نریندر مودی نے طبل جنگ بجاتے ہوئے پاکستان کے خلاف بلوچستان، کراچی، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چوری چھپے کی جانے والی اندرونی مداخلت کو اب کھلے عام انجام دینے کا اعلان کر کے دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ بادی النظر میں بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے اس الزام کو تسلیم کر لیا ہے کہ گلگت کے فرقہ وارانہ فسادات سمیت بلوچستان اور کراچی میں جاری دہشت گردی میں اسی کا ہاتھ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب وہ پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاںدیتے ہوئے سامنے آ گیا ہے۔ مودی کی ہرزہ سرائی پر پاکستان میں بھارت نواز دانشور ہاتھ مل رہے ہیںکہ ہمارے اتحادی نے یہ کیا کہہ دیا ہے، اس طرح تو پاکستان کا بلوچستان اور کراچی میں بیرونی مداخلت کا کیس پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گا کیونکہ دنیا یہی سمجھنے لگے گی کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے اور آئے روز کے بم دھماکوں میں بھارت ہی ملوث تھا۔ بھارت کے 70ویں یوم آزادی پر لال قلعہ دہلی میں طاقت کے نشے میں چور بھارتی وزیر اعظم اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کے سامنے اکڑ اکڑ کر تسلیم کرتے رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کی وہ مکتی باہنی ہماری تھی، وہ ہم ہی تھے جس نے پاکستان کو رگڑا دیا تھا۔
مودی کے اس اعتراف سے صاف لگ رہا ہے کہ پاکستان کے اندر انتشار اور فسادات پھلانے کے لئے نریندر مودی وہی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے جو اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لئے تیار کیا تھا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ گلگت کی مساجد اور مدرسوں سے پکڑے جانے والے ان ہندو امام مساجد کے پورے گروہ کو عوام اور دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے لے کر آئے جنہیں بھارت نے گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات کے لئے پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی پلانٹ کیا تھا۔ قوم کو بتایا جائے کہ کس طرح یہ گروہ چھوٹی مساجد سے بڑی اور پھر مدرسے قائم کرنے میں کامیاب ہوا اور ان مدرسوں سے فارغ التحصیل لڑکے اب کس کس جماعت اور گروپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں؟ اب کچھ بھی نہیں چھپانا چاہیے کیونکہ یہ سب راز وزارت داخلہ نے اپنے سینے میں لے کر تو نہیں جانا؟
بد قسمتی سے آج بھارت کو پاکستان کے اندر سے ہی میڈیا کے بڑے بڑے گروپوں کی مدد حاصل ہے جو اس کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو بدنام اور کمزورکرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔1971ء میں اس قسم کے ننگ وطن بہت کم تھے جو بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے بھارت کی مدد کر رہے تھے اور جنہیں بنگلہ دیش وجود میں آنے کے چالیس سال بعد ان کی ناقابل فراموش خدمات کے عوض بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے گلے لگاتے ہوئے سونے سے تیار کئے گئے ایوارڈ دیے اور جب یہ لوگ بنگلہ دیش سے واپس پاکستان آئے تو پنجاب حکومت کے خادم اعلیٰ نے ان کی بنگلہ دیش کے لئے انجام دی جانے والی خدمات اور ایوارڈ ملنے کی خوشی میں لاہور کے چند انڈر پاسز ان کے ناموں سے منسوب کر دیے تاکہ ملک کے باقی میڈیا کارکنوں کی بھارت نوازی کے لئے حوصلہ افزائی ہو جائے، جس کا عملی مظاہرہ ہم اپنے کئی ٹی وی چینلز پر روزانہ دیکھ رہے ہیں۔کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش دھماکوں کے ذریعے 74
انسانوں کا خون پینے والی نریندر مودی کے نام سے جانی جانے والی ڈائن اس بات پر غصے میں بھری بیٹھی ہے کہ جب پاکستان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ گجرات ہو یا کشمیر، کراچی ہو یا بلوچستان اس ڈائن کا کام ہی مسلمانوں کا خون پینا ہے تو پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اسے دنیا بھر میں بدنام کیوں کیا جا رہا ہے؟ نریندر مودی نے کسی بھی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستان کے مختلف حصوں میں پہلے سے شروع کرائی گئی علیحدگی کی تحریکوں کو اب کھلم کھلا اپنی گود لینے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے جس کے لئے پاکستان کو پہلے سے بھی زیا دہ ہوشیار اور تیار رہنا ہو گا۔پاکستان کی بد قسمتی دیکھیے کہ نریندر مودی تو میڈیا کے سامنے ببانگ دہل اعلان کرتے ہوئے بلوچستان، آزاد کشمیر، کراچی اور گلگت بلتستان میں علیحدگی کی موومنٹ چلانے کا اعلان کر رہا ہے لیکن اسے اسی زبان میں جواب دینے کے لئے ہماری سب زبانیں خاموش ہیں۔ ہماری وزارت خارجہ اور وزیر اعظم ہائوس میں مکمل خاموشی چھا ئی ہوئی ہے اور کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کر رہا کہ اگر بھارت نے پاکستان میں کسی علیحدگی کی تحریک کے نام سے دہشت گردی اور امن و امان تباہ کرنے کی کوشش کی تو پھر پاکستان کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ بھارت کے اندر چلنے والی67 علیحدگی کی تحریکیوںکو اپنے کنٹرول میں کرنے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہوئے بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکے گا۔ لیکن افسوس، نہ جانے نریندر مودی کی کسی بد معاشی اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے کھلے اعلان پر ہمارے وزیر اعظم کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟
اگر کوئی نریندر مودی کو منہ توڑ جواب دینے والا ہوتا تو وہ بھارتی عوام کو ببانگ دہل بتاتا کہ اگر تمہارے وزیر اعظم مودی نے بلوچستان اور کراچی اورگلگت سمیت پاکستان کے کسی بھی علا قے میں آج کے بعد دہشت گردوں کی مدد کی یا ان کی مدد کرنے کی ذرا سی بھی کوشش کی تو پھر پاکستان بھی اروناچل پردیش میں بھارتی تسلط کے خلاف بر سر پیکار ''ارونا چل ڈریگون فورس‘‘ کی مدد کو آ سکتا ہے اور ان تحریکوں کو جب پاکستان سے مدد ملنا شروع ہو گی تو بھارت کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس نے پاکستان میں مداخلت کرتے ہوئے کتنی بیوقوفی کی ہے۔ اس کے بعد آسام میں بھارت کے خلاف گوریلا سرگرمیوں میں مصروف عمل مسلم یونائیٹڈ لبریشن اور ٹائیگر آف اسلام کے لئے پاکستانی امداد واجب ہو جائے گی۔کیا بھارت اس سے بے خبر ہے کہ اس کے اندر اس وقت67 علیحدگی کی تحریکیں بھارتی تسلط سے آزاد ہونے کے لئے مسلح جدو جہد کر رہی ہیں، جن میں سیون سسٹرز کے نام سے منی پور، میزو رام، ناگا لینڈ، جموں و کشمیر، پنجاب ، تری پورہ ، بنگال ،چھتیس گڑھ، اڑیسہ، بہار، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر شامل ہیں۔ اگر نریندر مودی دیکھنا چاہتے ہیں تو دارجلنگ کی جانب جانے والی سڑک کے کنارے لگے ہوئے مائیلج بورڈ کو دیکھ لیں جس پر دارجلنگ41 کلومیٹر لکھا ہوا ہے اور اس کے نیچے انگریزی میں سرخ اور سبز رنگوں سے بڑے صاف حروف میں لکھا ہوا نظر آئے گا کہ ''ہم آزاد ناگا لینڈ چاہتے ہیں‘‘۔ پاکستان بھی گورکھا لینڈ کے لئے گزشتہ پچاس سالوں سے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدو جہد کرنے والوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔ دنیا کے سامنے آج سے نہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے مائو نواز نکسل باڑی موومنٹ نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں اور اس نے صرف گزشتہ ایک سال میں بھارتی فوج کے909 افسروں اور جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں سمیت لداخ پانچ دہائیوں سے بھارت سے آزادی مانگ رہا ہے۔
شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں تری پورہ، میگھالیہ، میزو رام، منی پور، آسام اور نا گا لینڈ میں بھارتی فوج سے جاری جنگ میں پاکستان کے کوبھی حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ بھارت کو جواب دینے کے لئے ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہوئے بھارت کو منہ توڑ جواب دے ۔ پنجاب ببر خالصہ، خالصتان کمانڈو فورس اور بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس کی مدد کوئی مشکل نہیں رہے گی ۔ چین اچھی طرح جانتا ہے کہ سنکیانگ میں بھارت علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے تو پھر بھارت اپنے شمال مشرقی زون کا نقشہ سامنے رکھ کر اچھی طرح سے دیکھ لے کہ منی پور، میزو رام،ناگا لینڈ، ارونا چل پردیش، آسام، میگھالیہ، مغربی بنگال ، اڑیسہ، جاڑ کھنڈ اور بہار کی علیحدگی پسند تحریکوں تک چین کے لئے پہنچنا قطعی دشوار نہیں ہو گا۔