"MABC" (space) message & send to 7575

حکومت پاکستان کی جیت

تاریخ بتاتی ہے کہ آزاد کشمیر کا الیکشن کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ ہمیشہ حکومت پاکستان نے جیتا ہے اگر کسی کو شک ہے تو وہ اسے اس طرح دیکھ لے کہ جب پی پی پی اپنے گزشتہ دور اقتدار میں منہ چھپاتی پھرتی تھی تو اس نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں28 نشستیں جیت کر کامیابی حاصل کی تھی اور اب جب ہر جانب پاناما لیکس کا سکہ بند شور ہے تو نواز لیگ نے32 نشستیں جیت لی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسی کرامات پر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ32 نشستوں پر کامیاب ہونے والی مسلم لیگ نون نے کل6لاکھ89ہزار ووٹ حاصل کئے اور صرف دو نشستوں پر کامیاب ہونے والی تحریک انصاف نے2لاکھ10ہزار ووٹ حاصل کئے اور دو نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی نے 3لاکھ52ہزارووٹ حاصل کئے۔۔۔تحریک انصاف نے پشاور اور لاہور کی جن دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ان دونوں کے مجموعی ووٹ دوہزار بنتے ہیں اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ چار لاکھ کے قریب ووٹ اس نے آزاد کشمیر سے حاصل کئے کیونکہ بہت سی نشستوں پر اس کا مسلم کانفرنس سے اتحاد تھا جس نے تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور یہی صورت حال پیپلز پارٹی کی ہے کہ ایک نشست اس نے کراچی اور ایک آزاد کشمیر سے جیتی ہے۔ مسلم لیگ نواز اپنے بے تحاشا سرمائے اور وفاقی اور پنجاب حکومت کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وسیلہ حق اور وسیلہ 
روزگار کیلئے فی فرد لاکھوں روپے کی ناقابل واپسی امداد کے عوض دو تہائی اکثریت حاصل کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے انتخابی معرکے میں حکومت پاکستان شاندار کامیابی سے ہمکنار ہو گئی ہے ۔ اس جیت کو جشن کی صورت میں منانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ وہ اسلام ّباد پہنچنے کے ساتھ ہی اندرون ملک اور بیرون ملک کچھ طاقتوں تک یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ بقول مولانا فضل الرحمن پاناما لیکس جیسی بین الاقوامی سازش کے با وجود پاکستان کے عوام نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس اور مظفر آباد کا بائیس جولائی کا جلسہ انہوں نے رائے ونڈ سے اسلام آباد آنے سے پہلے ہی طے کر لیا تھا تاکہ جاننے والے جان لیں کہ انہیں بھر پور عوامی حمایت حاصل ہے اور یہی وجہ تھی کہ مظفر آباد کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے وہ وفور جذبات سے کہہ اٹھے کہ ''آزاد کشمیر والو تم نے مجھے خوش کر دیا ہے‘‘وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دوران جلسہ عمران خان کا نام لئے بغیر پر طنز کرتے ہوئے اپنی دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا دھرنا دینے والوں کو صرف دو نشستیں مل سکی ہیں جیسے یہ دو نشستیں ہیں اسی طرح کا ان کا دھرنا ہو گا ۔۔۔اب کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنی دو انگلیوں کو دھرنے والوں سے تشبیہ دیتے ہوئے جس طرح دکھایا ہے اس سے تو وکٹری کا نشان بنتا ہے؟۔
آزاد کشمیر کے اس الیکشن سے کوئی دو دن پہلے کے پی کے سے ان کے اپنے ہی منتخب اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی جانب سے ایک فرنٹ بننے کی خبریں میڈیا پر بے تحاشا اچھالی گئیں جن سے ایسا لگ رہا تھا کہ اب ان کی کے پی کے کی حکومت نواز لیگ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف کے اس باغی فرنٹ کے ذریعے ختم ہونے ہی والی ہے ۔یہ پیغام ان ووٹروں اور سیا سی دھڑوں کیلئے تھا جو اپنے حلقہ انتخاب میں اثر رکھتے ہیں ۔عمران خان کے ساتھ ایک دوسرا ہاتھ جماعت اسلامی کی پنجاب قیا دت نے بڑی خوبی سے دکھایا۔ نہ جانے عمران خان اور اس کی جماعت کو کب یقین آئے گا کہ جماعت اسلامی کبھی ان کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔ ایک جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق میاں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف جگہ جگہ تقریریں کرتے ہیں کبھی کراچی سے پشاور تک کرپشن کے خلاف کارواں کی قیا دت 
کرتے ہوئے ٹرین مارچ کرتے ہیں لیکن جیسے ہی کسی انتخاب کا مرحلہ آتاہے تو بھاگ کر میاں نواز شریف کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ نہ جانے یہ کیسا جہاد ہے جس کو انہوں نے اپنا ماٹو بنا رکھا ہے موصوف انتخابی تقریروں میں کہتے رہے کہ آزاد کشمیر میں نواز شریف کے ساتھ مل کر کرپشن کے خلاف جہاد کروں گا؟ ؟۔۔۔خیبر پختونخوا میں جہاں وہ عمران خان کے اتحادی ہوتے ہوئے حکومت کا باقاعدہ حصہ ہیں وہاں کی ایک نشست کیلئے انہوں نے میاں نواز شریف سے اتحاد کرتے ہوئے اپنے امیدوار عبد الباری ایڈووکیٹ کو تحریک انصاف کے مقابلے میں انتخاب کیلئے کھڑا کیا اور اس کی مدد کیلئے مولانا فضل الرحمن، جمعیت اہل حدیث، اسفند یار ولی خان گروپ، آفتاب شیر پائو اور مسلم لیگ نواز کا پانچ جماعتی اتحاد تھا لیکن پانچ جماعتوں کے اس اتحاد کو پشاور میں تحریک انصاف کے عبد الماجد خان نے شکست دے دی اس طرح تحریک انصاف نے کے پی کے میں تو اپنی مقبولیت ثابت کر دی لیکن جماعت اسلامی کے ہاتھ کیا آیا؟۔ کیا یہ طرز عمل جماعت اسلامی کیلئے شرمندگی کا با عث نہیں بنا؟۔ کیا اس طرح جماعت اسلامی نے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا؟۔تحریک انصاف پران کامزید ستم دیکھئے کہ پورے آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی نے نواز لیگ سے اتحاد کرتے ہوئے اپنے جو امیدوار کھڑے کئے وہ کئی نشستوں پر اپنی ضمانتیںضبط کروا بیٹھے کیونکہ مسلم لیگ نواز نے ان حلقوں میں بجائے جماعت اسلامی کے امیدواروں کی حمایت کرنے کے ان حلقوں کے آزاد امیدواروں کی حمایت کی اور اس طرح جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے ان انتخابات میں ایک نشست بھی حاصل کرنے سے قاصر رہی اگر جماعت اسلامی کے پی کے حکومت میں شریک ہونے کے ناتے تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی تحاد کرتی تو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی مل کر کم از کم دس سے بارہ نشستیں مزید حاصل کر سکتے تھے لیکن اس کی روک تھام کیلئے میاں شہباز شریف کے ذریعے پنجابی قیا دت کو ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ ملایا جا چکا تھا جنہوں نے جماعت اسلامی کی عزت اوروقار کی بجائے اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ شوریٰ کے اجلاس میں کارکنوں اور شکست کھانے والے امیدواروں کی جانب سے جماعت اسلامی کی پنجاب قیا دت سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ کے اس فیصلے سے جماعت کو '' نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ البتہ ہاں آپ کومیاں نواز شریف کی آشیر باد ضرور مل گئی ہے جو آنے والے انتخابات میں لاہور کی قومی اور صوبائی دو نشستوں کی خیرات دینے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔
جھگڑالو عورتیں اور ان کے بچے ہمسایوں سے لڑائی میں اس قدر بد زبانی کرتی ہیں کہ خدا کی پناہ اور جب گلی محلے کے لوگ ان سب کو چپ کرا دیتے ہیں تو پھر اچانک کہیں سے خاندان کا سربراہ سامنے آجاتا ہے اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اونچی اونچی آواز میں کہنا شروع ہو جاتا ہے کہ آپ میں سے کبھی کسی نے میرے منہ سے کوئی غلط بات سنی ہے میں نے کسی کو گالی دی ہے؟ یہی حال برسر اقتدار سیاستدانوں کا ہے۔وہ بھی خود سامنے نہیں آتے لیکن کسی اور سے وہی کچھ کہلوا دیتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں