ایوان میں اپو زیشن لیڈر خور شید شاہ نے وہی کچھ کہا جو مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے افواج پاکستان اور ان کی ایجنسیوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ایوان میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کی تعریف کر تے ہوئے بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ خورشید شاہ، محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کے ہم خیال نہیں ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ 'صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کے مصداق ان کے ایک سرکاری کالم نگار نے جس کا نون لیگ سے تین دہائیوں سے تعلق ہے، گیارہ اگست کے کالم میں وہی زبان استعمال کی جو محمود خان اچکزئی اور خورشید شاہ نے استعمال کی ہے۔ اگر آپ صاف صاف سننا چاہتے ہیں تو سنیے، باوثوق ذرائع کے مطابق خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان کی تقریر کے جواب میں جو کچھ کہا اس کا مسودہ انہیں ان کے چیمبر میں پہلے سے پہنچا دیا گیا تھا اور انہوں نے وہی کچھ کہا جو انہیں کہا گیا تھا۔ فیلڈ مارشل کے لالی پاپ سے اگر دل بہلانے کا شوق بڑھ گیا ہے تو پھر ٹھیک ہے لیکن اگر ملک کو ڈوبنے سے بچانے میں کوئی واقعی سنجیدہ ہے تو اس بات کی تحقیق کی جا سکتی ہے۔
گیارہ اگست کے اخبارات میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور قہقہے لگاتے ہوئے اکٹھے اسمبلی ہال میں داخل ہونے کی تصویریں سب نے دیکھی ہیں، یہ تصویریں اس وقت لی گئیں جب وزیر اعظم اپوزیشن کو بائیکاٹ کرکے لابی میں جا کر بیٹھ جانے کے بعد بظاہر خود منانے کے لئے پہنچے تھے۔ جیسا کہ شیخ رشید متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کے لئے صرف چار ووٹوں کی ضرورت تھی اور انہوں نے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے تحریک انصاف کی جانب سے پورے ووٹ نہیں دے سکتے تو اپنے سمیت صرف تین اور ووٹ دے دیں کیونکہ میرے پاس اپوزیشن لیڈر بننے کے لئے صرف چار ووٹوں کی کمی ہے۔ شیخ رشید کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کیونکہ ایم کیو ایم بھی جناب الطاف حسین کے کہنے پر شیخ رشید کے نام پر راضی ہو چکی تھی اور میں اس بات کا گواہ بھی ہوں کیونکہ میری اس مسئلے پر جناب الطاف حسین سے لندن میں تین چار مرتبہ بات ہو چکی تھی اور وہ شیخ رشید کو ووٹ دینے کے لئے مکمل طور پر تیار ہو چکے تھے؛ بلکہ الطاف حسین نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آصف علی زرداری ان سے اس بات پر ناراض بھی ہوتے ہیں تو مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ پیغام رحمان ملک اور ڈاکٹر عاصم کے ذریعے ان تک پہنچا بھی دیا تھا، اس بات کی ان دونوں اصحاب سے آج بھی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
جیسے ہی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ایک نشست والے شیخ رشید احمد کے اپو زیشن لیڈر بنائے جانے کی خبر ملی تو وہ اور ان کی جماعت کے سب لیڈر سٹپٹا کر رہ گئے کیونکہ اس طرح تو ججز کی تعیناتی سے لے کر الیکشن کمیشن تک اور پبلک اکائونٹس کمیٹی سے لے کر آڈیٹر جنرل کے تقرر تک ہر بات پر میاں نواز شریف کو شیخ رشید سے مشورہ کرنا پڑنا تھا جسے وہ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت تحریک انصاف میں حکومتی ارکان کو کام دکھانے کا حکم دیا گیا اور انہوں نے عمران خان کو اپنے جال میں ایسا پھنسایا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی تحریک انصاف میں حکومتی ایجنٹوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے شیخ صاحب کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لئے کافی ہاتھ پائوں مارے لیکن تحریک انصاف الیون کا کپتان بے بس ہو کر ٹیم کا بارہواں کھلاڑی بن کر رہ گیا اور سید خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کامیابی صرف اور صرف میاں نواز شریف کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکی۔ تحریک انصاف کے ان ارکان کے نام میں اچھی طرح جانتا ہوں، ان میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔ تحریک انصاف سے والہانہ اور بے لوث عشق کرنے والے سوچیں کہ اگر خور شید شاہ کی جگہ شیخ رشید احمد اپوزیشن لیڈر ہوتے تو کیا آج حالات اس قسم کے ہوتے ؟ کاش! عمران خان آج بھی سمجھ جائیں اور اپنی کشتی سے ان ارکان کو اتار کر پھینکیں جنہوں نے سید خورشید شاہ کے اپو زیشن لیڈر بننے میں در پردہ میاں محمد نواز شریف کی مدد کی تھی۔ یہ نام کوئی چھپے ہوئے بھی نہیں، عمران خان کو ان کی شکلیں اچھی طرح یاد ہیں کیونکہ وہی تو انہیں ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ لوگ کور کمیٹی میں بھی شامل ہیں اور وہ ایک ایک خبر آئی بی اور وزیر اعظم ہائوس تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے پر پھر کبھی تفصیل سے حقائق لکھوں گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے ان لیڈروں نے مجھے اپنی میڈیا لسٹ سے خارج کیا ہوا ہے۔
میرے ساتھ ایک عجب تماشا یہ بھی ہے کہ مجھے پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ شاید میں عمران خان کے بہت قریب ہوں جبکہ سچ یہ ہے کہ مجھے ان سے ملاقات کیے تین سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔کچھ مہربان افواج پاکستان کی حمایت پر نہ جانے مجھے کن الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں، میں انہیں کیا بتائوںکہ مجھے آئی ایس پی آر والوں کی شکل دیکھے بھی چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، میں جو کچھ بھی لکھتا ہوں وہ عمران خان یا آئی ایس پی آر کے لئے نہیں بلکہ اپنے دل کی آواز اور وطن کی پکار پر سپرد قلم کر دیتا ہوں۔ ان آوازوں پر لبیک کہنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں، یہی وجہ ہے کہ لکھنے والوں نے مجھے کبھی کسی سیا سی، سرکاری اور عسکری تقریب یا بریفنگ میں نہیں دیکھا ہوگا۔
تحریک انصاف کے وہ لوگ جنہیں اس ملک سے پیار ہے، جو واقعی اس ملک میں نظام کی تبدیلی کے خواہاں ہیں، جو سوشل میڈیا پر صبح شام ایک کیے رہتے ہیں، جنہیں کسی منفعت کی ضرورت نہیں، جنہیں عمران خان اپنے ٹائیگر کے نام سے پکارتے ہیں اور جو تن تنہا مسلم لیگ نواز کی میڈیا ٹیم کا مقابلہ کر رہے ہیں، انہیں عمران خان تک اپنی آواز پہنچانی ہوگی۔ انہیں بتانا ہوگا کہ ٹی او آرز پر پانچ ماہ کا عرصہ تو پہلے ہی آپ نے ضائع کر دیا، اب خدا را جن لوگوں کی جانب سے آپ کو ٹریپ کیا جا رہا ہے ان کے جھانسے میں آنے کی بجائے اپنی تحریک کو عملی شکل دیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ آپ کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم کا اگر کوئی وجود ہے بھی تو وہ یا تو نااہل اور نکمی ہے یا جان بوجھ کر چپ سادھے بیٹھی رہتی ہے، اسے اپنے ارد گرد دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ جب سے چارسدہ یونیورسٹی میں تیس سے زیادہ طالب علموں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا واقعہ ہوا ہے، وزیر اعظم نواز شریف ایک بار بھی وہاںنہیں گئے مگرتحریک انصاف کو خبر ہی نہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اے این پی کے دور حکومت میں ایبٹ آباد میں بارہ افراد کے بہیمانہ قتل و غارت کو عوام کے سامنے نہیں لا سکی جبکہ ان کے مقابلے میں نواز لیگ نے پشاور میں چوہوں کی بہتات کو دو ماہ تک ٹی وی ٹاکس کا مرکز بنائے رکھا۔ لیکن عجب تماشا دیکھیے کہ راولپنڈی میں چھرا گروپ نے اب تک 35 خواتین کو شدید زخمی اور ایک نرس کو ہلاک کر دیا ہے، لیکن اس پر تحریک انصاف چپ سادے بیٹھی ہے۔