کے مجرم ہوں گے۔
ہمیںاس سے کوئی غرض نہیں کہ قادری صاحب کا ایجنڈہ کیا ہے؟ اس سے غرض نہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ اگر وہ ان مظلومین کی خواہشات سے کھیل رہے ہیں تو اس کی جتنی سخت سزا اﷲ کے ہاں ان کیلئے ہو گی، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکے گا۔۔۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف قادری صاحب کا معاملہ ہے؟۔اگر قادری صاحب اس کیلئے دھرنا نہ دیں، قادری صاحب اس کیلئے وسائل اور قوت استعمال نہ کریں تو ۔۔۔تو پھر ان چودہ افراد کے قتل کی بات کوئی اور کیوں نہیں کرتا؟ ان کیلئے تحریک کیوں نہیں چلاتا؟۔ یہ معاشرہ اگر خاموش رہے گا تو ایسی صورت میں اس دھرتی پر بوجھ بنے ہوئے لوگ پھر کیوں کہتے پھرتے ہیں کہ یہ ملک لا الہ الااللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا؟ اگر لاشے گرانے پرسب نے زبانیں بند رکھنی ہیں تو پھر اسے اسلامی جمہوریہ کے نام سے کیوں لکھا اور پکارا جاتا ہے؟ ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے جب اسلام آباد ڈی چوک سے اچانک دھرنا اٹھایا تو میرے سمیت بہت سے لکھنے والوں اور دوسرے لوگوں نے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قادری صاحب پرخاصی تنقید بھی کی جس پر قادری صاحب کے دیوانوں کی جانب سے میرے جیسے لوکوں کو بہت کچھ سننا بھی پڑا ۔۔۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کا ایک بار پھر اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں کے ماتھے کی شکنیں دوبارہ ابھر نا شروع ہو گئیں کہ اس بار نہ جانے کونسا ڈرامہ ہونے جا رہا ہے؟سوال یہ ہے کہ یہ جو دو خواتین سمیت چودہ افراد قتل کئے گئے کیا کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتے تھے؟ ان کے ساتھ جن100 افراد کو گولیاں مار کر زندگی بھر کیلئے اپا ہج کیا گیا کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں؟۔کیا ان کو گولیوں سے بھوننے والوں کے خلاف اس ملک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا؟۔
ہر جانب سے کہا جانے لگا کہ قادری صاحب نے تین ارب روپیہ لے کر دھرنا ختم کیا اور نواز حکومت بھی اس خبر کو آگے بڑھاتی رہی تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ قادری صاحب نے چودہ لاشوں کا سودا کر لیا ۔ اگر ایسا ہوا تو نواز حکومت کے وزیر قادری صاحب کی آف شور کمپنیوں کے الزامات تو سامنے لے آئے ہیں تو وہ اس تین ارب روپے کی ڈیل کو سامنے کیوں نہیں لاتے تاکہ اس ملک کے عوام قادری صاحب سے ہمیشہ کیلئے نجات پالیں؟۔ اگر رانا ثنا اﷲ کے بقول قادری فیملی کی آف شور کمپنیاں ہیں تو پھر ان کی حکومت کس مرض کی دوا ہے؟۔ وہ کہاں کے اور کس بات کے وزیر قانون ہیں؟ ان کے لیڈر شہباز شریف کیا برائے نام وزیر اعلیٰ ہیں؟ کیا ان کے بڑے لیڈر میاں نواز شریف دکھاوے کے وزیر اعظم ہیں؟۔ یہ سب لوگ مل کر قادری صاحب کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟۔ پولیس آپ کی، ایف آئی اے آپ کی، نیب آپ کی اور خیر سے سب عدالتیں آپ کی اور صرف آپ کی ہیںتو انہیں قانون کے کٹہرے میں لائیں۔۔۔دیر نہ کریں!!
1947ء سے ہم کشمیر کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں دنیا کا کونسا دروازہ ہے جو پاکستان نے نہیں کھٹکھٹایا؟ 1948ء سے لے کر1999ء تک کشمیر کیلئے ہماری بھارت سے پانچ خونی جنگیں ہو چکی ہیں، جس میں بے تحاشا جانی و مالی قربانیاں دینا پڑیں لیکن اس کے با وجود کشمیر کا معاملہ وہیں کا وہیں ہے اور اب تو کئی سالوں سے
سب نے ایک عجب سی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سوائے ان کشمیریوں کی آوازوں اور قیدو بند کی صعوبتوں کے جن پر بھارتی درندے ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔۔۔تو کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بیچ کر کھا گیا ہے؟ پاکستان نے بھی کشمیر کا سودا کر لیا ہے؟۔اگر کسی کی یہ سوچ ہے بھی تو وہ لوگ جن کے پیارے شہید ہوئے ہیں اور اب تک شہید ہو رہے ہیں وہ کبھی بھی بھارت سے کشمیر کا سودا نہیں کریں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعت کے لوگ اپنے چودہ شہداء سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے، وہ زندگی بھر کیلئے اپاہج ہونے والے اپنے جا نثار ساتھیوں کے ضائع ہو جانے والے اعضا کا سودا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔۔اور اگر وہ ایسا کرنا بھی چاہیں تو پھر بھی وہ نہیں کر سکیں گے، کیونکہ قانون اس کی ا جا زت نہیں دیتا ۔۔ابھی چند روز پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ نواز کے گجرات سے رکن قومی اسمبلی عابد رضا کے خلاف دہشت گردی کی عدالت سے سیکشن سات کے تحت سنائی جانے والی سزا کے خلاف راضی نامہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ مقدمہ واپس لاہور ہائیکورٹ بھیجتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اس کیلئے ایک لارجر بنچ تشکیل دیتے ہوئے تین ماہ کے اندر اس کی سماعت کی جائے۔اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قادری صاحب اگر ان چودہ ہلاکتوں کے ملزمان سے صلح یا کوئی لین دین کرنا بھی چاہیں تو قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا، کیونکہ عوامی تحریک کا استغاثہ دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہے۔