ایک تصویر میں سولہ سترہ سال کی کشمیرکی معصوم صورت مسلمان بیٹی ایک بھارتی فوجی کے قدموں میں بیٹھی زارو قطار روتی دکھائی دے رہی ہے۔کشمیر کی اس بیٹی نے بھارتی فوجی کے دونوں پائوں اپنے نرم و نازک ہاتھوں میں مضبوطی سے پکٖڑے ہوئے ہیں اور اپنے چہرے پر بے بسی اور رحم کی چادر اوڑھے زار و قطار روتے ہوئے اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر اس بھارتی فوجی سے رحم کی بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہے۔ اس معصوم لڑکی کے چہرے پر ابھرے بے بسی اور بے کسی کے تاثرات چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ کشمیر کس قدر بے بس ہے، کس قدر پابند سلاسل ہے، کس قدر مجبور اور مظلوم ہے! یہ تصویر دیکھتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ انسانیت شیطنت کے دربار میں محکوم بنی بیٹھی ہے۔ دوسری تصویر کی جانب جیسے ہی نظر اٹھتی ہے، جذبات آگ کا گولہ بن کر ابلنے لگتے ہیں۔ میرا بلڈ پریشراس قدر بلند ہو جاتا ہے کہ لگتا ہے کہیں دماغ کی نسیں نہ پھٹ جائیں۔ اس لئے اس تصویر کی جانب نظریں اٹھاتے ہوئے رک سا جاتا ہوں۔ آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ اس تصویر میں ایسی کون سی بات ہے جس نے مجھ جیسے ایک عام سے لکھاری کو بھی آگ کے گولے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس تصویر میں ایک مسلمان کشمیری خاتون کو دو بھارتی فوجیوں نے اس طرح اپنے بازوئوں میں جکڑا ہوا ہے کہ ایک فوجی کا ہاتھ اس عورت کے سینے پر اور دوسرا ہاتھ اس کے جسم کے نچلے حصے پر مضبوطی سے رکھا ہوا ہے، جس سے اس کے جسم کے کچھ حصے برہنہ ہو نے ہو گئے ہیں۔ یہ عورت ہاتھ پائوں مارتی دکھائی دیتی ہے، لیکن دو بھارتی فوجیوں نے اسے مضبوطی اور انتہائی بے شرمی سے جکڑا ہوا ہے۔ یہ تصویر دیکھنے سے لگتا ہے مقبوضہ جموں و کشمیر محکوم ہی نہیں ننگا بھی ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر نہیں بلکہ ایسا میدان جنگ ہے جہاں کی شکست خوردہ قوم کی عورتوںکو مال غنیمت سمجھ کر گھسیٹا جا رہا ہے۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دو تصویریں آپ میں سے بھی بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ضرور دیکھی ہوںگی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ تصویریں ہمارے میڈیا کی ہر سکرین پر بار بار نظر آتیں، لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ابھی تک یہ سوشل میڈیا سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ یہ دو تصویریں کیا ہیں؟ دو ایسے تھپڑ ہیں جن کے نشانات میرے جیسے ہر پاکستانی کے چہرے پر ثبت ہو چکے ہیں۔ یہ دو تصویریں زہر میں بجھے ہوئے دو ایسے خنجر ہیں جو پاکستانی قوم کی غیرت و حمیت کی کمر میں گھونپ دیے گئے ہیں۔ ان دو تصویروں کو دیکھنے کے بعد کارگل میں جنرل مشرف کی کارروائی دل کو بہت بھائی کہ کوئی تو تھا جس نے کشمیر کی بیٹیوں کو ذلت آمیز زندگی سے نکالنے کی ایک کوشش تو کی۔ کاش! کارگل پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے فوج کے ہاتھ نہ باندھے جاتے، جتنی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ پاکستانی قوم دے چکی ہے اس سے بہت ہی کم قربانی کے بدلے سیاچن تک بھارتی رسد کٹ جانی تھی اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو سکتا تھا۔
معصوم صورت کشمیری لڑکی اور جوان عورت کی بھارتی فوجیوں کے قدموں اور ہاتھوں میں بے کسی کی تصویریں دیکھنے کے بعد تحریک پاکستان کے نامور کارکن مرحوم فرخ ملک کی کتاب کا ایک باب سامنے آ گیا، جس میں وہ پاکستان بننے کے بعد مسلمان مغویہ خواتین کی بازیابی کے محکمے کے سربراہ شیخ صادق حسن کی ہدایت پر امرتسر گئے جہاں پاک فوج کی جانب سے پہلے ہی ایک کیمپ لگا ہوا تھا۔ وہ پاک فوج کے کیپٹن اصغر علی کے ہمراہ ''ولے ویرکا‘‘ گائوں پہنچے اور اس گائوں سے جو لڑکیاں بر آمد کیں ان کی حالت دیکھ کر فوج کے جوانوں نے رونا شروع کر دیا۔ بہت سوں نے قے کرنی شروع کر دی، کچھ خواتین نے انہیں گالیاں دیں کہ پہلے ہمیں کیوں چھوڑ گئے، اب ہم لاشوںکو لینے آ گئے ہو۔ ان کی تعداد پچاس کے قریب تھی، بہت سی عورتیں روتی، چیختی دوڑ کر یہ کہتے ہوئے ان کے گلے لگ گئیںکہ''اسیں دعاواں منگدیاں ساں، شکر اے رب دا اوس نے ساڈے بھرا بھیج دتے نیں‘‘۔دوسرے دن امرتسر کے نواحی علا قے کی میں مغوی خواتین کی مخبر ہوئی۔ جب فرخ ملک بلوچ رجمنٹ کے جوانوں کے ساتھ وہاں پہنچے تو ایک گلی میں سے گزرتے ہوئے انہیں گھروں کے دروازوں کے باہر بیٹھی ہوئی چند مسلمان عورتیں نظر آئیں۔ ان عورتوں کو جب پتا چلا کہ پاکستان سے یہ لوگ مغوی خواتین کو لینے کے لئے آئے ہیں تو ان انہوں نے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ فرخ ملک مرحوم لکھتے ہیں کہ جب ہم واپس مڑے تو ہمارے کانوں میں ان عورتوں کی آواز آئی: ''دلے ناں ہوون کسے تھاں دے‘‘۔
ایسا لگا کہ یہ الفاظ نہیں بلکہ کسی نے ہمارے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہے۔ ان چھ لفظوں میں ان پاکستانی عورتوں نے وہ طعنہ دیا تھا جس کی کسک اور شدت وہی جان سکتا ہے جس میں غیرت و حمیت زندہ ہو۔ فرخ ملک مرحوم نے لکھا کہ آج بھی جب یہ فقرہ کانوں میں گونجتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ کوئی دھڑا دھڑ ہمارے چہروں پر تھپڑ مار رہا ہے۔ ان عورتوں کا کہا جانے والا یہ فقرہ اگرچہ صرف چھ الفاظ پر مشتمل ہے، لیکن یہ اپنے اندر وہ پیغام لیے ہوئے ہے جس کی کسک اور حرمت صرف وہی جان سکتے ہیں جن کے اندر کا معمولی سا مسلمان زندہ ہے۔ اگر قران پاک اٹھا کر دیکھیں اور اس کی ایک ایک سطر کو پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس وقت بھی کئی ایسے لوگ تھے جو نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیات میں ہی مختلف حیلے بہانے کرتے ہوئے
جہاد پر جانے سے کترایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں باری تعالیٰ کی جانب سے فوراً وحی بھیج دی جاتی تھی جس میں ایسے لوگوں کے لئے سخت سزا کی وعید ہوتی تھی۔ اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اﷲکا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔
بھارت میں اغوا کی جانے والی مسلمان عورتوں کی بازیابی کے لئے گئے ہوئے ادارے کے لوگ اس فقرے کو سننے کے بعد شرم سے پانی پانی ہو گئے تھے، ان کے قدم اٹھ نہیں پا رہے تھے، انہیں خود سے اتنی شرم آنے لگی کہ کہ وہ مڑ کر ان عورتوںکی جانب دیکھنے کی بھی ہمت نہ کر سکے۔ ان کے جسم گھبراہٹ سے پسینے میں بھیگ گئے، وہ چاہتے تھے کہ جتنی جلد ہو سکے اس گلی سے بھاگ جائیں لیکن ایسا لگا کہ ان کے جسموں میں جان ہی نہیں رہی اور ان کے قدم من من کے ہو گئے ہیں۔ کشمیر کی ان دو بیٹیوں کی تصاویر ایک بار پھر دیکھ لیجئے جن میں سے ایک میں سولہ سترہ سال کی ایک معصوم صورت بیٹی بھارتی فوجی کے بوٹ پر دونوں ہاتھ رکھے بے بسی کی تصویر بنے اس کی جانب رحم آمیز نظروں سے بھیک مانگتی دکھائی دے رہی ہے اور دوسری تصویر میں ایک نوجوان کشمیری عورت کو بھارتی فوجیوں نے مضبوطی سے ایک ہاتھ اس کے سینے پر اور دوسرا جسم کے نچلے حصے پر مضبوطی سے رکھا ہوا ہے، جس سے اس کا جگہ جگہ سے برہنہ جسم چیخ چیخ کر آسمان والے سے فریاد کر رہا ہے! پھر کہتے ہیں کہ برہان مظفر وانی دہشت گرد تھا! قرآن حکیم کہتا ہے کہ ہم تمہاری جانچ پرکھ کریں گے یہاں تک کہ یہ حقیقت سامنے آ جائے کہ کون لوگ تم میں سے سچے مجا ہد اور صابر ہیں(مفہوم)۔