"MABC" (space) message & send to 7575

لالے کدھر بھاگ رہے ہو؟

پاک فوج کا پوما ہیلی کاپٹر جو گلگت سے راولپنڈی کی جانب محو پرواز تھا جیسے ہی چلاس کے قریب پہنچا اس میں سوار فوجی افسران کی نشستوں کے عین درمیان سے دھواں اٹھنا شروع ہو گیا اور جلد ہی ہیلی کاپٹر میں بھر گیا۔ اس ہیلی کاپٹر میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہنے والے میجر جنرل امتیاز وڑائچ بھی سوار تھے جوکمانڈر FCNA کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ وہ اپنے چند سرکاری امور نمٹانے کے بعد گلگت سے واپس راولپنڈی جا رہے تھے۔ ان کے علاوہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اسی ہیلی کاپٹر میں سوار تھے۔ وہ اس وقت گلگت میں بطور کیپٹن ایک انفنٹری بریگیڈ میں GSO-3 خدمات انجام دے رہے تھے اور اپنی یونٹ کے افسر احسان غازی کے ہمراہ راولپنڈی جا رہے تھے۔ میجر احسان اس وقت بطور لیفٹیننٹ استور سیکٹر میں کامری کے مقام پر تعینات تھے۔ ہیلی کاپٹر میں دھواں بھرنے پر اس میں سوار افراد میں تشویش بڑھ گئی۔ چنانچہ ہیلی کاپٹر کے عملے نے اسے پتن کے قریب شاہراہ قراقرم پر اتار لیا۔ جیسے ہی ہیلی کاپٹر شاہراہ قراقرم پر رکا اور ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھولا گیا تو سب لوگ افراتفری میں چھلانگیں لگاتے باہر کود کر بھاگتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے کافی دور جا کر کھڑے ہوگئے۔ لیکن ایک افسر جس کانام کیپٹن راحیل شریف تھا بڑے آرام سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھا رہا۔عجیب صورت حال پیدا ہو گئی کیونکہ 6FF کے افسر احسان غازی جو بعد میں بطور میجر سروس سے ریٹائر ہوئے، کیپٹن راحیل کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اورجلد از جلد ہیلی کاپٹر سے نکلنا چاہتے تھے۔ دھواں ختم نہیں ہو رہا تھا جس سے سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا لیکن انہیں یہ مجبوری آڑے آ رہی تھی کہ ان کے باہر نکلنے کے راستے میں کیپٹن راحیل حائل تھے اور وہاں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اس پر لیفٹیننٹ احسان غازی نے ان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر باہر کودنے کی کوشش کی تو کیپٹن راحیل نے انہیں پیچھے سے پکڑتے ہوئے کہا: ''لالے کدھر بھاگ رہے ہو‘‘۔ جب کیپٹن راحیل نے احسان غازی کو پیچھے سے پکڑا تو انہوں گھبرائے ہوئے لہجے میںکہا تھا سر! آپ دیکھ نہیں رہے ہیلی کاپٹر میں ہر طرف دھواں ہے، یہ کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے اور دھماکے کے ساتھ ہر طرف تباہی پھیل سکتی ہے۔ احسان غازی کی بات سن کر کیپٹن راحیل شریف نے اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا تھا: ''اسیں عملے نوں چھڈ کے کس طرح جا سکدے آں لالے‘‘۔ میجر احسان کہتے ہیں کہ اس پر مجھے کچھ شرمندگی ہوئی لیکن ان کے اعصاب کی مضبوطی اور ہیلی کاپٹر کے عملے سے ان کی محبت دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ملا۔ اس دوران ہیلی کاپٹر سے بھاگ کر دورکھڑے ہمارے ساتھی افسران اونچی اونچی آوازوں میں ہمیں جلد از جلد ہیلی کاپٹر سے باہر نکلنے کی آوازیں دیئے جا رہے تھے لیکن راحیل شریف اس وقت تک ہیلی کاپٹر میں رہے جب تک تمام عملہ باہر نہیں نکل گیا۔ اس دوران وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر دھویںکی وجہ کیا ہے کیونکہ دھواں کاک پٹ سے نہیں بلکہ صرف اسی جگہ سے اٹھ رہا تھا جہاں سب لوگ بیٹھے تھے۔ بعد میں ہیلی کاپٹر کے عملے نے چند منٹ کی کوشش سے دھویںکی اصل وجہ کا سراغ لگا کر اس پر قابو پا لیا۔ 
ہیلی کاپٹر کے پائلٹ اور فلائٹ انجینئر نے باہر نکل کر چند لمبی لمبی سانسیں لیں اور پھر کیپٹن راحیل شریف کو زور سے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ آپ کی نشاندہی کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو سکا کہ ہم نے مل کر بہت جلد دھویں کا سبب معلوم کر لیا۔ دراصل دھواں وائر لیس سیٹ کے ساتھ منسلک انٹینا کی تار شارٹ سرکٹ ہو جانے کی وجہ سے پھیل رہا تھا۔ پھر ایوی ایشن کے قواعد کے مطابق پوما ہیلی کاپٹر کو ایک بار پھر اچھی طرح چیک کرنے کے بعد فلائٹ انجینئر اور دوسرے عملے نے مطمئن ہونے کے بعد او کے رپورٹ میں لکھ دیا کہ ہیلی کاپٹر میں اب کوئی فنی خرابی نہیں ہے اور یہ اب سفر کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے یہ لکھ کر لاگ بک پر دستخط بھی کر دیے۔ چنانچہ ہیلی کاپٹر کا سفر ایک بار پھر راولپنڈی کی جانب شروع ہوگیا۔ 
1981ء کے کیپٹن راحیل جو آج پاکستان آرمی کے چیف ہیں، اسی بے خوفی کے ساتھ افواج پاکستان کے سپاہی سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک کے کندھے سے کندھا ملا کر ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ جنرل راحیل شریف صبح اگر راجگال کے دروں میں اپنے جوانوں کے ہمراہ نعرہ تکبیر کی گونج بڑھا رہے ہوتے ہیں تو شام کو اورکزئی ایجنسی میں اپنے جوانوں اور افسروں کے حوصلے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ ابھی وہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بلو چ عوام کو اپنے سینے سے لگائے کھڑے دیکھے جا رہے ہیں تو اگلے دن فاٹا میں IDP's کو یقین دلا رہے ہوتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، جلد ہم سب مل کر علا قے میں مکمل امن قائم کریں گے اور علاقے کو خوشحال بنائیں گے۔
اپنے ساتھی فوجی افسران اور جوانوں کے ساتھ جنرل راحیل شریف کی بے پناہ محبت اور شفقت دیکھتے ہوئے لوگ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جس گھر میں ایک نہیں بلکہ دو نشان حیدر ہوں ان کی رگ رگ میں وطن کی محبت اور سرشاری کا جذبہ پوری آب وتاج سے مچلتا ہے۔ جرأت اور بہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیکھ کر جوان ہونے والا راحیل شریف اگر مایوس یا خوف زدہ ہوگا تو اسے علم ہے کہ نشان حیدر اس کو پکڑ کر کہے گا: ''لالے بھاگ کرکدھر جا رہا ہے‘‘۔ 
پاکستان کا آئین افواج پاکستان پر ذمہ داری عائد کرتا ہے وہ کسی بھی وقت ملک و قوم کو پیش آنے والے اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ کرتے ہوئے ملکی وقار اور سالمیت کا تحفظ کریں گی۔ یہ آج کا نہیں بلکہ صدیوں پہلے ایک سپاہی کا اپنی قوم سے وعدہ تھا کہ ''تم ہمیں عزت دو ہم تمہارے لیے اپنی جان دیں گے‘‘اور یہ عہد افواج پاکستان کے ہر جوان نے چاہے وہ ہوائوں کا مسافر ہو یا گہرے سمندروں کا باسی وہ سلگتے ریگستانوں میں کھڑا ہو یا دانت بجاتی برف پوش وادیوں میں مورچہ زن ہو، ان سب نے اپنے وطن کو اندرونی اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے حلف کی پاسداری کرنی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی پیٹھ دکھا کر دشمن کے وار سے بچنے کے لئے نہ پہلے کبھی بھاگا تھا اور نہ آئندہ بھاگے گا بلکہ ایک چٹان کی طرح دشمن اور اس کے ''کاغذی ایجنٹوں‘‘ کے مقابلے میں ملک کی سالمیت کے لئے ڈٹ کر کہہ رہا ہوگا: ''تم ہمیں آواز دو ہم تمہارے لیے جان دیدیں گے‘‘۔ آج ہیلی کاپٹر کا عملہ نہیں بلکہ ملک آگ اور دھوئیں میں ہے۔۔۔۔!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں