"MABC" (space) message & send to 7575

گھر کی مرغی دال برابر

ہمارے ملک میں مہنگائی کا گراف ہمیشہ عوام کی قوت خرید سے اونچا رہا ہے؛ چنانچہ لوگوں کی جانب سے جب بھی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا رونا رویا جاتا ہے مجھے دو فقرے یاد آ جاتے ہیں: ''روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائو‘‘ اور ''دال نہیں ملتی تو مرغی کھائو‘‘ اس میں سے پہلا فقرہ 1790ء میں ملکہء عالیہ فرانس نے اپنے محل کے باہر ہزاروں کی تعداد میں کھڑے ہوئے بھوکے فرانسیسی عوام کو مخاطب کرکے بولا تھا‘ اور دوسرا فقرہ 2016ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان پر فائز حکمران خاندان کے ایک فرد‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر سرکاری ٹی وی کے ذریعے پاکستانی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گھر گھر میں بجلی پہنچانے کی خوشخبریاں سنائی تھیں۔ اب ان کی دیکھا دیکھی مسلم لیگ نواز کی حکومت نے بھی ہر گھر میں مرغی پہنچانے کا مژدہ سنا دیا ہے اور وہ بھی کسی چھوٹے موٹے وزیر‘ مشیر کی زبان سے نہیں بلکہ جناب اسحاق ڈار کی زبان مبارک سے۔ اگر اب بھی پاکستان کا کوئی شہری حکمرانوں کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تو اس کی مرضی ورنہ کون ہے جو ''گھر کی مرغی کو دال برابر لے آئے‘‘۔ ڈار صاحب کا یہ اعلان بہت بڑے جگرے کی بات ہے یا پھر ہو سکتا ہے کہ کسی بڑے جھگڑے کی جانب اشارہ ہو‘ کیونکہ یہ اعلان ایسا ہی تھا‘ جیسے سونا‘ چاندی کے بھائو بیچا جانے لگے۔ 
گھر کی مرغی کے دال برابر ہونے کا طعنہ کہیں لکھا ہوا دیکھنے یا کہیں سننے کا جب بھی اتفاق ہوتا تو کچھ عجیب سا لگتا کہ مرغی مرغی ہوتی ہے‘ چاہے گھر کی ہو یا بازار کی‘ پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر اور یہ کہاوت کوئی آج کی یا دس پندرہ سال پرانی بھی نہیں بلکہ بچپن سے یہ لفظ سنتے آ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے باشعور ہونے سے بھی پہلے سے گھر کی مرغیوں کا درجہ مخالفین یا حاسدین کی جانب سے دال برابر کر دیا گیا تھا؛ تاہم ہم نے جب بھی مرغی پر ہاتھ رکھا‘ اس کا ذائقہ دال جیسا کبھی نہیں لگا۔ جب کسی ملک کے بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان کی جانب سے الزامات لگائے جائیں کہ ملک کی معیشت کا یہ حال ہو چکا ہے کہ وہ غریب جو دال کھا کر گزارا کیا کرتے تھے وہ اب دال بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ عام سی دال کی قیمت بھی مارکیٹ میں ڈیڑھ سو روپے سے اوپر ہے اور یہ روز بروز غریب کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے‘ تو اپوزیشن کے فضول سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے جناب اسحاق ڈار یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ پنجاب کے رمضان بازاروں میں جا 
کر دیکھیں جہاں یہ دال ہو سکتا ہے کہ ڈیڑھ سو سے کم میں مل رہی ہو‘ لیکن انہوں نے پنجاب حکومت کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے بجائے ایک جانب جہاں غریب عوام کو خوش کیا‘ وہاں ساتھ ہی ''کسی کی تجوریوں‘‘ پر لات مارتے ہوئے بہت ہی پُرجوش اور خوبصورت الفاظ میں اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اگر یہ غریب لوگ دال نہیں خرید سکتے تو وہ مرغیاں کھائیں جس میں طاقت بھی ہے اور ذائقہ بھی۔ اس اعلان کو اگرچہ کئی ہفتے گزر چکے ہیں‘ لیکن مہنگائی کی طرح اس کا ذائقہ تاحال برقرار ہے۔ سننے میں آیا کہ اس بیان پر مرغیوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں دال کے برابر قرار دے کر ان کی توہین کی گئی ہے۔ مرغیوں نے استاد گوگا دانشور سے جب ڈار صاحب کے اس بیان پر ان کو عدالت میں لانے کا مشورہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر مرغیوں کو چپ کرا دیا کہ آپ کے بارے میں نہیں بلکہ گھر کی مرغیوں کے بارے میں بات کی گئی ہے‘ جو دال برابر ہوتی ہیں۔ اور اگر آپ عدالت چلی بھی گئیں تو کیا آپ کو اعتزاز احسن کی وہ بات بھول گئی کہ بادشاہوںکے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔
لگتا ہے کہ جناب اسحاق ڈار نے یہ دل خوش کن بیان دے کر ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ ان کے بیان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مرغی کو دال کے برا بر کرنے کا پالیسی بیان ''لندن یاترا‘‘ کے بعد دیا۔ اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ یہ بیان ڈار صاحب کا اپنا نہیں بلکہ کسی اور نے انہیں یہ بیان دینے کو کہا ہو گا۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ مرغیوں اور انڈوں کا کاروبار زید کا ہے اور بکر کا اس سے کسی بھی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ اس لئے اب یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ زید مرغیوں کے کاروبار میں ڈھیروں پیسہ کمائے‘ اور اس کا انہوں نے ایک ہی طریقہ سوچا کہ دال اور مرغی کو ایک قیمت پر لا کر مرغی کے نام پر حاصل کیا جانے والا ہفتہ وار منافع ہی کم کر دیا جائے اور ساتھ ہی اس کی لذت کو بھی بے مزہ کر دیا جائے کہ مرغی کھاتے ہوئے سب کے ذہن میں یہی دھیان رہے کہ مرغی نہیں بلکہ دال کھائی جا رہی ہے۔
ممکن ہے آپ کو یاد ہو کہ جب پنجاب میں ٹماٹر ملنا تو کجا دکھنے بھی بند ہو گئے تھے تو کچھ اسی طرح کا بیان اس وقت بھی دیا گیا تھا اور عوام کو نصیحت کی گئی تھی کہ اگر ''ٹماٹر نہیں مل رہے تو دہی سے کام چلائو‘‘ اس وقت بھی لوگ یہ نصیحت سن کر عش عش کر اٹھے تھے کہ دیکھو خدا نے پاکستان نامی ملک پر کس قدر احسان کیا ہے‘ جو اس نے شریف قسم کے لوگوں کو اس پر مسلط کر دیا ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو کبھی دھرنوں‘ تو کبھی قصاص کے نام سے قوم کو سڑکوں پر لانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
مجھے ڈر ہے کہ یہ پاکستانی قوم مرغیاں کھا کھا کر کچھ دنوں میں تنگ آ جائے گی اور یہ کہنا شروع کر دے گی کہ انہیں پھر سے دال بھات ہی کھانا ہیں۔ وہ کیسے بھول پائیں گے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہی نہیں بلکہ دال جیسی ہی ہوتی ہے۔ اب ایسی قوم کے غریبوں کو مرغی کھانے کے مختلف طریقے بھی بتانے ہوں گے اور اس کے لئے حکومت میں کسی خاتون شیف کو مشیر چکن اور کچن مقرر کر دیا جائے تو امید ہے کہ اس سے کافی آسانی ہو جائے گی اور وہ مرغی کے سالن کی مختلف قسموں کے علا وہ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے مرغی میں کریلے، مرغی کے تکے، کباب، لیگ پیس، ملائی بوٹی اور اسی طرح کی مرغی سے تیارکردہ بہت سی نت نئی ڈشیں پکانے اور غریب عوام کو انہیں کھانے کی جانب مائل کر سکیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں