مشکل سے ہی یقین آئے گا کہ پاکستان کو واپڈا کے انتہائی تین اعلیٰ افسران سمیت سات لوگوں کی ملی بھگت سے اب تک گیارہ ارب کا نقصان ہوچکا ہے اور مزید20 ارب کا نقصان پہنچ رہا ہے غضب خدا کا 108MWبجلی پیدا کرنے والا گولن گول چترال ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جس کا2011ء میںآغاز ہوا تھا اور جسے 31 جنوری 2015ء کو مکمل ہو جا نا چاہئے تھا ابھی تک چالیس فیصد کام مکمل ہوسکا ہے اور جس کیلئے ابتدائی تخمینہ7.035 بلین روپے لگایا گیاتھا 37-38 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اس پراجیکٹ کی منزل وہیں کی وہیں ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ2018ء تک بھی مکمل ہو جائے تو بہت بڑی بات ہو گی چند واقفان حال کا کہنا تو یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے کچھ منصوبے تو جان بوجھ کر اس لئے2018ء کے شروع تک لٹکائے جا رہے ہیں کہ اس طرح انتخابات سے فوری پہلے عوام کو افتتاحی تقریروں کے ذریعے بتایا جائے گا کہ دیکھو ہم نے کتنی بجلی پیدا کر دی ہے ۔رہے ان منصوبوں کے لاگتی تخمینے اور اخراجات تو اسی طریقے سے مزید مال ہاتھ آتا ہے کیونکہ سیا سی قیا دت کا دبائو بڑھ جاتا ہے کہ جیسے بھی ہو اسے جلد از جلد مکمل کرو اور اس دھما چوکڑی میںاس قسم کی لوٹ مار کی کسی کو خبر بھی ہوتی ۔ اگر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچا جائے تو خدا جانے چترال کے اس گولن گول پاور پراجیکٹ کی تکمیل ہونے تک ملک عزیز کے غریب عوام کا کتنے کھرب روپیہ مختلف جیبوں میں چلا جائے گا؟۔ پاکستان کے90 فیصد عوام کو چترال گولن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے نام کے بارے میں علم ہی نہیں ہو گا اور اسی طرح کے گم نام قسم کے نہ جانے کتنے منصوبوں سے ملک کا اربوں روپیہ لوٹ کر دوبئی اور دنیا بھر کے ممالک میں قیمتی جائدادیں خریدنے کے کام آرہا ہے۔اور ہم عوام کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ میں جلنے بھجنے کے بعد بھی انہی لٹیرے قسم کے کے لیڈران کے نام پر ٹھپے پر ٹھپے لگاتے چلے جاتے ہیں ۔
چترال گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے تیار کی جانے والی سرنگ کا جائزہ لیں تو اب تک اس کے صرف49 فیصد حصے کا کام مکمل ہوا ہے جبکہ کنٹریکٹ میں اس کی تکمیل کیلئے31 جنوری2015ء کی تاریخ طے کی گئی تھی اب اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ہائیڈل پاور منصوبے کیلئے سرنگ بنیا دی حیثیت رکھتی ہے اور 2011ء سے 2016ء تک پانچ سال بعد بھی اس کا انچاس فیصد کام ہی مکمل ہو سکا ہے اور باقی اکاون فیصد کیلئے مزید چھ سال انتظار کرنا ہو گا۔اسی طرح اس ہائیڈل پاور پراجیکٹ کیلئے پاور ہائوس کی ضرورت ہوتی ہے جسے کنٹریکٹ کے مطا بق 3 دسمبر2014ء تک مکمل ہونا تھا اس پر بھی کام کی رفتار یہ ہے کہ اب تک صرف انچاس فیصد کام بھی پوری طرح مکمل نہیں کیا جا سکا اور اس کیلئے درکار آلات کی بین الاقوامی مارکیٹ میں دن بدن بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بہانہ بنایا جا رہا ہے اور نہ جانے پانچ سال بعد ان کی لاگت کہاں تک پہنچ جائے گی۔ان دو کاموں کے بعد اس پراجیکٹ کے دوسرے اہم ترین مرحلوں کی طرف نظر دوڑائیں تو کچھ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں مثلاًESM WORKS
جسے18 جون 2016ء میں مکمل ہونا تھا اس کا صرف اور صرف15 فیصد ہی مکمل کیا جا سکا ہے۔۔۔ ٹرانسمشن لائنوں کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا صرف چودہ فیصد کام مکمل ہوا ہے جبکہ اسے گولن گول چترال سے چوکیاتن اپر دیر جس کا فاصلہ 113کلومیٹر ہے اور اسے معاہدے کے مطا بق10 اپریل2016ء کو مکمل ہونا تھا لیکن جیسا کہ پہلے لکھا ہے اس کا صرف ابتدائی کام ہی مکمل کیا جا سکا ہے اور اس کی وجہ ہماری وزارت پانی و بجلی اور واپڈا حکام اور کنسلٹنٹ ہی بتا سکتے ہیں جنہیں شاید بھول چکا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے گولن پراجیکٹ کی سائٹ پر کھڑے ہو کر اس منصوبے کو ہر حالت میںاکتوبر2017ء تک مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم کیلئے کیا اورنج ٹرین سب سے پہلی ترجیح ہو تی ہے یا گھروں، فیکٹریوں، دکانوں اور مارکیٹوں کیلئے روشنی کرنے کیلئے بجلی؟۔کیا ہمیں میٹرو بس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے یا گرمیوں میں پنکھے کی ہلکی سی ہوا کیلئے ترستے اور بلکتے ہسپتالوں میں لیٹے ہوئے مریضوں کیلئے توانائی کی۔ملک بھر کی شاہراہیں اور سڑکیں شام ہوتے ہی اندھیروں میں ڈوب جاتی ہیں جن کیلئے جگہ جگہ روشنی کی ضرورت ہے لیکن ملک کے تمام وسائل اور توجہ میٹرو بسوں پر ضائع کیئے جا رہے ہیں۔
دل تھا م کر بیٹھئے کہ چترال گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے ٹرانسمشن لائن بچھانے کے دوسرے مرحلے کا ابھی تک صرف 0.65 فیصد کام مکمل ہوسکا ہے جو چوکیاتن اپر دیر سے چکدرہ لوئر دیر تک 198 کلومیٹر طویل ہے یہ لائن بارہ ستمبر2016ء تک مکمل ہونی تھی لیکن اس کا ابھی تک 0.65 فیصد کام مکمل ہوا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی لاوارث ملک کا منصوبہ ہے جس کیلئے بیرون ملک سے بلائے گئے جارج نامی ایک شخص کو پچاس لاکھ روپے ماہانہ پر انچارج بنا کر بٹھایا گیا ہے اگر چھ سالوں کے بارہ مہینوں کو پچاس لاکھ سے ضرب دی جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اب تک صرف ایک شخص کیلئے اس قوم کا اور ہمارا کتنا لہو نچوڑا جا چکا ہے اور اگلے پانچ سال کی تنخواہ الگ ہے ؟۔ملک کے ہر وسیلے کو لوٹنے والوں کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں اگر نندی پور کے ذمہ داروں کو قانون اور انصاف کے فلمی اور ڈرامائی کٹہرے میں کسی نقلی جج کے سامنے نہیں بلکہ اصلی جج اور اصلی کٹہرے میں لے آیا جاتا توپھر کسی دوسرے کو گولن گول چترال کی ایک پائی لوٹنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔ اب تو کوئی شک رہا ہی نہیں کہ پاکستان کی ہر سرکاری عمارت جو پاکستان پر لادے گئے قرضوں اور عوام کے ٹیکسوں سے تعلق رکھتی ہے کسی نہ کسی پاناما لیکس میں لتھڑی ہوئی ہے جس طرف دیکھیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے جس کی حدت سے یہ ملک ہے کہ دن بدن پگھلتا ہی جا رہا ہے۔
گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی مجموعی طور پر 311 کلومیٹر طویل دونوں ٹرانسمشن لائنوں کا ٹھیکہ Wapdaنے NetraCon کمپنی کو دیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ صاحب واپڈا کے ہی ایک ریٹائرڈ ایکسین ہیں( نام نہیں لکھ رہا) پاور پراجیکٹ سے متعلقہ ٹرانسمشن لائن کو عالمی معیار کے مطا بق تیار کرنے کیلئے سافٹ ویئر پروگرام کی مدد حاصل نہیں کی گئی جس سے یہ پچاس سال تک بروئے کار لائی جا سکتی ہے ۔غیر معیاری اور Sub standard ڈیزائن کی وجہ سے ہی اس کی تکمیل میں تاخیر اور لاگت میں 38 فیصد تک کا ا ضافہ ہوا۔ پہلی 113کلومیٹر ٹرانسمشن لائن جو گولن سے چوکیتن تک پہنچانی تھی اس پر آنے والی لاگت 38 فیصد کے حساب سے1.343 بلین اور دوسری 198 کلومیٹر طویل ٹرانسمشن جو چوکیتن سے لوئر دیر تک پہنچائی جانی ہے یہ17 فیصد کے حساب سے0.25 بلین روپے بڑھ جائے گی۔۔۔شرمناک بات یہ ہے کہ وہ ٹاور جو ان لائنوں کیلئے زمین پر نصب کئے جانے تھے ان کا کہیں بھی نام و نشان نظر نہیں آ رہا۔
اس پراجیکٹ کیلئے مستعار لئے گئے پراجیکٹ منیجر اور کنسلٹنٹ اس کام کیلئے درکار اہلیت ہی نہیں رکھتے نہ جانے فچنر کنسلٹنٹ کے کنٹری Rep. اور چیف ایگزیکٹوپاکستان انڈسٹریل ٹریڈنگ کارپوریشن کے عثمان حمید ملک نے کیا خوبی دیکھ کر جارج نامی اس شخص کو پراجیکٹ منیجر تعینات کیا ہے؟۔ اس بارے بہت سی باتیں سننے میں آ رہی ہیں کیونکہ جارج نامی یہ پراجیکٹ منیجرمختلف قسم کے حیلوں بہانوں سے اس پراجیکٹ میں تاخیر کا باعث بن رہا ہے تاکہ اس کی لاگت مزید بڑھائی جا سکے۔۔۔!!